ترک
خواتین
یہ ایک صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں
ترکیہ
اور شام میں آنے والے زلزلے سے ساری انسانیت اشک بار ہے۔ منہدم عمارات اور کچلے معصوم لاشوں کو دیکھ کر دل
ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اسی دوران ترک خواتین کی پون صدی پر مشتمل جدوجہد رنگ
لاتی نظر آرہی ہے۔ یہ اعصاب شکن و جاں گسل جدوجہد دوگز کپڑے کیلئے ہے جو حوا کی
بیٹیاں اپنےسروں پر رکھنا چاہتی ہیں۔ معلوم نہیں اس چار گرہ کے ڈوپٹے اور آنچل میں
کیا تباہ کاری چھپی ہے کہ مغرب کو اس سے اپنی
پوری تہذیب زمیں بوس ہوتی نظر آرہی ہے۔ بقول امام خمینی، یورپ ہمارے تباہ کن ہتھیاروں سے اتنا خوفزدہ نہیں جتناڈر اسے ہماری بچیوں کے
آنچل سے ہے
'حقِ
اظہارِ حیا' کے حصول کیلئے ترکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ترک تاریخ کے مقبول ترین
وزیراعظم عدنان منیدریس اپنے وزرائے خارجہ وخزانہ کے ہمراہ پھانسی چڑھے۔ شہید عدنان میندریس مسلسل تین بار
وزیر اعظم منتخب ہوئے ،1954 کے انتخابات میں انکی پارٹی نے 541کےایوان میں 502نشستیں جیتیں۔ جناب
میندریس پر جو فرد جرم عائد ہوئی اسکے مطابق دینی مدارس کی بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجرا
، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کو سر ڈھانکنے کی اجازت، ریاست کے خلاف
گھناونا جرم اور سیکیولر ازم سے صریح انحراف قرار پائی۔ 'استغاثہ' نے ثبوت کے طور پر
پارلیمان میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو اور
وزیراعظم کے درمیان مکالمہ پیش کیا۔ ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے جناب عدنان میندریس نے ایک معصوم سا سوال کیا کہ اگر
خواتین بلا کسی جبر، اپنی مرضی و رضا سے
سر ڈھانک کر گھر سے باہر آئیں تو اس سے سیکیولراقدار کیسے متاثر ہونگی۔ اس پر حزب اختلاف کے کسی رکن نے
کہا کہ حجاب ایک مذہبی علامت ہے جسکی عوامی مقامات پر نمائش و اظہار قانون کے منافی
ہے۔ وزیر اعظم نے کہا 'پھر تو پارلیمان کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون
سازی کرنی چاہئے' اس پر قائد حزب اختلاف نے پوچھا کہ کیا آپ پارلیمان کے ذریعے شریعت لانا چاہتے ہیں؟
تو جناب میندریس نے کہا 'یہی جمہوریت یے
اور اگر پارلیمان چاہے تو ملک میں شریعت نافذ ہوسکتی ہے" اس بات پر وزیرخارجہ
فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جبکہ وزیر
خزانہ حسن ارسلان بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔
یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا اسکا
اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے پریس کو جاری
کیا۔ محمد فیاض کے مطابق صدر جمال گرسل نے
جناب میندریس اور انکے ساتھیوں کے پروانہ
موت (ڈیتھ وارنٹ) پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مقدمے میں انصاف
کے تقاضے پورے نہیں ھوئے۔
اس عبرتناک
انجام سے بھی اسلام پسندوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور 'حق اظہارِ حیا' کی جدوجہد
جاری رہی۔ جون 1996 میں پروفیسر نجم الدین اربکان المعروف
'خواجہ صاحب' سیکیولر جماعت راہِ مستقیم پارٹی (DYP)سے شراکتِ اقتدار کا معاہدہ کرکے وزیراعظم بنے
تو انھوں نے سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی ہٹانے کی کوششیں شروع کردیں۔ قارئین
کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ پروفیسر صاحب سابق امیرِ جماعت اسلامی پاکستان، قاضی
حسین احمد کے گہرے دوست تھے۔ حجاب پر پابندی کے خاتمے کی راہ مستقیم کی سربراہ اور
نائب وزیراعظم محترمہ تانسو چلر بھی حامی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ پارلیمان میں کوئی
قراراداد آتی، ترک فوج نے خواجہ صاحب کے دینی رجحان پر تشویش
کا اظہار شروع کردیا اور صرف ایک سال بعد نہ صرف انکی حکومت برطرف کردی گئی
بلکہ انکی جماعت پر بھی پابندی لگادی گئی۔
پھانسی برداشت کرنے والوں کیلئے اقتدار سے معزولی اور جماعت
پر پابندی کیا چیز تھی۔ رفاح پارٹی پر پابندی لگتے ہی اسلام پسند پروفیسر صاحب کی قیادت میں فضیلت پارٹی (FP)کے نام سے منظم ہوگئے اور 1999 کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری
بڑی جماعت بن کر ابھری۔ مزید یہ کہ فضیلت
کے ٹکٹ پر محترمہ مروہ صفا قاوفجی Merve
Safa Kavakcıرکن
پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ جب مروہ حلف اٹھانے پہنچیں تو وہ اسکارف اوڑھے ہوئے تھیں
چنانچہ انھیں دروازے پر روک لیا گیا۔ ڈاکٹر مردہ کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی
کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مروہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کردیا
جس پر پارلیمان سے انکی رکنیت ختم کرنے کیساتھ وزارت انصاف نے فضیلت پارٹی کو بھی کالعدم کردیا۔
مروہ
قرآن کی حافظہ ہونے کیساتھ امریکہ کی موقر جامعہ ہارورڈ سے پی ایچ ڈی ہیں۔ رکنیت
کی منسوخی پر وہ امریکہ چلی گئیں جہاں انھوں نے جامعہ
Howard اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی
میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں مروہ نے
بہت ہی مغموم لہجے میں کہا کہ انکے حجاب سے امریکی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ
اسکارف کے ساتھ سارا کام کرتی ہیں لیکن میرے ملک کے امن کو دو میٹر کے اس کپٖڑے سے
سخت خطرہ لاحق ہے۔ ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب
اللہ
کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعدطیب رجب ایردوان کی قیادت میں اسلام پسند پھر برسراقتدار آگئے۔ فٹبال کا یہ کھلاڑی اسوقت 48 سال کا جوانِ رعنا تھا۔ جس زمانے میں
ایردوان استنبول کے رئیس شہر (Mayor)تھے، انھیں ایک
رزمیہ نظم پڑھنے کا 'الزام' میں
سزا بھی ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات کہ جس روز نظم پڑھنے کے جرم میں ایردوان جیل بھیجے
جارہے تھے اسی دن انھوں نے 'نغمات یوں نہیں مرتے ' کے عنوان سے اپنی آواز میں 4معروف
شعرا کے 8 انقلابی گیتوں پر مشتمل ایک پورا
البم جاری کردیا۔ صرف ایک ہفتے میں اس البم
کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں، جناب ایردوان
نے ساری کی ساری آمدنی ترک شہدا کی پسماندگان کیلئے وقف کردی۔
جناب
ایردوان کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد سرکاری تقریبات میں خاتونِ اول اور وزرا
کی بیگمات کی عدم شرکت پر اعتراض ہوا لیکن وزیراعظم کی اہلیہ محترمہ امینہ
ایردوان نے صاف صاف کہدیاکہ میں حجاب
کے بغیر گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
جولائی 2016 میں مصر، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے ترک
افواج کے سیکیولر عناصر نے ایردوان حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ بمباری اور فائرنگ کے باوجود ترک عوام نے مسلح باغی فوجیوں کی مشکیں کس دیں اور یہ نام
نہاد انقلاب سختی سے کچل دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بغاوت کو عدلیہ
اور سول افسران کے ایک حصے کی حمائت بھی حاصل تھی۔ غیر آئینی سرگرمیوں کے ذمہ
داروں کو سزائیں دینے کیساتھ ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا اور انتظامیہ سیکیولر انتہا
پسندوں سے بڑی حد تک پاک ہوگئی۔ اسی دوران حکومت نے بیرون ملک تعینات سفارتی عملے کیلئے
حجاب کی پابندی ختم کردی اور 2017 میں مروہ صفا قاوفجی
پورے وقار کیساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقرر کردی گئیں۔
گزشتہ سال کے وسط سے حجاب پر پابندی
کے خاتمے کیلئے ٹھوس و پائیدار اقدامات پر غور شروع ہوا۔ شروع میں خیال تھا کہ اس کیلئے
ایک صدارتی حکمنامہ (آرڈیننس) کافی ہوگا لیکن آئینی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر
مستقبل میں انتہا پسند انتخاب جیت گئے تو پوری بساط لپیٹی جاسکتی ہے۔ چنانچہ طئے پایا
کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حجاب کو تحفظ فراہم
کردیا جائے۔
ترکیہ میں آئینی ترمیم کیلئے مسودہ سب سے پہلے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے
دستور میں پیش کیا جاتا ہے۔ مجلس قائمہ میں
پیشی کیلئے ترمیم کی حمائت میں پارلیمان
کے نصف سے زیادہ ارکان کے دستخط ضروری ہیں۔ ترک پارلیمان 600 ارکان پر مشتمل ہے۔ مجلس
قائمہ سے منظوری کے بعد پارلیمان میں رائے شماری کے دوران ترمیم کے حق میں کم ازکم
3/5یا 360 ووٹ نہ آ نے پر مسودہ ردی کی
ٹوکری میں ڈالدیا جاتا ہے۔ اگر 360 سے زیادہ لیکن 400 سے کم ارکان نے ترمیم کے حق
میں ہاتھ اٹھائے تو معاملہ صدر کے سامنے پیش ہوگا۔ ایوانِ صدر ترمیم پر مزید
مباحثے اور دوبارہ رائے شماری کیلئے اسے پارلیمان
کو واپس بھیج سکتا ہے اور صدر کو یہ اختیار
بھی ہے کہ وہ ترمیم پر عوام کی رائے معلوم کرنے کیلئے اسے ریفرنڈم کیلئے پیش کردے۔
اگرریفرنڈم میں نصف سے زیادہ ووٹروں نے ترمیم کی توثیق کردی تو یہ آئین کا حصہ
بن جائیگی۔دو سری طرف اگر رائے شماری کے
دوران 400 سے زیادہ ارکانِ پارلیمان نے ترمیم
کی حمائت کردی توپھر ریفرنڈم کی ضرورت نہیں۔
دوہفتہ قبل پارلیمان کے اسپیکر مصطفےٰ سینتوپ Mustafa Şentop نے کہا تھا کہ اسکارف پر پابندی ختم کرنے کیلئے مجوزہ آئینی ترمیم
پرتمام جماعتیں متفق ہیں اور 366 ارکان نے
ترمیمی بل پر دستخط کردئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ترک
پارلیمان کی مجلسِ قائمہ برائے آئینی امور
نے دستور میں ترمیم کی توثیق کردی جسکے تحت حجاب پر پابندی غیر قانونی ہوگی۔ اسپیکر
کا کہنا ہے کہ 366 ارکان کے دستخطوں سے یہ
ترمیمی بل پیش کیا گیاہے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے
کہ کسی خاتون کو کسی بھی صورت، تعلیم، کام، ووٹ ڈالنے اور منتخب ہونے کے حق، سیاسی
سرگرمیوں، سول سروس یا مذہبی وجوہات کی بنا ء پر حجاب پہننے یا لباس کے حصے کے طور
پر سرکاری اور نجی اداروں کی جائیداد اور خدمات کو استعمال کرنے سے محروم نہیں کیا
جاسکتا۔ حجاب کی مذمت اور اس حوالے سےالزام، طنز، اسستہزا اور کسی بھی قسم کا
امتیازی سلوک غیر قانونی ہوگا۔اداروں کے یونیفارم میں بھی ریاست اس بات کو یقینی
بنائیگی کہ کسی خاتون کو مذہبی وجوہات کی بنا پر حجاب اور اپنی پسند کالباس پہننے
سے نہ روکا جائے۔اب یہ ترمیم بحث اور رائے شماری کیلئے پارلیمان میں پیش کی جائیگی۔
اسوقت ترک پارلیمان میں
برسرٓ اقتدار اتحاد کے پاس 335 نشستیں ہیں۔ سیکیولر خیالات کی حامل ریپیلکن پیپلز
پارٹی (CHP)کے
ارکان 135 نشستوں پر براجمان ہیں۔ ماضی میں حجاب کی شدید مخالفت کرنے والی ریپبلکن
پیپلزپارٹی نے بھی آئینی کمیٹی کے اجلاس میٓں ترمیم کی مخالفت نہیں کی ۔
ترک سیاسی حلقوں کا کہنا ہے
کہ ریپبلکن پارٹی ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر معاملے کو 14 مئی کے انتخابات سے پہلے
حل کرلینا چاہتی ہے تاکہ ریفرنڈم کی نوبت نہ آئے۔ سیکیولر عناصر کو ڈر ہے کہ عام انتخابات کے دوران اسکارف پر ریفرنڈم ہونے کی
صورت میں حجاب کی حمائت کرنے والوں کی
اکثریت صدرایردوان کے نام پر بھی ٹھپہ لگادیگی۔
اگرری پبلکن ڈیموکریٹک ہارٹی کے ارکان انفرادی آزادی، صنفی مساوات ، عمدہ طرز حکمرانی
اور برداشت کے کلچر کیلئے اپنے عزم پر قائم رہے تو امید ہے کہ یہ ترمیم مارچ تک
منظو ہوجائیگی، ورنہ صدر ایردوان نے اس پر ریفرنڈم کرانےکا عندیہ دیا ہے۔ رائے
عامہ کے جائزروں کے مطابق ترک خواتین کی تین چوتھائی اکثریت حجاب پر پابندی ختم
کرنے کے حق میں ہے۔ دلچسپ بات کہ اسکارف نہ اوڑھنے والی خواتین بھی پابندی کی مخالف
ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ اپنے لئے لباس کا انتخاب ہر فرد کا حق ہے اور حکومت کو اس میں
مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ ترک ٹیلی ویژن پر مباحثے میں یورپی اسکرٹ پہنے ایک خاتون نے کہا 'میرے لئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ
کوئی شخص مجھے برقعہ پہنے کو کہے تو پھر میں دوسرے کے برقعوں پر اعتراض کرنے والی
کون؟ کاش یہ سادہ سی مبنی برانصاف اور منطقی دلیل ترک اور یورپی روشن خٰیالوں کو سمجھ آجائے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 17 فروعری 2023
ہفت روزہ دعوت دہلی ، 17
فروری 2023
روزنامہ امت کراچی ، 17
فروری 2023
ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 فروری 2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment