اندرونی سیاست کا شاخسانہ
فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی
ارضِ فلسطین گزشتہ سات دہائیوں
سے لہو لہان ہے، لیکن 1996 میں انتہا پسند بن
یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی کے وزیراعظم
بننے کے بعد سے خونریزی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر کی 29 تاریخ کو بی بی نے چھٹی بار اسرائیلی وزارت عظمیٰ کا حلف
اٹھایا۔ اُس دن سے 29 جنوری تک 32 فلسطینیی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔
یعنی ہر روز ایک فلسطینی اپنی جان سے گیا۔ گزشتہ برس 300 فلسطینی مارے گئے تھے۔ان
بے گناہوں کی واضح اکثریت 13 سے 25 سال کے
نوخٰیز نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
نومبر 2022
کے انتخابی نتایج دیکھ کر مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے سیاسیات
کے علما نے خدشہ ظاہر کردیا تھا کہ مجرمانہ
ماضی کے حامل انتہاپسند جتھوں پر مشتمل بی بی کی نئی حکومت فلسطینیوں کیلئے عذاب ثابت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ نیتھن یاہو کے لیکڈ
اتحاد اور انکے قدامت پسند رفقا نے بھی
اپنے فلسطین کش عزم کی اظہار میں مداہنت سے کام نہیں لیا۔ ان انتخابات میں بی بی کے
لیکڈ اتحاد نے 32، دینِ صیہون (Religious Zionism)نے 14، شاس (پاسبانِ
توریت) نے 11 اور توریت پارٹی نے 7 نشستیں جیت کر مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔
ایک سو بیس رکنی اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں حکومت سازی کیلئے 61 ووٹ درکار ہیں۔
لیکڈ اور انکے تیں اتحادیو ں کی مجموعی نشستیں 64 ہیں لہٰذا بی بی نے اس بار قوم پرست اور دائیں بازو
کی سیکیولر جماعتوں کو حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ قوم پرست
سیکیولر عناصر اور مذہبی جماعتوں کے مابین سماجی معاملات پر خاصے اختلافات ہیں اور
انکی باہمی چپقلش کے نتیجے میں بی بی حکومت کو 1999 میں استعفی دینا پڑا تھا۔ اس
بار برسرِ اقتدار اتحاد، نظریاتی اعتبار
سے ہم آہنگ اور فلسطین کشی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر یکسو ہے۔
اتحادی جماعتوں میں سب سے
مضبوط دینِ صیہون جماعت، پارلیمان کی تیسری بڑی قوت ہے۔ یہ جماعت خود ہی کیا کم
تھی کہ عزمِ یہود (Otzma
Yehudit)اور خوشنودیِ رب پارٹی (Noam)
بھی اپنی
انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دینِ صیہون کا حصہ ہیں۔ گویا نفرت کا یہ دوآتشہ، نیم چڑھے کریلے کی بدترین مثال ہے
اسے دلچسپ کہیں یا افسوسناک
کہ مذہبی رہنماوں کیلئے فلسطینیوں کی نسل کشی انکے نظریاتی ایجنڈے بلکہ عقیدے پر بھی غالب آچکی ہے۔ حکومت سنبھالتے
ہی بی بی نے اسپیکر یاریو لیون (Yariv Levin)کو وزارتِ انصاف کا قلمدان پیش کیا ، چنانچہ لیون صاحب اسپیکر کے منصب سے
مستعفی ہوگئے۔ یاریو کی جگہ لیکڈ پارٹی نے 46 سالہ عامر اوہانہ (Amir
Ohana)کو اسپیکر کا امیدوارنامزد کیا۔ خیالات کے
اعتبار سے انتہائی قدامت پسند، مراکش نژاد عامر اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں جنھوں نے ایک مرد سے شادی کررکھی ہے۔ یہ
دونوں Surrogate
Motherکے ذریعے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے والدین بھی
ہیں۔اسپیکر صاحب خود کو اپنے بچوں کی ما ں کہتے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران مذہبی رہنماوں
نے وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آکر ہم جنس
پرستی کی ہرسطح پر مخالفت کی جائیگی۔ خوشنودیِ رب پارٹی کے سربراہ اوی معوذ صاحب تو
یہاں تک کہہ گئے کہ تھا کہ 2023
کی LGBTپریڈ انکی لاش پر ہوگی۔انتخابی مہم کے
دوران وہ حضرت لوطؑ کی قوم پر آنے والے عذاب سے اسرائیلیوں کو ڈراتے رہے۔ یہی حال
شاس کے سربراہ اور تلمود کے عالم أریہ مخلوف
درعي کا تھا۔ لیکن ہم جنسی کے خلاف گز گز بھر لمبی زبان نکال کر
تقریر کرنے والے سارے ”مولویوں” نے عامر اوہانہ کو ووٹ دئے۔بی بی نے ڈرایا تھا کہ
اگر ہمارا اسپیکر ہار گیا تو کوئی بھی ہدف حاصل نہ ہوسکے گا چنانچہ خُدّامانِ
توریت نے بڑے مقصد کے حصول کیلئے چھوٹی برائی قبول کرلی۔
بی بی نے کابینہ کیلئے جن انتہا
پسندوں کا انتخاب کیا وہ سب فلسطین دشمن تو ہیں ہی، ان میں سے کئی خود اسرائیلی
عدالتوں سے سزایافتہ تھے۔ کسی اور کا کیا ذکر خود بی بی صاحب پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا
ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب
حکومت ختم ہوگئی تو کرونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے۔
نئی حکومت کے وزیرصحت اور
نائب وزیر اعظم اٰریہ مخلوف درعی کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت
سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999
میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب
یہ سوال اٹھا کہ ایک 'مجرم' وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا
'جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے'؟ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے
تحت کنیسہ کے پہلے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کے ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو
قانونی تحفظ فراہم کردیاگیا۔
بی بی کو احساس تھا کہ ان تقرریوں
کے خلاف حزب اختلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا
سکتی ہے چنانچہ حلف اٹھاتے ہی وزیرانصاف نے
ایک مسودہِ قانون نیسہ (پارلیمان) میں پیش کردیا۔ نئے قانون کے تحت کنیسہ واضح
اکثریت یعنی 61 ووٹوں سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح
ججوں کی تقرری کیلئے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہوگا جسکی حتمی منظوری وزارت انصاف دیگی۔
اس قانون پر وکلا اور انسانی
حقوق کے کارکن سخت مشتعل ہوگئے اور بار کونسل نے ملک گیر ہڑتال کی۔ جب رم اللہ کے فلسطینی وکلا سے رائے لی گئی تو انھوں نے کہا ان تبدیلیوں سےہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ فلسطینیوں کیلئے اگر حکومت
قصاب ہے تو عدلیہ قصائی کے وہ 'چھوٹے' جو ذبیحے سے پہلے بسمل کے پیر باندھتے ہیں۔
اٰریہ مخلوف درعی کے حلف
اٹھاتے ہی اسرائیلی عدالت عالیہ کے دس میں
سے نو قاضیوں نے اخلاقی جرم میں سزا یافتہ ہونے کی بناپر موصوف کے تقرر کو 'انتہائی غیر معقول' قراردیتے ہوئے انھیں کابینہ سے ہٹانے کی سفارش
کی ہے۔ جناب د رعی نے اپنے خلاف عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ۔'اگر تم ہم پر دروازے بند کروگے تو ہم
کھڑکیوں سے کود کر (ایوانِ اقتدار) داخل ہونگے اور اگر کھڑکیاں مقفل کی گئیں تو
اللہ کی مدد سے ہم چھت توڑ کر آجائینگے'۔ نو جج، 4لاکھ افراد کے فیصلے پر خطِ تنسیخ نہیں پھیر سکتے۔ بی بی، جناب درعی سے اظہار یکجہتی کرنے انکے گھر گئے
اور وہاں انتہاپسندوں کے جلسے میں شرکت کی۔ اس دوران اسرائیلی عدلیہ کے خلاف توہین
آمیز نعرے لگائے گئے لیکن اٹارنی جنرل کی سفارش پر وزیراعظم نے درعی صاحب سے وزارت
صحت کا قلمدان واپس لے لیا اور وہ 'متبادل و متوقع وزیراعظم یا PM
in Waitingبنادئے گئے۔
اسرائیلی
بار ایسوسی ایشن، انسانی حقوق کی تنظیموں اور حزب اختلاف نے حکومت کے ان ہتھکنڈوں
کو آئین سے کھلواڑ قرار دیتے ہوئے بی بی سرکار کے خلاف مظاہرے شروع کردئے جسے 'کرائم منسٹر کے
خلاف ملک گیر احتجاج' کا نام دیا گیا۔ یہ مظاہرے ہر ہفتے کی شام ، سارے ملک میں ہورہے ہیں۔ ان جلوسوں کی اہم بات
یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف نعروں پر مشتمل
بینروں اور کتبوں کیساتھ فلسطینی پرچم بھی لہرائے جارہے ہیں۔ یروشلم کی جامعہ عبرانیات
Hebrew University میں فلسطینی جھنڈے اٹھائے اسرائیلی طلبہ نے عدلیہ پر قدغن نامنظور، کرائم منسٹر مردہ باد کیساتھ، فلسطینیوں پر
تشدد بند کرو، فلسطینی زمینوں پر قبضہ فسطائیت ہے اور 'نہر الی البحر فلسطین
(دریائے اردن سے بحر روم تک فلسطین) کے نعرے لگائے۔
نئی اسرائیلی حکومت کی انتہا
پسند ہئیت امریکہ بہادر کو بھی پسند نہیں۔ گزشتہ دنوں ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر
جیکی روزن اور ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر جیمز لینک فورڈ کی قیادت میں امریکی سینیٹروں
کا سات رکنی وفد اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے مابین ہونے والے
معاہدہ ابراہیم ؑ پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کیلئے علاقے کے دورے پر آیا۔سفر کے
آغاز پر ہی سینیٹر جیکی روزن نے کہا کہ اسرائیل میں قیام کے دوران انکا وفد
انتہاپسند وزیر دفاع و خزانہ بیزلیل اسموترخ
اور وزیر اندرونی سلامتی بن کوئیرسے ملاقات نہیں کریگا۔ قارئین کی
دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ سینیٹر روزن صاحبہ خود یہودی اور انکا پورا وفد اسرائیل کا
پرجوش حامی ہے۔
سیاسی
مشکلات سے نکلنے کیلئے بی بی نے حسب معمول
مذہبی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور تین جنوری کو اتامار
بین گوئر دندناتے ہوئے مشرقی بیت المقدس المعروف القدس شریف (Temple mount)چلے گئے۔یہ مسلمانوں کا قبلہ
اول اور کعبہ ومدینہ کے بعد امت مسلمہ کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ بیت المقدس پر 1967
میں قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس کے احترام کی تحریری ضمانت القدس شریف اوقاف
اور اقوام متحدہ کو تحریری شکل میں جمع کرائی ہے جسکے مطابق، بیت المقدس کا دیوار
گریہ والا مغربی حصہ یہودیوں کیلئے مخصوص ہے جبکہ القدس شریف میں غیر مسلموں کا
داخلہ صرف مخصوص اوقات میں ہوگا۔غیر مسلم زائرین کی تعداد دودرجن سے کم ہوگی، یہ افراد محدود وقت تک کمپاونڈ میں رہیں گے اور غیر
مسلم زائرین کو کمپاونڈ میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی۔ بن کوئر زائرین کے لئے مخصوص وقت کے دوران کمپاونڈ میں
آئے اور انکے ساتھ آنے والے محافظین بھی غیر مسلح تھے جسکی وجہ سے مسلمانوں نے کسی
ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن واپسی میں انھوں نے ایک تکبر آمیز ٹویٹ میں فرمایا 'ٹیمپل ماؤنٹ یعنی القدس شریف سب کے لئے کھلا ہے اور اگر حماس یہ
سمجھتی ہیں کہ وہ دھمکی دیکر مجھے روک دیگی تو انھیں جان لینا چاہیئے کہ وقت بدل
چکا ہے'
مسلمانوں کو اشتعال دلانے
کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بحث کے دوران اسرائیل کے مستقل نمائندے جیلاد آرڈن نے کہا کہ
1967 میں القدس شریف کی اسلامی حیثیت تسلیم کرکے اسوقت کی اسرائیلی قیادت نے غلطی
کی ہے۔ انھوں نے کہا القدس ہمارےلئے Har haBayīt یا مقدس پہاڑی مکان اور یہودی عقیدے کے مطابق کائنات کا مرکز ہے۔
اسرائیلی سفیر نے کہا کہ ہم القدس شریف کی حیثیت تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں نہ
اسکی بے حرمتی چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے انتہائی مقدس مقام ہے لیکن یہودیوں کو
اسکی زیارت سے روکا نہیں جاسکتا ۔اگرچہ کہ اس حوالے سے سلامتی کونسل نے کوئی قراداد
منظور نہیں کی لیکن اپنی تقریروں میں امریکہ سمیت تمام ارکان نے اسرائیل پر زور دیا
کہ وہ القدس شریف کے
Status Que کو بحال رکھے۔
اسی کیساتھ فلسطینی آبادیوں
کو مسمار کرکے وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کا کام تیز کردیا گیا۔ حکمراں لیکڈ
پارٹی نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جسکے تحت یہوداہ والسامرہ میں اسرائیلی بستیوں
کی تعمیر نئی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔انتہا پسند، دریائے اردن کے مغربی کنارے
کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کیلئے یہوداوالسامرہ کہتے ہیں جو کئی ہزار سال
پہلے حضرت سلیمان کی ریاست کا حصہ تھا۔اردن کے اس علاقے پر اسرائیل نے 1967میں
قبضہ کیا تھا۔اقوام متحدہ مغربی کنارےکو مقبوضہ قراردیتی ہے۔ اسے مذہبی رنگ دیتے ہوئے بی بی نے فرمایا کہ یہ کام
روشنیو ں کے تہوار یا Hanukkahکی مبارک ساعتوں میں ہورہا ہے۔ شادمانی و شکرکا یہ تہوار یروشلم کی پہلی عبادت گاہ کو حضرت سلیمان
علیہ السلام سے منسوب کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ گویا وہ سلطنت داودوسلیمان
کی تعمیر نو کررہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے غیر جانبدار حلقوں
کیساتھ خود اسرائیلی حزب اختلاف اور وکلا تنظیموں کا خیال ہے کہ بی بی حکومت، اپنےغیر
جمہوری ہتھکنڈوں سے توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیلیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکارہی ہے۔ وزیراعظم
کو مذہبی اتحادیوں کی جانب سے LGBT، اسکولوں میں مذہبی
تعلیم ، معبدوں میں مخلوط عبادت کے خاتمے، کثرتِ اولاد کی حوصلہ افزائی، توریت و
تلمود کے طلبہ کیلئے لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ جیسے معاملات پر بھی دباو کا
سامنا ہے۔ لیکڈ کے سیکیولر عناصر کو ان مطالبات پر گہرے تحٖفظات ہیں، تاہم فلسطین
کش اقدامات پر لیکڈ اور مذہبی طبقے کی نیت و عزم بالکل ایک ہے۔
فلسطیینوں کو اشتعال دلانے
کیلئے القدس شریف کی حیثیت ختم کرنے کیلئے
بیان بازی میں اضافہ تیز کردیا گیا۔ قدامت پسند ارکانِ کنیسہ نے Status Queختم
کرنے کیلئے قانون سازی کی باتیں شروع کردیں۔آبادکاروں کو جدید ترین اسلحے کے لائسنس
جاری کرنے کیساتھ ہلاکت خیز آتشیں اسلحہ رعایتی قیمتوں پر پیش کیا گیا جسکی
ادائیگی بلاسود قسطوں میں ہوگی۔ ان اقدامات کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے فلسطینیوں
کے قتل عام کی دعوت قراردیا ہے۔
نئی
بستیوں کیلئے مغربی کنارے کے شہر جنین کو منتخب کیا گیا جہاں گھروں کی مسماری کا آغاز ہوچکا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں کزرتا جب جنین
میں معصوم فلسطینی مارے نہ جاتے ہوں۔
نابلوس اور رام اللہ بھی اسرائیلی فوج کے خاص اہداف ہیں۔ وزیر اندرونی سلامتی بن
گوئر نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ غزہ سے آنے
والے 'خوفناک دہشت گردوں' نے بلاطہ پناہ گزیں
کیمپ میں اڈے قائم کرلئے ہیں۔ نابلوس کی اس گنجان خیمہ بستی میں ایک چوتھائی مربع
کلومیٹر پر 30 ہزار نفوس آباد ہیں۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے یہ خیمہ بستی ریاست
اسرائیل بننے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کیلئے 1950 میں 'آباد' کی
گئی تھی یعنی دوبرس بعد اس خیمہ بستی کی ڈائمنڈ جوبلی ہوگی۔ موصوف نے ایسے ہی شک کا اظہار بیت اللحم کے الدھیشہ
پناہ گزین کیمپ کے بارے میں بھی کیا ہے۔ چنانچہ
تلاشی کے نام پر تمام پناہ گزیں کمیپوں کو کھنگھالا جارہا ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوج
کی اوباشی کی مزاحمت پر معصوم بچے بھون دئے جاتے ہیں۔
معلوم نہیں یہ اس قتل عام کا
ردعمل تھا یا اسرائیلی فوج کی تزویراتی کاروائی کہ 27 جنوری کو مشرقی بیت المقدس
کے یہودی معبد (Synagogue) کے سامنے ایک نوجوان کی اندھادھند فائرنگ سے ایک خاتون سمیت سات افراد ہلاک اور دس
شدید زخمی ہوگئے ۔ واقعہ جمعہ کی رات سوا آٹھ بجے پیش آیا جب لوگ سبت(ہفتے) کی
عبادت کے بعد معبد سے نکل رہے تھے۔ فوج کی فائرنگ سے مبینہ حملہ آور ہلاک ہوگیا جسکی
شناخت 21 سالہ ارقم خیری کے نام سے کی گئی ہے۔ دوسرے دن صبح کو البلدة القديمہ (عبرانی محلہ عتیق) میں 13 سالہ نوجوان محمد علیوات نے فائرنگ باپ
بیٹے کو زخمی کردیا، جوابی فائرنگ سے علیوات زخمی ہوگیا جو پولیس حراست میں ہے۔
بلدہ القدیمہ المعروف اولڈ سٹی 900مربع
میٹر پر مشتمل علاقہ ہے جہاں حرم الشریف، مسجد اقصی، دیوار گریہ اور گنبد صخری واقع
ہیں۔ یہ علاقہ یہودی کوارٹرز، مسیحی کوارٹرز، مسلم کوارٹرز اور آرمینیائی کوارٹرز
میں تقسیم ہے۔
ان واقعات
کو اسرائیلی ریاست پر حملہ قرار دیتے ہوئے
اسرائیلی وزیراعظم نے قوم کو مشترکہ خطرے سے نبٹنے کیلئے متحد ہوئے کا پیغام دیا۔
انھوں نے حزب اختلاف سے کہا کہ اس نازک موقع پر جلسے جلوس کرکے قوم کو تقسیم نہ
کریں۔ شاس رہنماوں کا خیال ہے کہ ہفتہ وار مظاہروں سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچ
رہا ہے۔ وزیراندرونی سلامتی نے ان مظاہروں میں فلسطینی پرچموں کی موجودگی کو
متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیتے ہوئے عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانا
جرم قرار دے دیا۔
نفرت اور
جنگ کی فضا پیدا کرنے کیلئے سارے فلسطین میں خونریزی کی لہر اٹھادی گئی۔ مغربی کنارے
اور یروشلم میں فلسطینیوں پر فائرنگ کے ساتھ
غزہ پر بمباری کاآغاز ہوا بلکہ دمشق کے بین الاقوامی ہوائی
اڈے پر بھی میزائیل برسائے گئے جسکی وجہ سے ائرپورٹ کا ایک حصہ تادم تحریر ناقابل
استعمال ہے۔
سیاسی مخالفین سے نبٹنے کیلئے جس سفاکی سے فلسطینیوں کو ذبح کیا جارہا ہے اسکی
سنگینی کو اقوام عالم کی خاموشی نے دوچند کردیا ہے۔ اب تک 32 فلسطینی، بی بی کی
شیطانی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جنکی لاشیں انکے پیاروں کو
مل گئیں۔ درجنوں بلکہ سینکڑوں نوجوان غائب ہیں جنکے بارے میں یہ پتہ نہیں کہ انھیں
اسرائیلی فوج نے دفنا دیا یا یہ بیچارے عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بن رہے
ہیں۔ اسکے علاوہ درجنوں مجروح ، سہولتوں سے محروم ہسپتالوں اور شفاخانوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ رام
اللہ، نابلوس، جنین، غزہ، بیت اللحم، مشرقی بیت المقدس، شیخ جراح اور دوسری فلسطینی
محلوں میں ماتم بپا ہے لیکن 'مہذب' دنیا کو تشویش تو دور کی بات پرواہ تک نہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 3فروری 2023
ہفت
روزہ دعوت دہلی، 3 فروری 2023
روزنامہ امت کراچی 3 فروری 2023
ہفت روزہ رہبر سرینگر 5 فروری 2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment