Thursday, December 31, 2020

کیسا رہا 2020؟  

2020 کہنے کو توختم ہوگیا مگر عذاب ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ایک مدت تک دو بڑے انسانی المیے 2020 کی وجہ شہرت بنے رہیں گے۔ایک تو کرونا وائرس کہ جس سےانسانی حیات اور اسباب حیات دونوں ہی ٖغارت ہوگئے اور دوسرا فلسطینیوں کو دیوار میں چن دینے کی تحریک کہ جس نے51 لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کو چڑیا گھر کے جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔

کووڈ 19 وبا:

کرونا وائرس کا آغاز 2019کے اختتام پر کچھ اسطرح ہوا کہ وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکائت ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے نزلہ زکام سمجھ کر نظر اندار کردیا۔کچھ طبی ماہرین نے اس زکام کو ایک خاص طریقے کا نمونیا قراردیکر علاج شروع کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک چینی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر لی وینلیانگ Li Wenliangنے سب سے پہلے اس نزلے کو ایک خوفناک متعدی مرض کا آغاز قراردیا لیکن اس بات پر کان دھرنے کے بجائے چینی حکومت نے افواہ سازی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے الزام میں  34 سالہ ڈاکٹر لی کو گرفتار کرلیا۔ دوسری طرف مرض بڑھتا رہا اور ہزاروں افراد ہسپتال پہنچ گئے۔متاثرین کے لعابِ دہن ، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزئے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسے2019-nCoVیا نویل کرونا واائرس کہتے ہیں۔ لفطِ کرونا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزئے کے دوران اس جرثومے کے جزئیات تاج (کراون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے 2020 کے آغاز پر اسے عالمی وبا یا Pandemicتسلیم کرتے ہوئے اس مرض کو 'کووِڈ 19' (COVID-19)کا نام دے دیا ۔ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں آٹھ کروڑ کے قریب لوگ اس مرض سے متاثر ہوئے جن میں سے 18 لاکھ سے زیادہ کی موت واقع ہوئی۔ تباہی کے اعتبار سے امریکہ کا پہلا نمبر ہےجہاں کووڈ مریضوں تعداد 2کروڑ ہے جن میں سے 3لاکھ 32 ہزار افراد زندگی کی بازی ہار گئے یعنی ہر ایک ہزار امریکیوں میں سے ایک فرد کو یہ موذی مرض چاٹ گیا۔ مزید بدنصیبی کہ مرض کے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی اکثریت رنگداروں اور غریبوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستان کووڈ کے حوالے سے بھی دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے اور ڈیڑھ لاکھ معصوم جانیں ضایع ہوگئیں۔ برازیل تیسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان کا باالترتیب 27، 28 اور 90واں نمبر ہے۔ مسلمان ملکوں میں ایران  سب سے زیادہ متاثر ہے۔ تہران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے دواوں اور طبی آلات کی بندش نے صورتحال کو انتہائی گھمبیر بنادیا ہے۔ وہاں اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ ہے جن میں سے 55 ہزار افراد موت کے گھاٹ اترگئے۔

سال کے اختتام پر دنیا کے اکثر ممالک میں جدرین کاری یا Vaccinationکا آغاز ہوچکا ہے جسکی بناپر طبی ماہرین پر امید ہیں کہ 2021 کے وسط تک صورتحال معمول پر آنا شروع ہوجائیگی۔  تام اس موذی نے معیشت اور اسباب حیات کو جو نقصان پہنچایا اسکے ازالے کیلئے کم از کم اٹھارہ مہینے اور کچھ ماہرین کے خیال میں ڈھائی سے تین سال درکار ہیں۔

فلسطین

گزشتہ سال کا سب سے بڑا اخلاقی سانحہ عرب اسرائیل معاہدہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے جو نام دیا ہے  وہ لکھتے ہوئے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ نسل کشی کی اس دستاویز کو اللہ کے خلیل سے منسوب کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی توہین ہے جنکے کے لئے حضرت ابراہیم، اللہ سے وفا اور وفاداری کا استعارہ ہیں۔اس معاہدے کا بنیادی مقصد عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکالنا تھاتاکہ عرب و مسلم ممالک فلسطینیوں کو اسرائیلی نسل پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے محدود وطنی بلکہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے مطابق فیصلے کریں۔

اور اب صورتحال یہ ہے کہ غزہ کے دس لاکھ افراد بجلی اور پانی سے محروم ہیں اور بدترین ناکہ بندی کے نتیجے میں پیداہونے والی خوراک کی قلت سے لوگ بے حال اور نونہال معذوری کے دہانے پر ہیں۔ غرب اردن میں آباد فلسطینیوں کےگھر اسرائیلی آبادکاروں کے حوالے کردئے گئے ہیں او اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوجانے والوں کواردن کی سرحد کی طرف دھکیلا جارہا ہے جہاں کاکسس بازار  (بنگلہ دیش) کے برمی پناہ گزینوں کی طرز پر خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہں۔

 صدر ٹرمپ الفت وپیار، قربت کے افتخار اور ناجائز قبضے کو توثیق کے وعدے پر مسلم رہنماوں کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی صلاح دے رہے ہیں۔ اگر  خرِ زمانہ کو یہ راتب پرکشش محسوس نہ  ہو تو چچا سام کے ایک ہاتھ میں گاجر کے ساتھ دوسرے ہاتھ میں موٹی سے لاٹھی بھی ہے۔تخت کو تختہ بنادینے کی دھمکی پر کیا وردی والے اور کیا بلڈی سویلین، امیر و شاہ، ملوک و سلاطین سب ہی سر جھکا دیتے ہیں۔کلائیاں مروڑ کر صدر ٹرمپ نے بحرین سے رباط اور کوسووو سے خرطوم تک سب کو اسرائیل کے آگے سجدہ ریز  کردیا تاکہ فلسطینیوں کے حق میں ہلکی، روائتی اور رسمی سی آواز  بھی نہ بلند  ہونے پائے۔

صدر ٹرمپ کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، مراکش اور یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے اسرائیل سے سفارتی رابطے قائم کرلئے۔ اور تو اور ترکی نے بھی اسرائیل سے سفارتی کشیدگی ختم کرتے ہوئے سفیروں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے مابین سفارتی تعلقات تو کمال اتاترک کے شاگردِ رشید عصمت انونو کے وقت سے ہیں لیکن 2010 میں غزہ کیلئے کشتیوں کے امدادی قافلے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد جناب طیب ایر دوان نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھا اور گزشتہ 10 سال سے ان دونوں ملکوں کے درمیاتی سفارتی تعلقات معطل تھے۔ 

بیروت بندرگاہ کی تباہی اور الحریری قتل کا فیصلہ:

گزشتہ سال کے دوران مشرق وسطیٰ کا بدترین حادثہ بیروت کا خوفناک دھماکہ تھا۔ بندرگاہ  کے  گودام میں ذخیرہ  کیاگیا امونیم نائٹریٹ اس دھماکے کا سبب بنا جس سے 204 افراد ہلاک ہوئے ۔ دھماکے سے سارے بیروت کی عمارتوں کو نقصا ن پہنچا اور 3 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈاالر ہے

لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے پندرہ برس بعد انکے مقدمے کا فیصلہ ہوا اور عدالت نے حزب اللہ کے سلیم عیاش کو جناب الحریری کے قتل کا ذمہ دار قراردیا۔ تاہم ملزم مفرور ہے اسلئے سزا پر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا

تنازعات و عسکری تصادم:

بین الاقوا می تنازعات کے حوالے سے اس سال کا آغاز بغداد ائر پورٹ پر امریکہ کے ڈرون حملے سے ہوا  جس میں پاسدارانِ انقلابَ اسلامی ایران  کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی  اور عراق شیعہ ملیشیا  الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس مارے گئے۔ جواب میں ایران نے  عراق میں امریکی فوجی اڈے پر میزائیلوں سے حملہ کیا جس میں کوئی جانی نقصاں تو نہ ہوا مگراڈہ تباہ ہوگیا اور دھماکے کی وجہ سے درجنوں امریکی سپاہی نفسیاتی و دماغی عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اسی دوران امریکی حملے  کے شبہے میں ایرانی انقلابی گارڈ یا پاسداران نے غلطی سے یوکرین ائرلائن کا طیارہ مار گرایا  جس  میں جہاز کے عملے سمیت 76 افراد ہلاک ہوئے

ترکی نے اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت الوفاق الوطنی یا GNAکو عسکری مدد فراہم کی۔لڑائی میں  ترکی کے ہلاکت خیز ڈرون بے حد موثر ثابت ہوئے اور وفاقی حکومت نے حفتر ملیشیا کو شکست دیکر دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرلیا۔ ترکی و طرابلس کے دباو پر حفتر ملیشیا نے تیل کے میدانوں پر قبضہ 'نرم' کردیا اور لیبیا سے تیل کی برآمدات 20 لاکھ بیرل روزانہ ہوگئیں۔

گزشتہ برس مئی میں  چین و ہند متنازعہ سرحد پر خوفناک عسکری تصادم درجنوں فوجیوں کی جان لے گیا۔ جھڑپ کے دوران گولوں اور گولیوں کے بجائے گھونسے، لات، کیل لگے  ڈنڈے اور پتھر استعمال ہوئے۔مکالمے اور تحمل و برداشت کے نتیجے میں یہ تصادم بڑی جنگ میں تبدیل نہیں ہوا۔

ستمبر  کے اختتام پر نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان خوفناک جنگ ہوئی۔ 14 روز جاری رہنے والی لڑائی میں دونوں جانب کے 5700 فوجی اور لاتعداد نہتے شہری مارے گئے۔ لیبیا کی طرح یہاں بھی ترک ساختہ ڈرونز کے موثر استعمال نے جنگ کا پانسہ آذربائجان کے حق میں پلٹ دیا اوربھاری عسکری نقصان کے نتیجے میں آرمینیا نگورنو کاراباخ کا بڑا علاقہ خالی کرنے پرتیار ہوگیا۔ آرمینیائی فوجی انخلا کے بعد اس علاقے میں روس کی امن فوج تعینات کردی گئی ہے۔

افغان امن مذاکرات

اس سال کی ایک مثبت خبر طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہے، جس پر29 فروری کو دستخط ہوئے۔ یہ معاھدہ امن نہیں بلکہ امریکہ اور طالبان کی جانب سے اظہارِ عزمِ امن ہے۔ طالبان نے اس بات کا یقین دلایا ہےکہ  افغانستان  سے واپس ہوتی نیٹوفوج کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا، افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک  کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا اور بین الافغان مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن کی راہ ہموار کی جائیگی جسکے عوض امریکہ 21 ماہ کے دوران فوجی انخلا پر آمادہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اٖفغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 2500 کردی ہے۔ دوسری طرف کئی ماہ سے جاری بین الافغان امن مذاکرات کا تعطل ہنوز ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ 20 جنوری کو حلف اٹھانے کے بعد افغانستان کے معاملے میں بائیڈن  انتظامیہ کا رویہ کیسا ہوگا؟

بین الاقوامی تعلقات و معاہدات

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اس سال کی بڑی خبر یورپی یونین اور یورپی اٹامک انرجی کمیونٹی سے برطانیہ کی علیحدگی یا  BREXIT ہے۔ برطانیہ یکم جنوری 1973 کو یونین کا رکن بنا اور 47 سال بعد  31 جنوری 2020 کو یورپی برادری سے الک ہوگیا۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہونے والا پہلا ملک ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اسکاٹ لینڈ میں علیحدگی کی تحریک ایک بار پھر سراٹھاتی نظر آرہی ہے۔ یہاں آزادی کے معاملے  پر 2014 میں استصواب رائے ہوچکا ہے جس میں 55.3 فیصد عوام نے علیحدگی کی تجویز مسترد کردی تھی۔ اسکاٹ لینڈ کی وزیراعلٰی یا First Ministerمحترمہ نکولا اسٹرجین کا موقف ہے کہ یورپی یونین سے الگ ہوجانے کےبعد زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں چنانچہ برطانیہ سے وابستگی پر اسکاٹ عوام کی دوبارہ رائے لینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن نے نئے ریفرنڈم کو غیر ضروری قراردیا ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد  شمالی آئرلینڈ میں بھی علیحدگی کیلئے چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔یہ خطہ 1960سے 2003 تک بدامنی اور دہشت گردی کا شکار رہ چکا ہے۔

مئی کے اختتام پر  چینی کمیونسٹ پارٹی نے  قانون سازی کے ذریعے ہانگ کانگ کے شہری حقوق معطل کردئے۔ 1997میں جب تاجِ برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا اسوقت بیجنگ نے عالمی برادری کو یقین دلایا تھا کہ چین کا حصہ ہوتے ہوئےہانگ کانگ میں آزادانہ تجارتی نظام، غیر جانبدار عدلیہ، منتخب انتظامیہ اور شہری آزادیاں برقرار رہینگی۔ اس بندوبست کیلئے 'ایک ملک دونظام' یا One Country, two systems کی اصطلاح وضع کی گئی۔لیکن تحویل مجرمان کے معاملے پر کھڑے ہونے والے تنازعے اور ہانگ کانگ میں کمیونسٹ مخالف مظاہروں کے بعد چین کی عوامی اسمبلی نے ہانگ کانگ کو چینی قوانین کا پابند کردیا ہے جسکی بنا پر ہانگ کانگ کی منفرد حیثیت اب عملاًختم ہوچکی ہے

امریکہ نے 14دسمبر کو ترکی پر پابندیاں لگادیں۔ خفگی و ناراضگی بظاہر تو روس سے میزائیل شکن نظام S-400خریدنے پر  ہے، لیکن لیبیا میں وفاقی حکومت کی مدد، فلسطینیوں کے حق میں جناب ایردوان کا دوٹوک موقف اور ارمینیا آذربائیجان تنازعے کے حل کیلئےروس سے براہ راست مذاکرات پر واشنگٹن کو سخت تحفظات ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی نےدفاعی پیداوار کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس پربھی  امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہے۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں ترکی کو F-35طیاروں  کے ترقیاتی پروگرام سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب نیٹو کے کسی رکن نے اپنے دوسرے اتحادی پر تادیبی پابندیاں عائد کی ہیں۔

ہوائی حادثات:

برصغیر میں اس سال ہوائی جہاز کے دوبڑے حادثات ہوئے۔  رمضان میں کراچی ائرپورٹ کے قریب  پی آئی اے کا طیارہ  گرنے سے  99 افراد جاں بحق ہوئے۔ حادثے کے بعد وفاقی وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان نے   پی آئی اے کے بہت سے افسران کے جعلی لائیسینس کا انکشاف کیا جسکی وجہ سے  یورپی  ممالک نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگادی

 اگست میں  ائر انڈیا کے طیارے کو کالی کٹ (کیرالہ) ائرپورٹ پر حادثہ  پیش آیا جس میں 19 افراد ہلاک ہوئے

 ائے ماووں، بہنو، بیٹیو ۔۔ قوموں کی عزت تم سے ہے:

سال کے دوران دنیا بھر میں  قومی، صوبائی اور مقامی نوعیت کے  200 سے زیادہ انتخابات اور برما و مصر میں انتخابی ڈرامے ہوئے۔ برما میں مسلمانوں کو انتخابی سرگرمیوں سے لاتعلق رکھا گیا جبکہ مصری پارلیمان کے انتخابات میں ان امیدواروں کو نااہل قراردیدیا گیا جنھوں نے جنرل السیسی کی غیر مشروط حمائت کا وعدہ کرنے سے انکار کیا

ہندوستان میں دہلی اور بہار کی ریاستی(صوبائی) قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔دہلی کے انتخابات میں اروند کجریوال کی عام عوام پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت لیں اور جبکہ بی جے پی کے قومی جمہوری اتحاد کو 3 سیٹوں پر کامیابی نصیب ہوئی۔ بہار میں بی جے پی اور انکی اتحادی جنتا دل مجموعی طور پر آگے رہی

نیوزی لینڈ کے انتخابات میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن  کی لیبر پارٹی نے شاندارکامیابی حاصل کی اور 120 کے ایوان میں 65 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی۔جیسندا  نےکرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد جس پرجوش انداز میں مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا اسکی وجہ سے وہ  دنیا بھر کے مسلمانوں  میں بہت مقبول ہیں ۔ نیوزی لینڈ کے انتخابات کی دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی لیبر، نیشنل اور گرین تینوں جماعتوں کی قیادت خواتین کررہی ہیں۔

گزشتہ سال اس لحاظ سے تاریخی ثابت ہواکہ پہلی بار  ایک ہند نژاد خاتون کملا دیوی ہیرس امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوگئیں۔ امریکی خواتین نے 1920 میں ووٹ دینے کاحق حاصل کیا تھا جسکے پورے سوسال بعد حواکی ایک بیٹی کو نائب صدارت کا منصب عطا ہوا۔ اسکے مقابلےمیں تیسری دنیا کی خواتین نے صنفی مساوات کا سفر کئی دہائی پہلے طئے کرلیا۔ 1960 میں سری لنکا نے محترمہ بندرانائیکے کو وزیراعظم منتخب کیا۔1966 میں شریمتی اندراگاندھی ہندوستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔1988میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستانی وزیراعظم کا حلف اٹھایا جبکہ 1993میں  محترمہ تانسو چلر ترکی کی وزیر اعظم مقرر ہوئیں۔دلچسپ بات کہ تین سال بعد محترمہ چلر نے  'مولوی' وزیراعظم پروفیسر نجم الدین اربکان کی کابینہ میں نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ  کا حلف اٹھایا۔

امریکی انتخابات کی ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک برسراقتدار صدر نے دھاندلی کا الزام لگاکر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔دلچسپ بات کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے دائر کی جانے والے دودرجن سے زیادہ انتخابی عذرداریاں پہلی ہی سماعت میں مسترد کردی گئی۔

انتقال اور سبکدوشی

اومان کے سلطان قابوس بن سعید 10 جنوری کو انتقال کرگئے۔ وہ 1970 سے برسراقتدار تھے، یعنی نصف صدی کے بعد اومان میں نئی قیادت سامنے آئی ہے

امیر کوئت شیخ صباح الاحمدالصباح کا 91 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ انھوں نے  14سال حکومت کی

پاکستان میں تحریک لببیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی، ممتاز عالم دین علامہ زرولی  اور پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ کا انتقال ہوا

جاپان کے وزیراعظم شینزوایبے Shinzo Abe نےمستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ موصوف 2012 سے برسراقتدار تھے  جو جاپان میں بطور یر اعظم سب سے طویل مدت ہے

مواخذہ اور احتساب

صدر ٹرمپ کا اختیارات کے مبینہ ناجائز استعمال پر مواخذہ کیا گیا۔امریکی صدر پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے سیاسی مخالف یعنی جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کیلئے یوکرین کی حکومت پر دباو ڈالااور بات نہ ماننے کی صورت میں ملک کیلئے امریکی امداد روکدینے کی دھمکی دی۔ یہ امریکہ کی  244 سالہ تاریخ میں تیسرا اور اس صدی کا پہلا صدارتی مواخذہ تھا۔ اس سے پہلے 1858 میں صدر اینڈریو جانسن اور اسکے بعد 1998 میں صدر کلنٹن کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہوچکی ہے۔ صدر ٹرمپ بھی بری ہوگئے

ملائشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق پر بے ایمانی اور مالی بد عنوانیوں کے الزامات ثابت ہوگئے۔25 جولائی کو انھیں 12سال قید اور کروڑوں ڈالرجرمانے کی سزا سنائی گئی۔

پولیس تشدد اور نسلی امتیاز

امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر  شہر منیاپولس میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام، جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو سماجی ذرائع ابلاغ پر چار سو پھیل گئی جسکے نتیجے میں سارے ملک میں ہنگامے ہوئے اور سماجی انصاف و نسلی مساوات کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران اس نکتے پر کھل کر بحث ہوئی۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کابینہ اوروفاقی مناصب پر سیاہ فام اور دوسری اقلیتوں کو مناسب نمائندگی دینگے۔

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے:

یہ  سال صحافیوں  کیلئے بہت خراب رہا اور 21 صحافی قتل کئے گئے، 2019 میں 10 صحافی مارے گئے تھے۔ میکسیکو 5  کے  ساتھ پہلے نمبر پر اور افغانستان دوسری نمبر پر ہے جہاں ایک جوانسال خاتون ملالہ مومند  سمیت4 صحافی مارے گئے

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

متنازعہ زرعی قوانین کی ہندوستانی پالیمان سے منظوری کے خلاف کسانوں کی دارالحکو مت کے گھیراو کیلئے دلی چلو تحریک جاری ہے۔پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ ادھر کچھ دنوں سےکرناٹکا، تامل ناڈو، اڑیسہ، کیرالہ اور دوسری ریاستوں میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کا موقف ہے کہ نئے قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں اور وہ انھیں واپس لینے پر آمادہ نہیں۔کسان اندولن (تحریک) کےقائدین کو شکائت ہے کہ  ملکی ذرائع ابلاغ نےجنھیں وہ گودی میڈیا کہتے ہیں، تحریک کا منظم انداز میں بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ 'زبان غیر سے کیا شرحِ آزو کرتے' کے مصداق انھوں نے ٹرالی ٹائمز کے نام سے اپنا ایک اخبار بھی نکال لیا ہے یعنی

 کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو ۔۔ جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

آخر میں ایک اچھی اور دلچسپ خبر کہ فروری سے یورپ کے 6 لاکھ نفوس پر مشتمل ملک لکسمبرگ (Luxemberg)میں پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بس ٹرام اور ریل مفت کردی گئی ہے۔ اسکا مقصد نجی کاروں کی حوصلہ شکنی ہے تاکہ ماحولیاتی کثافت کو کم کیا جاسکے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم جنوری 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی یکم جنوری 2021

روزنامہ امت کراچی یکم جنوری 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم جنوری


2021

 

Monday, December 28, 2020

سال 2020کے دو تلخ ترین پہلو

سال 2020کے دو تلخ ترین پہلو  

2020 ختم ہونے کو ہے مگر عذاب ختم ہوتا نظر نہیں آرہا اور ایک مدت تک دو بڑے انسانی المیے 2020 کی وجہ شہرت بنے رہیں گے۔ جن میں سے ایک کرونا وائرس کہ جس سےانسانی حیات اور اسباب حیات دونوں ہی ٖغارت ہوگئے اور دوسرا فلسطینیوں کو دیوار میں چن دینے کی تحریک کہ جس نے51 لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کو چڑیا گھر کے جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔

کووڈ 19 وبا:کرونا وائرس کا آغاز 2019کے اختتام پر کچھ اسطرح ہوا کہ وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکائت ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے نزلہ زکام سمجھ کر نظر اندار کردیا۔کچھ طبی ماہرین نے اس زکام کو ایک خاص طریقے کا نمونیا قراردیکر علاج شروع کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک چینی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر لی وینلیانگ Li Wenliangنے سب سے پہلے اس نزلے کو ایک خوفناک متعدی مرض کا آغاز قراردیا لیکن اس بات پر کان دھرنے کے بجائے چینی حکومت نے افواہ سازی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے الزام میں  34 سالہ ڈاکٹر لی کو گرفتار کرلیا۔ دوسری طرف مرض بڑھتا رہا اور ہزاروں افراد ہسپتال پہنچ گئے۔متاثرین کے لعابِ دہن ، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزئے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسے2019-nCoVیا نویل کرونا واائرس کہتے ہیں۔ لفطِ کرونا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزئے کے دوران اس جرثومے کے جزئیات تاج (کراون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے 2020 کے آغاز پر اسے عالمی وبا یا Pandemicتسلیم کرتے ہوئے اس مرض کو 'کووِڈ 19' (COVID-19)کا نام دے دیا ۔ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں آٹھ کروڑ کے قریب لوگ اس مرض سے متاثر ہوئے جن میں سے 18 لاکھ سے زیادہ کی موت واقع ہوئی۔ تباہی کے اعتبار سے امریکہ کا پہلا نمبر ہےجہاں کووڈ مریضوں تعداد 2کروڑ ہے جن میں سے 3لاکھ 32 ہزار افراد زندگی کی بازی ہار گئے یعنی ہر ایک ہزار امریکیوں میں سے ایک فرد کو یہ موذی مرض چاٹ گیا۔ مزید بدنصیبی کہ مرض کے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی اکثریت رنگداروں اور غریبوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستان کووڈ کے حوالے سے بھی دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے اور ڈیڑھ لاکھ معصوم جانیں ضایع ہوگئیں۔ برازیل تیسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان کا باالترتیب 27، 28 اور 90واں نمبر ہے۔ مسلمان ملکوں میں ایران  سب سے زیادہ متاثر ہے۔ تہران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے دواوں اور طبی آلات کی بندش نے صورتحال کو انتہائی گھمبیر بنادیا ہے۔ وہاں اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ ہے جن میں سے 55 ہزار افراد موت کے گھاٹ اترگئے۔

سال کے اختتام پر دنیا کے اکثر ممالک میں جدرین کاری یا Vaccinationکا آغاز ہوچکا ہے جسکی بناپر طبی ماہرین پر امید ہیں کہ 2021 کے وسط تک صورتحال معمول پر آنا شروع ہوجائیگی۔  تام اس موذی نے معیشت اور اسباب حیات کو جو نقصان پہنچایا اسکے ازالے کیلئے کم از کم اٹھارہ مہینے اور کچھ ماہرین کے خیال میں ڈھائی سے تین سال درکار ہیں۔

فلسطین:گزشتہ سال کا سب سے بڑا اخلاقی سانحہ عرب اسرائیل معاہدہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے جو نام دیا ہے  وہ لکھتے ہوئے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ نسل کشی کی اس دستاویز کو اللہ کے خلیل سے منسوب کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی توہین ہے جنکے کے لئے حضرت ابراہیم، اللہ سے وفا اور وفاداری کا استعارہ ہیں۔اس معاہدے کا بنیادی مقصد عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکالنا تھاتاکہ عرب و مسلم ممالک فلسطینیوں کو اسرائیلی نسل پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے محدود وطنی بلکہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے مطابق فیصلے کریں۔

اب حال یہ ہے کہ غرب اردن میں آباد فلسطینیوں کےگھر اسرائیلی آبادکاروں کے حوالے کردئے گئے ہیں او اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوجانے والوں کواردن کی سرحد کی طرف دھکیلا جارہا ہے جہاں کاکسس بازار  (بنگلہ دیش) کے برمی پناہ گزینوں کی طرز پر خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہں۔

 صدر ٹرمپ الفت وپیار، قربت کے افتخار اور ناجائز قبضے کو توثیق کے وعدے پر مسلم رہنماوں کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی صلاح دے رہے ہیں۔ اگر  خرِ زمانہ کو یہ راتب پرکشش محسوس نہ  ہو تو چچا سام کے ایک ہاتھ میں گاجر کے ساتھ دوسرے ہاتھ میں موٹی سے لاٹھی بھی ہے۔تخت کو تختہ بنادینے کی دھمکی پر کیا وردی والے اور کیا بلڈی سویلین، امیر و شاہ، ملوک و سلاطین سب ہی سر جھکا دیتے ہیں۔کلائیاں مروڑ کر صدر ٹرمپ نے بحرین سے رباط اور کوسووو سے خرطوم تک سب کو اسرائیل کے آگے سجدہ ریز  کردیا تاکہ فلسطینیوں کے حق میں ہلکی، روائتی اور رسمی سی آواز  بھی نہ بلند  ہونے پائے۔

اور تو اور ترکی نے بھی اسرائیل سے سفارتی کشیدگی ختم کرتے ہوئے سفیروں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے مابین سفارتی تعلقات تو کمال اتاترک کے شاگردِ رشید عصمت انونو کے وقت سے ہیں لیکن 2010 میں غزہ کیلئے کشتیوں کے امدادی قافلے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد جناب طیب ایر دوان نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھا اور گزشتہ 10 سال سے ان دونوں ملکوں کے درمیاتی سفارتی تعلقات معطل تھے۔ 



 

Thursday, December 24, 2020

ترکی کے خلاف امریکی پابندیاں

امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کردیا۔ ترکی شمالی اوقیانوس معاہدہ (NATO)کا رکن اور اسکے ابتدائی دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ یہ نیٹو کی 71 سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب ایک اتحادی نے دوسرے کے خلاف تادیبی پابندیاں عائد کی ہوں۔ تاہم ترکی، امریکی مطلق العنانیت کا پہلا شکار نہیں۔ ولادتِ نیٹو کے صرف 9 سال بعد یعنی 1958میں نیٹو پر امریکہ اور برطانیہ کے  اجارہ داری کی حد تک غیر معمولی اثرو رسوخ سے  فرانس کو سخت شکایات پیدا ہوئیں، چانچہ صدر چارلس ڈیگال نے امریکی صدر آئزن ہاور اور برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میک ملن کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے اتحادیوں کے درمیان غیر مساویانہ اختیارات کو ناقابل قبول قراردیا۔فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کی  قیادت کیلئے  امریکہ وبرطانیہ کے درمیان معاہدہ، پیرس کو قبول نہیں اور اس دستاویز کو سہ فریقی بندوبست یا Tripartite Directorateمیں تبدیل کرکے فرانس کے مرتبہ ومقام کا احترام کیا جائے۔ لندن و واشنگٹن سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر فرانسیسی بحریہ کو نیٹو کے بحرروم بیڑے سے نکال لیا گیا۔ اسی کیساتھ جنرل ڈیگال نے فرانس کی سرزمین سے نیٹو کی تمام جوہری تنصیبات ہٹالینے کا حکم جاری کردیا۔ فرانس نیٹو کا رکن  تو رہا لیکن 1967 کے بعد فرانس نے صرف محدود مشترکہ مشق میں حصہ لیا۔ 2001کے افغان حملے کے بعد فرانس اور نیٹو کے درمیان تعلقات بہترہوئے اور امریکی صدر اوباما کی یقینی دہانیوں پر 2006 میں صدرنکولس سارکوزی نے اپنے ملک کو دوبارہ مرکزی کمان (Structural Command)کا حصہ بنالیا۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ پیرس کے سجدہ سہو کی وجہ بحرروم پر ترک بحریہ کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور  دفاعی مصنوعات کے میدان میں ترکی کی چشم کشا ترقی ہے۔

اپنے محل وقوع کے اعتبار سے مشرق کے کمیونسٹ اور مغرب کے ساہوکار دونوں ہی ترکی سے دوستانہ تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ بحراسود سے نکلنے کا واحد راستہ ترکی سے ہوکر گزرتا ہے چنانچہ روس کیلئے ترکی سے دوستی بہت ضروری ہے تو دوسری طرف مغربی یورپ و امریکہ بھی انقرہ سے کشیدگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے

ترکی وامریکہ کے درمیان مہرومحبت کا آغازدوسری جنگ عظیم کے دوران اسوقت ہوا جب ترکی نے اس عالمی جنگ سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ تزویراتی (اسٹریٹیجک)محل وقوع کی بناپر امریکہ اور برطانیہ کی خواہش تھی کہ ترکی اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دے۔ چانچہ امریکی و برطانوی قیادت نے ترکی یاترا کی خواہش ظاہر کی لیکن غیرجانداری کے عزم پر قائم رہتے ہوئے انقرہ نے معذرت کرلی۔ جسکے بعد قاہرہ میں مذاکرات کی میز بچھائی گئی جہاں دسمبر 1943میں امریکی صدر روزویلٹ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور ترک صدر عصمت انونو کے درمیان دوروزہ مذاکرات ہوئے۔ عصمت انونو غیرجانبداری کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔آخر کاراس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ترکی غیر جانبداری پر قائم رہتے ہوئے آبنائے باسفورس تک اٹلی، نازی اور جرمنوں کی رسائی محدود کر دے گا۔ ان دشمنوں کو اتحادی 'روم۔برلن ٹوکیو مثلث' کہتے تھے۔ امریکہ کے اصرار پر فروری 1945 میں ترکی نے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا جسکے نتیجے میں آبنائے باسفورس روسی جنگی جہازوں کیلئے کھول دی گئی۔ روسیوں کا اصرارتھا کہ آبنائے کے دہانے پر انھیں بحری تنصیبات قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ جلد ہی یہ ملتجانیہ درخواست دھمکی میں تبدیل ہوگئی اور یہیں سے ترکی اور امریکہ کے درمیان عسکری رومانس کا آغاز ہوا، 1947میں امریکی صدر ہیری ٹرومن نے روسی 'توسیع پسندی' کے خلاف ترکی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جسے ٹرومن ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ 1950میں جنگ کوریا کا آغاز ہوا تو ترکی نے امریکہ کی نصرت کیلئے اپنے فوجی بھیجدئے جسکے بعد 1952 میں ترکی نیٹو کا رکن بن گیا۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عدنان میندریس ابتدا میں نیٹو کا حصہ بننے کے خلاف تھے لیکن جب روائتی حریف یونان نے نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی کیلئے نیٹو میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ روسی کشیدگی کے ساتھ یونان کی دشمنی سے ترکی کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق تھا جسکے مقابلے کیلے انقرہ نیٹو کی چھتری تلے آگیا۔ 1955 میں ترکی نے بحرروم کے ساحل  پر اضنہ کے انسرلیک  فوجی اڈے کا ایک حصہ نیٹو کیلئے وقف کردیا۔ اس اڈے پر امریکہ اور برطانیہ کے ساڑھے پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔  50 سے زیادہ مسلح بمبار طیارے ہروقت پرواز کیلئے تیار رہتے ہیں۔  کچھ بمباروں پر جوہری ہتھیار بھی نصب ہیں۔

ساتویں دہائی سے اس صدی کے اختتام تک ترک انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی اور مخلوط حکومتیں بہت کمزور رہیں۔دوسری طرف  سیکیولرازم کے سرپرست اور ضامن کی حیثیت سے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا آئینی تحفظ حاصل تھا جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترک جرنیلوں نے امریکہ سے براہ راست رابطے استوار کرلئے۔ نتیجے کے طور پرامریکہ کے اثرات بہت گہرے ہوگئے۔2002 کے انتخابات میں طیب ایردوان کی AKپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرکے ایک مضبوط حکومت تشکیل دی اور  سویلین وزیراعظم نے نیٹو کے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا

انقرہ واشنگٹن کشیدگی کا آغاز اسوقت ہوا جب 2003 میں ترک وزارت دفاع نے عراق پر حملے کے لئے انسرلیک سے  امریکی جنگی جہازوں کے اڑنے پر پابندی لگادی۔ صدر بش خاصے ناراض ہوئے لیکن وزیراعظم  ایر دوان کا موقف تھا کہ جنگ اقوام متحدہ یا نیٹو کی اجازت کے بغیر چھیڑی جاری ہے لہٰذا ترک  سرزمین عراق پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔

مئی 2010 میں ترکی سے امدادی سامان کے ساتھ کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ روانہ ہوا۔ ایک کشتی پر پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے۔اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں 9 سماجی کارکن مارے گئے۔ اپنے مذمتی بیان میں جناب ایردوان نے صاف صاف کہا کہ 'سپرطاقت' کی شہہ کے بغیر اسرائیل اس خونریزی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ترکی کے اس دوٹوک موقف سے ترکی و امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید تناو آگیا 

شام و عراق کی خانہ جنگی اور داعش کے ظہور پر حالات مزید خراب ہوئے۔ امریکہ نے داعش کی سرکوبی کیلئے ترکی کے کرد علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی۔ دمشق سرکار نے شامی فوج آزادی (SDF)کے نام سے ملیشیا تشکیل دیدی جسے امریکی فوج نے اسلحہ فراہم کیا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اسد حکومت نے YPGدہشتگردوں کو SDF کی وردیاں پہنا کر ترک سرحد کی طرف دھکیل دیا۔ YPG کو ترکی کی  عدالت عظمیٰ کیساتھ خود امریکہ  نےبھی دہشت گرد قراردیا ہے۔

2015تک صورتحال یہ ہوگئی کہ ترکی کی عراق و شام سے ملنے والی سرحدوں پر SDFاور YPGنے مورچہ لگایا ہوا تھا۔شمال مشرق میں آرمینیاسے صورتحال کشیدہ تھی۔ اسی کیساتھ مشرقی بحر روم میں یونانی قبرص اور یونان نے آنکھیں دکھانی شروع کردیں۔ترک ساحل کے قریب بہت سے یونانی جزائر ہیں،دو ایک جزائر کا ترکی سے فاصلہ صرف تین کلو میٹر ہے۔ یونان کا اصرار ہے کہ ان جزائر کی آبی حدود کئی سو کلو میٹر تک ہیں۔ اگر اس دعوے کا مان لیا جائے تو یونان کی آبی سرحدیں ترکی کے ساحل تک ہیں۔ یہ بات ترکی کیلئے قابل قبول نہیں کہ بحرروم اور بحر اسود میں ترکی کا ساحل سب سے طویل ہے۔

شمالی قبرص اور ترکی کے درمیان سمندری فاصلہ بہت کم ہے اور بحرروم کا یہ علاقہ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ اسرائیل اور مصر نے مشرقی بحر روم میں کئی بڑے گیس کے میدان دریافت کئے ہیں۔ یونانی قبرص کی حکومت سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کاکام کرنا چاہتی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ تلاش و ترقی کے یہ سمندری یا Offshore Blocks اسکی آبی (maritime)  حدود میں ہیں جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں Continental Shelf   کہتے ہیں۔

اس سال فروری میں اطالوی تیل کمپنی Eni کنواں کھودنے کیلئے شمالی قبرص کے قریب ایک جہاز (Drill-ship)لے آئی لیکن ترک بحریہ نے اسے فرار پر مجبور کردیا۔چند ماہ پہلے یونانی قبرص کی وزارت معدنیات نے بلاک 7کا ٹھیکہ امریکہ کی ایکزون موبل ExxonMobilکی قیادت میں بننے والے مشارکہ کو دیدیا جسکے دوسرے حصہ دار Eni اور فرانس کی ٹوٹل (TOTAL)ہٰیں۔ ایک دوسرا بلاک جسے نمبر 10 کا نام دیا گیا ہے ایکزون موبل اور قطر پیٹرولیم کے مشارکہ کو عطا کردیا گیا۔ جیسے ہی ایکزون موبل کے وائس چئیر مین نیل چیپمین نے اعلان کیا کہ انکی کمپنی اس سال کے اختتام پر  بلاک 10 میں آزمائشی کنوویں کی کھدائی شروع کریگی۔ ترک وزارت خارجہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو اپنے معدنی وسائل لوٹنے نہیں دینگے اور مشرقی بحر روم میں مہم جوئی کرنے والوں کو کچل دیا جائیگا۔ اس دھمکی پر  ایکسون نے کھدائی کا منصوبہ غیر معینہ مدت کے لئے موخر کردیا۔ ترک بحریہ نے اپنی حدود سے فرانسیسی رگز (RIGS)کو بھی ڈبونے کی دھمکی دیکر علاقے سے باہر نکل جانے پر مجبور کردیا۔ اس سال کے آغاز پر ترکی کی سائزمک  کشتیوں نے تیل و گیس کی تلاش کیلئے آزمائش و پیمائش کی مہم کا آغاز کیا۔ یونان نے فرانس اور یورپی یونین کی پشت پناہی میں ترکی کو مشتعل کرنے کی کوشش کی اور کئی بار دونوں ملکوں کے بحری جہاز اورلڑاکا طیارےخطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب آگئے تاہم تصادم نہ ہوا۔

امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اسوقت پیدا ہوئی جب  جولائی 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام فوجی کاروائی  کے دوران باغی طیاروں نے انسر لیک کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔

صدر ایردوان نے اقتدار سنبھالتے ہی دفاعی پیدوار کی صنعت کی طرف توجہ دی اور بہت جلد ترک ساختہ بنکر شکن میزائیل، ڈرون، آبدوز اور صحرائی ٹینک بہت مقبول ہوگئے۔ اس سال ستمبر تک ایسا لگ رہا تھاکہ روس، فرانس، اسرائیل، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کھڑی کی جانیوالی حفتر ملیشیا بس چند ہی ہفتوں میں لیبیا کا دارالحکومت طرابلس فتح کرلیگی لیکن لیبیا حکومت کے ترک ساختہ ڈورن نے پانسہ پلٹ دیا۔ انھیں ڈرونز کی ہلاکت خیز کاروائی کے باعث آرمینیا کی فوج نے نگورناکاراباخ میں ہتھیار ڈالے۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ترکی کی کامیابی سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے۔

ترکی اپنے فضائی دفاع کی جانب سے خاصہ فکر مند ہے۔ اسکے پاس امریکی ساخت کے جدیدحملہ آور اور بمبار طیارے تو ہیں لیکن فضائی حملوں کے خلاف دفاع کے معاملے ترک جرنیلوں کو ایک جدید ترین نظام کی تلاش تھی۔ امریکہ فضائی دفاع کا پیٹریاٹ نظام فروخت کرنے کیلئے تیار ہے لیکن ترک ماہرین اسکی استعداد پر مطمئن نہ تھے۔ترک وزارت دفاع کو امریکیوں کی تلون مزاجی پر  بھی شدید تحفظات ہیں کہ پابندیوں کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ مشرقی بحر روم کی سمندری حدود کے معاملے میں یورپی یونین سے ترکی کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں اور اگر تصادم کے وقت امریکہ بہادر نے پابندیاں لگادیں تو فوج کیلئے سخت مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں چنانچہ روسی ساختہ S-400طیارہ شکن دفاعی نظام کا جائزہ لیا گیا

ترک ماہرین کا خیال ہے کہ S-400 امریکی پیٹریاٹ سے بہتر، استعمال میں آسان، سستا اور زیاد موثر ہے۔ سب سے بڑی بات کہ روس اس میزایل شکن نظام کی  ترکی میں تیاری پر نہ صرف رضامند ہے بلکہ معاہدے کے تحت ترک و روسی ماہرین اسکی بہتری کیلئے مل کر کام کرینگے۔ ان پرکشش شرائط کی بنا پر ترکی نے S-400خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ سودے کی خبر سامنے آتے ہی امریکہ بہادر آپے سے باہر ہوگئےاور ایردوان  مخالف سینیٹروں نے ترکی کو نشانے پر رکھ لیا۔ 2017 میں امریکی مقننہ نے ' پابندیوں کے  ذریعے دشمنوں سے مقابلے کا ایکٹ' یا CAATSAمنظور کیا ہے۔اس قانون کے تحت امریکہ کے نامزد تین بڑے دشمنوں  یعنی ایران، شمالی کوریا اورروس سے فوجی تعاون، اسلحے کی خریداری اور خفیہ و عسکری معلومات کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔ سودے پر معترض سینیٹرز کا کہنا ہے کہ روس سے اسلحہ خرید کر ترکی CAATSAکی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا چنانچہ انقرہ کیخلات سخت پابندیاں لگنی چاہئیں۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی قرارداد پر کان نہ دھرا۔ انکا کہنا تھا کہ ایردوان ایک اہم اتحادی ہیں اور اس قسم کی تادیبی کاروائی سے علاقے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزے کی بات کہ ترکی کے ساتھ ہندوستان نے  بھی S-400خریدنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اسکے خلاف کاروائی کی کوئی قرارداد تودور کی بات رسمی مذمت کی بازگشت بھی سنائی نہ دی۔

اس ماہ کے آغاز پر جب امریکی کانگریس کے سامنے دفاعی بجٹ پیش ہوا تو اسمیں CAATSAکے تحت ترکی کے خلاف پابندی اور افغانستان سے امریکی فوج کے واپسی کیلئے امن و امان   کی شرط بھی لگادی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ امور کو واحد بل میں سمونے کے عمل کو امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں اومنی بس بل کہتے ہیں۔ اومنی بس بل کا بنیادی مقصد مختلف مفادات کو یکجا کرکے اعتراضات کے بغیر بل کی جلد از جلد منظوری ہے۔ یہ بل ایوان زیریں سے 78 کے مقابلے میں 335 اور سینیٹ سے 13 کے مقابلے میں 84 ووٹوں سے منطور ہوگیا اور 14 دسمبر سے ترکی پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔

پابندیوں کے تحت ترکی کو F-35طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے الگ کردیا گیاہے۔ اس غیر مرئی (Stealth)بمبار کی تیاری میں امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ترکی شامل ہیں۔ اسکا بیرونی ڈھانچہ یا شیل ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ اب تک یہ بات واضح نہیں کہ طیارہ ساز ادارہ لاک ہیڈ مارٹن اب بھی یہ شیل ترکی سے بنوائیگا یا اسے متبادل ڈھونڈنے کی ہدائت کردی گئی ہے۔ ترک دفاعی صنعت SSBکے سربراہ اسماعیل دمیر اور ادارے کے تین سینئر افسران  پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔

پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے کہا کہ جب سے CAATSAمنظور ہوا ہے پہلی بار اسکا اطلاق کیا جارہا ہے اور وہ بھی نیٹو کے مخلص ترین رکن پر۔ ہم ترک عوام کو کیا بتائیں کہ یہ کس قسم کا اتحاد ہے؟ ترک صدر نے کہا کہ ان پابندیوں کا مقصد ترک دفاعی صنعت کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ ہم اپنے دفاع کیلئےبڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر رہیں۔ ترک ملت اسے اپنی  سلامتی و خودمختاری پر حملہ سمجھتی ہے جسکی بھرپور مزاحمت کی جائیگی۔جناب ایردوان نے کہا کس ملک سے کیا خریدیں اسکا فیصلہ صرف اور صرف منتخب ترک قیادت  کریگی، ہمیں کسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جناب ایردوان نے واضح کیا کہ اللہ کی مہربانیوں سے ترکی اس مقام تک پہنچ چکا ہے جب پابندیاں ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور اب ہم اپنی دفاع کو  خود مختار بنانے کیئے دگنی محنت کرینگے۔ ترک صدر نے کہا کہ امریکہ ترکی کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اورترک قوم  اپنے دفاع کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتی۔

امریکی حکومت کے فیصلے پر نیٹو نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اتحاد کے سربراہ جینس اسٹولٹن برگ Jens Stoltenbergنے برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کے درمیان تمام تنازعات بات چیت کے زریعے حل ہونے چاہئیں اور پابندیاں لگانے سےقابل قبول اور مثبت حل کی راہ مسدود ہوسکتی ہے۔روسی وزیرخارجہ سرجی لاورووSergey Lavrovنے پابندیوں کو امریکی تکبر کی ایک مثال قراردیا۔

ترک وزیر خارجہ مولوت چاوش اوگلو نے دھمکی دی ہےکہ امریکہ نے ترکی پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان کے رد عمل میں جوابی اقدامات کیے جائیں گے۔ ترکی نےروس سے میزائل دفاعی نظام کی خریداری کا فیصلہ ضرورت کے تحت کیا ہےکیونکہ اسے نیٹو کے کسی اتحادی ملک سے اطمینان بخش شرائط پر میزائل نہیں مل رہے تھے۔

نیٹو اتحادی پر پابندیوں کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ میں ایک ماہ بعدنئی انتظامیہ اختیارات سنبھال رہی ہے۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن صدر ایردوان کو امریکہ و اسرائیل مخالف سمجھتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ وہ  آئندہ انتخابات کے دوران ترکی میں اقتدار کی تبدیلی یا Regime Changeکی کوشش کرینگے۔ دوسرے ملکوں میں دخل اندازی کا یہ بھونڈا انداز اب چلنے والا نہیں۔ ترکی میں حکمرانی کس کی ہوگی اس فیصلے کا حق  صرف اور صرف ترک عوام کو ہے۔ 2013 میں جوبائیڈن اپنے باس بارک اوباما سے مل کر مصر ی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت اور جمہوریت پر شبخون مارچکے ہیں۔ لیکن ترکی اب 1960 والا نہیں جب منتخب وزیراعظم عدنان میندریس کو پھانسی دیدی گئی۔ دنیا، جہوریت و آزادی سے ترک عوام کی وابستگی جولائی 2016 میں دیکھ چکی ہے جب امریکہ نواز مسلح وردی والوں کی نہتے عوام نے مشکیں کس دی تھیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 دسمبر 2020

روزنامہ امت کراچی 25 دسمبر 2020

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 دسمبر 2020

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 دسمبر


2020