کنویں کی کان یا محنت کشوں کا قبرستان
کوئٹہ کے قریب ہرنائی میں کوئلے کی ایک کان کے بیٹھ جانے سے 2 کانکن جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔ بلوچستان میں کوئلے کی کانیں محنت کشوں کیلئے موت کی گھاٹیاں بنی ہوئی ہیں۔
دوسال قبل عدالت عظمیٰ نے جناب اسامہ خاور صاحب کی دائر کردہ درخواست پر کوئلے کی کانوں میں حادثات کا نوٹس لیا تھا۔ ابتدائی سماعت فاضل عدالت کی لاہوررجسٹری میں ایک دورکنی بنچ نے کی تھی جسکے سربرا ہ چیف جسٹس تھے۔ عدالت نے ملک کے اٹارنی جنرل اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل کو عدالت طلبی کے نوٹس بھی جاری کئے تھے۔
سماعت کے دورا ن درخواست گزار کے وکیل میاں ظفر اقبال ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ 2010 سے 2018 کے دوران حادثات کے نتیجے میں 318 کان کن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کمیشن قائم کیا جائے اور آزاد تکنیکی ماہرین کو بھی اس کمیشن کا حصہ بنایا جائے۔ ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں کانکنوں کی جان خطرے میں ہے لیکن انھیں قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قوانین میں ضروری ترامیم کا حکم صادر کیا جائے۔ فاضل وکیل نے شکوہ کیاکہ معلومات تک رسائی نہ ہونے کی بنا پر ان حادثات اور جاں بحق کان کنوں کے بارے میں حقیقی معلومات اور اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ عدالتی کاروائی کہاں تک پہنچی لیکن آج ایک اور المناک حادثے کی خبر سن کرزخم پھر تازہ ہوگئے۔ دکھ صرف قیمتی جانوں کے زیاں کا نہیں بلکہ اصل ماتم کارواں کے دل سے احساسِ زیاں کے چلے جانے کا ہے۔
تیل و گیس کے کنووں اور کوئلے کی کانوں میں حادثات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں چنانچہ ان مقامات پر کارکنوں کی تربیت سمیت حفاظت کے خصوصی اقدامات ضروری ہیں۔ کوئلے کی کانوں کو دو بڑے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
1. کوئلے سے میتھین Methaneگیس کے علاوہ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ میتھین گیس وہی ہے جو سوئی گیس کی شکل میں آپکے چولہے جلاتی ہےا ور گھروں کو گرم رکھتی ہے۔ لیکن اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ سریع الاشتعال گیس چشم زدن میں انسانی جانوں سمیت سارا مال و متاع پھونک بھی سکتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں اگر اخراج کا مناسب انتظام نہ ہو تو بڑی مقدار میں جمع ہوجانے والی گیس خوفناک دھماکے اور کان کے انہدام کا سبب بن سکتی ہے۔
2. کوئلے کی تہوں کے ساتھ کئی جکہوں پر پانی بھی موجزن ہوتا ہے اور اگر کھدائی کے دوران پانی کی تہہ پر ضرب لگ جائے تو کانیں پانی سے بھرجاتی ہیں۔ اسکے علاوہ کوئلے کی تہوں سے پانی کا غیر معمولی رساو بھی کانوں میں محدود سیلاب لاسکتا ہے۔
اللہ نے بلوچستان کو قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور اسکے کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی اضلاع میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جبکہ پیداوار کا تخمینہ 90 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ ان ذخائر سے کوئلہ نکالنے کیلئے ڈھائی ہزار سے زائد کانیں کھودی گئی ہیں جہاں ہر روز 20 ہزار محنت کش گہرائیوں میں اتر کر معدنیات سمیٹتے ہیں۔ یہ خطرناک کام ان غریبوں کیلئے حصول رزق حلال کا ذریعہ ہے۔ لیکن جیالے ہنرمندوں کے خون پسینے سے کروڑ پتی بننے والے سیٹھوں کیلئے ان غریبوں کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ تو کانوں پر میتھین، H2Sاور دوسری خطرناک گیس ناپنے کے آلات رکھے گئے ہیں اور نہ ہی تربیت سمیت حفاظتی اقدامات کا کوئی اہتمام ہے۔ بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی وزارت معدنیات، Mining Managementاور پیشہ وارانہ صحت و حفاظت Occupational Health and Safetyکےادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔کوئلے کی کانوں پر 'چھوٹے موٹے'جان لیوا حادثات عام طور سے منظر عام پر بھی نہیں آتے۔
پاکستان میں کانکنی اور معدنیات کے ماہرین کی کوئی کمی نہیں۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان (GSP) میں ماپرین ارضیات و ڈرلنگ انجینرز کے ساتھ صحت، حٖفاظت و احتیاط کے ماہرین بھی ہیں۔ وزارت پیٹرولیم میں معدنیات کا ایک مکمل ڈائریکٹوریٹ ہے جہاں انتہائی قابل افسران موجود ہیں جو پالیسی سازی اور قوانین وضع کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ OGDCایسے ماہرین سے بھری پڑی ہے جو اس قسم کی خدمات فراہم کرنے کی قابلیت و تجربہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر بلوچستان کی صوبائی وزارت معدنیات کی دستاویزات کو کھنگالاجائے تو ان بوسیدہ اوراق میں بھی حفاظتی اقدامات سے متعلق ہدایات اور ضابطوں کی تفصیل موجود ہوگی۔ ضرورت ان قوانین کے نفاذ اور موثر نظامَ احتساب کی ہے جہاں فرض سے کوتاہی برتنے والے افراد کا بروقت مواخذہ کرکے قرارواقعی سزا کو یقنی بنایا جائے۔ یہ کام آخر کب شروع ہوگا؟؟؟
No comments:
Post a Comment