Thursday, December 17, 2020

مراکش، اسرائیل اور امریکہ ۔۔ قبضہ مافیا؟؟؟

 

مراکش، اسرائیل اور امریکہ ۔۔  قبضہ مافیا؟؟؟

متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد مراکش بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند ہوگیا۔ بحر روم اور بحر اوقیانوس کے سنگم پر واقع اس ملک کو   جغرافیہ داں افریقہ کا غرب الاقصیٰ قرار دیتے ہیں کہ یہ  براعظم افریقہ کا شمال مغربی کنارہ ہے۔ پونے چار کروڑ نفوس پر مشتمل مراکش کا سرکاری نام مملکت المغربیہ ہے اور اس پورے علاقے کو مغرب کہا جاتا ہے جس میں الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ اور مراکش واقع  ہیں۔ اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مراکش کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہسپانیہ پر فوج کشی کیلئے طارق بن زیاد کا لشکرمراکش کے شہر طنجہ(Tangier) سے کشتیوں میں سوار ہوکر  بحر روم  و بحر اوقیانوس کو ملانے والی آبنائے کو عبور کرکے اس چٹان پر اتراتھاجو بعد میں جبل الطارق کے نام سے مشہور ہوئی۔ افریقہ اور یورپ کو ملانے والا یہ تنگ سا آبی راستہ بھی آبناے جبل الطارق یا Strait of Gibraltar کہلاتاہے۔ آبنائے جبل الطارق علاقے کی آبی شہہ رگ ہے کہ بحر اسود و بحر روم کا سارا بحری ٹریفک اسی آبنائے سے گزر کر بحر اقیانوس میں داخل ہوتا ہے۔ بحر روم سے نکلنے کا دوسراراستہ نہر سوئز ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔

1956میں اپنی آزادی کے بعد سے مراکش میں ملوکیت کا نظام قائم ہے۔ 2010کے اختتام پر تیونس سے شروع ہونے والی پرامن تحریک ساری عرب دنیا بالخصوص شمالی افریقہ میں بیداری کا نقطہِ آغاز ثابت ہوئی۔ مراکشی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور العدل والاحسان کے عنوان سے سماجی انصاف، جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کیلئے مظاہرے شروع ہوئے۔ اپنے تیونسی، مصری، شامی اور یمنی ہم منصبوں کے برعکس مراکش کے فرمانروا محمد السادس (ششم) نے ان مظاہروں کو کچلنے کے بجائےعوامی خواہشات کے مطابق دستور میں ترامیم کاایک مسودہ پالیمان میں پیش کردیا جسکے مطابق حکمرانی کے تمام اختیارات منتخب وزیر اعظم کو تفویض کردئے گئے۔ نئے دستور کی رو سے پالیمنٹ کی تحلیل ، بین الا قوامی معاھدات، سزاوں کی معافی، قومی میزانئے کی ترتیب، اسٹیٹ بینک اور سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہان کا تقرر اور انتخابات کے انعقاد سمیت تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل کردئے گئے۔ پارلیمان سے منظور ی کے بعد جولائی میں ایک قومی ریفرنڈم کے ذریعے اس آئینی مسودے کی توثیق کرالی گئی اور نئے  آئین کے مطابق دو بار انتخابات بھی منعقد ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاہ صاحب نے مغربی صحارا میں کشیدگی کے پیش نظر سفارت و بین الاقوامی تعلقات کے اختیارات وزیراعظم سے واپس لے لئے۔

یادش بخیر جب نئے آئین کے تحت 2011 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا، اسوقت بائیں بازو کی کچھ جماعتوں نے لنگڑی لولی جمہوریت پر تحٖفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کے بجائے بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کی تجویز دی تھی۔ مزدور رہنما نجیب شوقی نے اسی وقت کہا تھا کہ بادشاہت اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بادشاہ سلامت کی 'دست نگر'پارلیمان اور حکومت، ربڑ کی مہر سے زیادہ کچھ نہیں۔ شوقی صاحب کی بات اب درست ثابت ہوئی جب شاہ صاحب نے پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اخوانی فکر سے وابستہ وزیراعظم سعید الدین عثمانی اس فیصلے سے خوش نہیں لیکن قہر درویش بر جان درویش۔

مراکش کی تاریخ، جغرافیہ اور سیاست کے مختصر تعارف کے بعد اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔

اسرائیلی سالمیت کے تحفظ کو صدر ٹرمپ نے اپنی مذہبی فریضہ قراردیا تھا اور وہ اپنی حلف برداری کے پہلے دن سے اس مشن پر انتہائی اخلاص سے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کا سفارتخانہ یروشلم منتقل کردیا اور پھر گولان کے اسرائیل سے الحاق کی توثیق کرکے یہ اعلان کردیا اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ عرب علاقوں کو وہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کریں۔ اسی ایجنڈے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے صرف چار ماہ بعد مئی 2017 میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس تفصیلی دورے کو سربراہی کانفرنس یا Riyadh Summitکا نام دیا گیا۔ یہ دراصل چوٹی کے تین اجلاس تھے۔ یعنی صدر ٹرمپ اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان گفتگو، امریکی صدر اور خلیجی ممالک کے سربراہان کے مابین ملاقات کے علاوہ امریکی صدر نے اسلامی ممالک کی قیادت سے بات چیت کی جس میں پاکستان سمیت 54 مسلم ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ایران اور شام کو دعوت نہیں دی گئی جبکہ ترکی نے اس بنیاد پر کانفرنس کا بائیکاٹ کیا کہ فلسطین کو ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے مدعو نہیں کیا گیاتھا۔ اس دوران سعودی فرمانروا نےامر بالمعروف کا زبردست مظاہرہ کیا۔ مہمانوں کو رات کے کھانے کے بعد جب قہوہ پیش کیا گیا تو امریکی صدر نے فنجان بائیں ہاتھ میں لیا۔ یہ دیکھ کر سعودی بادشاہ نے اپنے مہمان سے کہا کہ ہمیں دائیں ہاتھ سے کھانے اور پینے کی ہدائت کی گئی ہے لہذا آپ سے گزارش ہےکہ فنجان دائیں ہاتھ میں رکھیں۔ صدر ٹرمپ نے شکرئے کے ساتھ قہوے کی پیالی دائیں میں کر لی۔اس ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے مسلم رہنماوں پر زور دیا کہ وہ  اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ صدر ٹرمپ کا کہناتھا کہ مشرق وسطیٰ میں بدامنی سے ساری دنیا متاثر ہورہی ہے اور یہ ضروری ہےکے عرب اور اسرائیلی ماضی کو بھول کر دوستی کا نیا باب شروع کریں۔ اس موقع پر شاہ سلمان نے بہت صراحت کے ساتھ او آئی سی کا نقطہ نظر دہرایا کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزادو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے مسلم دنیا اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگی۔اس دوران یہ حقیقت بھی امریکی صدر کے گوش گزار کردی گئی کہ مصر اسرائیل معاہدے اور اسکے اوسلو مذکرات میں بھی اسرائیل نے آزادوخودمختار فلسطین کو تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اس سال کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا جسے deal of the centuryکا نام دیاگیا۔ اس پیشکش کو سادہ سے الفاظ میں اسطرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ریاست و مملکت کا سودا سر سے نکال کر فلسطینی اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہریت قبول کرلیں تو انکے لئے مصرکی سرحد پر ایک جدید ترین صنعتی  شہر اور فارم ہاوس کی شکل میں عظیم الشان زراعتی مرکز تعمیرکیا جائیگا۔ امریکہ کے داماد اول اور مشرق وسطیٰ کے امور پر صدر ٹرمپ کے مشیر جیررڈ کشنرنے معاہدے کےاقتصادی پہلو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ امن کے قیام  سے فلسطینیوں کیلئے خوشی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس نئے منصوبے پر 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ فلسطینی ریاست کے جو خدوخال پیش کئے گئے اسکے مطابق فلسطین اسرائیل سے گھری چند بستیوں پر مشتمل ایک کالونی ہوگا جسے فوج رکھنے کی اجازت نہیں اوراسکی سرحدوں پر اسرائیلی فوج تعینات رہیگی، یعنی جھنڈے اور پاسپورٹ کے علاوہ استقلال و اختیار کی کوئی علامت فلسطینی ریاست کے پاس نہ ہوگی۔ حسب توقع مقتدرہ فلسطین اور حماس نے یہ dealترنت مسترد کردی۔فلسطینیوں کے صاف انکار پر امریکہ بہادر نےعرب اسرائیل تنازعے سے فلسطین کے معاملے کو نکال کر لاٹھی اور گاجر کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی حکم عدولی کی صورت میں کڑی سزا اور تابعداری پر شاندار پیشکش۔

خلیجی ممالک کو ایران کا خوف دلایا گیا کہ اگر امریکہ ان ملکوں کی حمائت سے ہاتھ اٹھالے تو ایران چند ہی گھنٹوں میں ان شیوخ و ملوک کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ جناب کشنر نے اپنے جگری دوستوں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور انکے اماراتی ہم منصب محمد بن زید کو سمجھایا کہ امریکہ بہت دور ہے اور پھر کانگریس اور سینیٹ کی موشگافیاں عین وقت پر مشکلات بھی پیدا کرسکتی ہیں اسکے مقابلے میں اسرائیل پڑوسی ہے اور ایران کے بارے میں اسے بھی خطرات لاحق ہیں چنانچہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات خلیجی ممالک کے مفاد میں ہے۔

ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے۔ اس نئی تحریک کو صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیم کا نام دیا یعنی حضرت ابراہیم سے منسوب تینوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مصالحت۔ اسی دوران یورپ کے ایک مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے بھی اسرائیل کا تسلیم کرلیا۔ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک اعلان کیا کہ وہ کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے۔ سعودی عرب کی جانب سے آنے والے تمام اشارے مثبت ہیں لیکن اب تک ریاض نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔

خلیجی ممالک کیساتھ شمالی افریقہ کے ممالک کو بھی ترغیب دی گئی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ سوڈان دہشت گردوں کی اعانت   کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے سخت معاشی پابندیوں کا شکار تھا۔ خرطوم کو پیشکش کی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائیگا۔ لیکن یہ سب کچھ مفت نہیں بلکہ معافی کے عوض دہشت گرد واقعات کے متاثرین کی امداد کیلئے سوڈان سے 40 کروڑ ڈالر تاوان بھی وصول کیا گیا ہے۔

مراکش کے معاملے میں شہشاہانِ بر صغیر کے سے کروفر کا مظاہرہ کیاگیا کہ جیسے اچھے وقتوں میں ظل الٰہی خوش ہوکر لوگوں کو رقبے اور مربعے بخش دیاکرتے تھے ایسے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض مراکش کو مغربی صحارا عطا کردیا گیا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے تنازعہ مغربی صحارا پر چند سطور۔

مراکش کے جنوب مغرب میں الجزائر کی سرحد سے بحراوقیانوس کے کنارے 2لاکھ 66ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اس صحرا کے بڑے حصے پر مراکش کی عملداری جبکہ 20 فیصد علاقہ جمہویہ صحراویہ کے نام سے خودمختار ریاست ہے۔ اس لق و دق صحرا کے بڑا حصے میں زندگی کے آثار نہیں اور یہاں آباد 5 لاکھ افراد کی اکثریت ساحلی علاقوں میں رہائش پزیر ہے۔ سوا لاکھ کےقریب افراد بحر اوقیانوس کے کنارے دارالحکومت العیون (Laayoune)میں رہتے ہیں۔یہاں رہنے والوں کی اکثریت بربرنسل کے عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بر بر تھے۔ مغربی صحارا میں فاسفیٹ کے بڑے ذخائر ہیں اور  بحراوقیانوس میں تیل و گیس کے امکانات خاصے روشن ہیں۔

مغربی صحراپر سن1700 میں ہسپانیہ نے قبضہ کرکے اسکی بندرگاہ غلاموں کی تجارت کیلئے وقف کردی ۔ مسلح یورپی قزاق العیون کی بندرگاہ پر اترتے اور انسانوں کو گھیر کر جانوروں کی طرح جہاز پر سوار کرکے یورپ روانہ کردیا جاتا جہاں ہالینڈ میں روٹر ڈیم Rotterdamکی بندرگاہ پر غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئی تھیں۔

 1975 میں ہسپانیہ کے جنرل فرانکو نے صحارا کو موریطانیہ اور مراکش کے حوالے کردیا۔ شمالی علاقہ جو رقبے کے اعتبار سے 2 تہائی سے زیادہ ہے مراکش کو دیدیا گیا۔ یہ علاقہ مراکش کا جنوبی صوبہ کہلاتا ہے۔ جنوب کا حصہ جسے جنرل فرانکو نے موریطانیہ کے حوالے کیا مغربی تیرس یا تیرس الغربیہ کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔

علاقے کے عوام نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا،  وہ ایک آزاد صحراوی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔اس مقصد کیلئے پاپولر محاذ برائے آزادی کے نام سے مزاحمتی تحریک سالوں سے سرگرم تھی۔ قارئین نے پولیساریو (POLISARIO) فرنٹ کا نام سنا ہوگا جو محاذ کا ہسپانوی محفف ہے۔ الجزائر پولیساریو کو مالی اور عسکری مدد فراہم کررہا ہے، اسی بناپر رباط اورالجزائر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔پولیساریو اور مراکشی فوج کے درمیان مسلح تصادم کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے 1991 میں اس شرط پر جنگ بندی ہوئی کہ صحارا کی قسمت کا فیصلہ اگلے سال آزادانہ استصواب رائے سے ہوگا۔ریفرنڈم میں صحراوی عوام سے دریافت کیا جائیگا کہ 'وہ مراکش کا حصہ یا پولیساریو کے موقف کی حمائت کرتے ہوئے آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں؟' ریفرنڈم کیلئے جب ووٹر فہرست کی تیاری کا کام شروع ہوا تو رائے دہندگان کی شناخت کا مسئلہ سامنے آیا۔ صحارا کی قبائلی نوعیت کی بنا پر شہریوں کے پاس کوئی مستند شناختی دستاویز نہیں چنانچہ انھیں شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن مراکش کے اعتراضات کی بنا پر ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور ریفرنڈم ملتوی ہوگیا۔اس دوران پولیساریونے اقوام متحدہ کے نام ایک چٹھی میں شکائت کی کہ مراکش علاقے کی نسلی ہئیت تبدیل کرنے کیلئے بڑی تعداد میں مراکشیوں کو ساحلی علاقوں میں آباد کررہاہے

خونریز تصادم کے بعد بات چیت دوبارہ شروع ہوئی اوراس بار امریکی شہر ہیوسٹن کی جامعہ رائس (Rice University) میں مذاکرات ہوئے۔ 1997میں ہونے والے ان مذاکرات کے سہولت کار اقوام متحدہ کے نمائندے جیمز بیکر  تھے چنانچہ اسے اعلانِ ہیوسٹن کے علاوہ بیکر معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ ہیوسٹن سے پہلے جناب بیکر کی سربراہی میں پولیساریو اور مراکش کے درمیان پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ووٹروں کی شناخت کے معاملے پر اصولی اتفاق  ہوچکا تھا۔

معاہدے کے باوجود عملی طور پر کام شروع نہ ہوسکا اور 2004 میں مراکش  اعلانِ ہیوسٹن سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوگیا۔بیکر منصوبہ مسترد کرکے مراکش نے ریفرنڈم کے بجائے اپنے زیرانتظام علاقے میں شاہی مجلس شوریٰ برائے امور صحارا قائم کردی جسکے عربی املا کا مخخف CORCASہے۔ رباط کا اصرار ہے کہ اس نے CORCAS کی شکل میں صحراوی عوام کو مکمل خودمختاری عطا کردی ہے لہذا ریفرنڈم کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاہی مجلس شوریٰ کے ارکان کو بادشاہ سلامت خود نامزد کرتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کو تسلیم کرلیاہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں امریکی صدر  نے کہا کہ ’مراکش نے امریکا کو اپنی آزادی کے ساتھ ہی  تسلیم کرلیا تھا اور ہم اب مغربی صحارا میں اس کی خودمختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔‘ امریکی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کے فیصلے کو  صحارا امن کیلئے بڑی پیشرفت قراردیا ہے لیکن یہ اعلان صحراوی عوام کیلئے مایوس کن ہے جو کئی دہائیوں سے اس علاقے کی آزادی کے خواہشمند ہیں۔

جیسے 'معافی 'کے عوض امریکہ نے تاوان کی مد میں خرطوم سے 40 کروڑ ڈالر وصول کئے ویسے ہی مغربی صحارا حوالہ کرنے کی قیمت اسلحے کا سودا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بات چیت کے دوران مراکشی بادشاہ کو باور کرادیا کہ پولیساریو فرنٹ مغربی صحارا پر رباط کے قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت نہیں کریگا چنانچہ باغیوں کا دماغ درست کرنے کیلئے مراکش کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرایع نے بتایا ہے کہ مراکش امریکہ سے جدید ترین ڈرون، صحرائی جنگ کیلئے ٹینک اور آبدوزیں خریدے گا جسکی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی کیساتھ اسرائیل نے سیکیورٹی کے حوالے سے جاسوسی کی خدمات اور گوریلوں سے لڑنے کیلئے ہلکے ہتھیار کی پیشکش کی ہے جسکا حجم 20 کروڑ ٖڈالر بتایا جارہا ہے

حسب توقع پولیساریو فرنٹ نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں فرنٹ کے نمائندے سیدی عمر نے اس اعلان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے 'مہذب دنیا' کو یاددلایاکہ کہ علاقوں کی قانونی حیثیت کا تعین بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہوتا ہے لیکن حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہےکہ مراکش مغربی صحارا کے کچھ حصوں پر غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی روح فروخت کررہا ہے۔ پولیساریو فرنٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'امریکی پالیسی میں تبدیلی سے اس تنازعے کی حقیقت تبدیل ہوگی اور نہ مغربی صحارا کے عوام خودارادیت کیلئے اپنی مقدس جدوجہد سے دستبردار ہونگے۔‘

اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے انکشاف کیا کہ امن کے بین الاقوامی ادارے کو بھی باقی دنیا کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ سےاس پیش رفت کا علم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کا مؤقف اس معاملے پر تبدیل نہیں ہوا اور یہ معاملہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مطابق حل ہونا چاہئے۔

امریکہ کی ثالثی میں مراکش اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدہ کسی بھی زاوئے سے سفارت کاری نظر نہیں آتا، یہ قبضہ مافیا کے درمیان ڈان کی سربراہی میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کا معاہدہ ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 18 دسمبر 2020

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 دسمبر


2020

No comments:

Post a Comment