مراکش، اسرائیل اور امریکہ ۔۔ قبضہ مافیا؟؟؟
متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد مراکش بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند ہوگیا۔ اس معاہدے کی شرائط پر چند سطور
مراکش کے معاملے میں شہشاہانِ بر صغیر کے سے کروفر کا مظاہرہ کیاگیا کہ جیسے اچھے وقتوں میں ظل الٰہی خوش ہوکر لوگوں کو رقبے اور مربعے بخش دیاکرتے تھے ایسے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض مراکش کو مغربی صحارا عطا کردیا گیا۔
یہ تنازعہ کیا ہے؟؟؟
مراکش کے جنوب مغرب میں الجزائر کی سرحد سے بحراوقیانوس کے کنارے 2لاکھ 66ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اس صحرا کے بڑے حصے پر مراکش کی عملداری جبکہ 20 فیصد علاقہ جمہویہ صحراویہ کے نام سے خودمختار ریاست ہے۔ اس لق و دق صحرا کے بڑا حصے میں زندگی کے آثار نہیں اور یہاں آباد 5 لاکھ افراد کی اکثریت ساحلی علاقوں میں رہائش پزیر ہے۔ سوا لاکھ کےقریب افراد بحر اوقیانوس کے کنارے دارالحکومت العیون (Laayoune)میں رہتے ہیں۔یہاں رہنے والوں کی اکثریت بربرنسل کے عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بر بر تھے۔ مغربی صحارا میں فاسفیٹ کے بڑے ذخائر ہیں اور بحراوقیانوس میں تیل و گیس کے امکانات خاصے روشن ہیں۔
مغربی صحراپر سن1700 میں ہسپانیہ نے قبضہ کرکے اسکی بندرگاہ غلاموں کی تجارت کیلئے وقف کردی ۔ مسلح یورپی قزاق العیون کی بندرگاہ پر اترتے اور انسانوں کو گھیر کر جانوروں کی طرح جہاز پر سوار کرکے یورپ روانہ کردیا جاتا جہاں ہالینڈ میں روٹر ڈیم Rotterdamکی بندرگاہ پر غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئی تھیں۔
1975 میں ہسپانیہ کے جنرل فرانکو نے صحارا کو موریطانیہ اور مراکش کے حوالے کردیا۔ شمالی علاقہ جو رقبے کے اعتبار سے 2 تہائی سے زیادہ ہے مراکش کو دیدیا گیا۔ یہ علاقہ مراکش کا جنوبی صوبہ کہلاتا ہے۔ جنوب کا حصہ جسے جنرل فرانکو نے موریطانیہ کے حوالے کیا مغربی تیرس یا تیرس الغربیہ کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔
علاقے کے عوام نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا، وہ ایک آزاد صحراوی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔اس مقصد کیلئے پاپولر محاذ برائے آزادی کے نام سے مزاحمتی تحریک سالوں سے سرگرم تھی۔ قارئین نے پولیساریو (POLISARIO) فرنٹ کا نام سنا ہوگا جو محاذ کا ہسپانوی محفف ہے۔ الجزائر پولیساریو کو مالی اور عسکری مدد فراہم کررہا ہے، اسی بناپر رباط اورالجزائر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔پولیساریو اور مراکشی فوج کے درمیان مسلح تصادم کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے 1991 میں اس شرط پر جنگ بندی ہوئی کہ صحارا کی قسمت کا فیصلہ اگلے سال آزادانہ استصواب رائے سے ہوگا۔ریفرنڈم میں صحراوی عوام سے دریافت کیا جائیگا کہ 'وہ مراکش کا حصہ یا پولیساریو کے موقف کی حمائت کرتے ہوئے آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں؟' ریفرنڈم کیلئے جب ووٹر فہرست کی تیاری کا کام شروع ہوا تو رائے دہندگان کی شناخت کا مسئلہ سامنے آیا۔ صحارا کی قبائلی نوعیت کی بنا پر شہریوں کے پاس کوئی مستند شناختی دستاویز نہیں چنانچہ انھیں شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن مراکش کے اعتراضات کی بنا پر ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور ریفرنڈم ملتوی ہوگیا۔اس دوران پولیساریونے اقوام متحدہ کے نام ایک چٹھی میں شکائت کی کہ مراکش علاقے کی نسلی ہئیت تبدیل کرنے کیلئے بڑی تعداد میں مراکشیوں کو ساحلی علاقوں میں آباد کررہاہے۔
خونریز تصادم کے بعد بات چیت دوبارہ شروع ہوئی اوراس بار امریکی شہر ہیوسٹن کی جامعہ رائس (Rice University) میں مذاکرات ہوئے۔ 1997میں ہونے والے ان مذاکرات میں ووٹر رجسٹریشن کی تفصیلات پر اتفاق ہوگیا۔
ہیوسٹن معاہدے کے بعد بھی عملی طور پر کام شروع نہ ہوسکا اور 2004 میں مراکش اعلانِ ہیوسٹن سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوگیا۔ منصوبہ مسترد کرکے مراکش نے ریفرنڈم کے بجائے اپنے زیرانتظام علاقے میں شاہی مجلس شوریٰ برائے امور صحارا قائم کردی جسکے عربی املا کا مخخف CORCASہے۔ رباط کا اصرار ہے کہ اس نے CORCAS کی شکل میں صحراوی عوام کو مکمل خودمختاری عطا کردی ہے لہذا ریفرنڈم کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاہی مجلس شوریٰ کے ارکان کو بادشاہ سلامت خود نامزد کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کو تسلیم کرلیاہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں امریکی صدر نے کہا کہ ’مراکش نے امریکا کو اپنی آزادی کے ساتھ ہی تسلیم کرلیا تھا اور ہم اب مغربی صحارا میں اس کی خودمختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔‘ امریکی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کے فیصلے کو صحارا امن کیلئے بڑی پیشرفت قراردیا ہے لیکن یہ اعلان صحراوی عوام کیلئے مایوس کن ہے جو کئی دہائیوں سے اس علاقے کی آزادی کے خواہشمند ہیں۔
لیکن مراکش کا مغربی صحارا مفت میں نہیں ملا، اسکی قیمت اسلحے کا سودا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بات چیت کے دوران مراکشی بادشاہ کو باور کرادیا کہ پولیساریو فرنٹ مغربی صحارا پر رباط کے قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت نہیں کریگا چنانچہ باغیوں کا دماغ درست کرنے کیلئے مراکش کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرایع نے بتایا ہے کہ مراکش امریکہ سے جدید ترین ڈرون، صحرائی جنگ کیلئے ٹینک اور آبدوزیں خریدے گا جسکی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی کیساتھ اسرائیل نے سیکیورٹی کے حوالے سے جاسوسی کی خدمات اور گوریلوں سے لڑنے کیلئے ہلکے ہتھیار کی پیشکش کی ہے جسکا حجم 20 کروڑ ٖڈالر بتایا جارہا ہے
حسب توقع پولیساریو فرنٹ نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں فرنٹ کے نمائندے سیدی عمر نے اس اعلان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے 'مہذب دنیا' کو یاددلایاکہ کہ علاقوں کی قانونی حیثیت کا تعین بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہوتا ہے لیکن حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہےکہ مراکش مغربی صحارا کے کچھ حصوں پر غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی روح فروخت کررہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے انکشاف کیا کہ امن کے بین الاقوامی ادارے کو بھی باقی دنیا کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ سےاس پیش رفت کا علم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کا مؤقف اس معاملے پر تبدیل نہیں ہوا اور یہ معاملہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مطابق حل ہونا چاہئے۔
امریکہ کی ثالثی میں مراکش اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدہ کسی بھی زاوئے سے سفارت کاری نظر نہیں آتا، یہ قبضہ مافیا کے درمیان ڈان کی سربراہی میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کا معاہدہ ہے۔
No comments:
Post a Comment