سال 2020کے دو تلخ ترین پہلو
2020 ختم ہونے کو ہے مگر عذاب ختم ہوتا نظر نہیں آرہا اور ایک مدت تک دو بڑے انسانی المیے 2020 کی وجہ شہرت بنے رہیں گے۔ جن میں سے ایک کرونا وائرس کہ جس سےانسانی حیات اور اسباب حیات دونوں ہی ٖغارت ہوگئے اور دوسرا فلسطینیوں کو دیوار میں چن دینے کی تحریک کہ جس نے51 لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کو چڑیا گھر کے جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔
کووڈ 19 وبا:کرونا وائرس کا آغاز 2019کے اختتام پر کچھ اسطرح ہوا کہ وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکائت ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے نزلہ زکام سمجھ کر نظر اندار کردیا۔کچھ طبی ماہرین نے اس زکام کو ایک خاص طریقے کا نمونیا قراردیکر علاج شروع کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک چینی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر لی وینلیانگ Li Wenliangنے سب سے پہلے اس نزلے کو ایک خوفناک متعدی مرض کا آغاز قراردیا لیکن اس بات پر کان دھرنے کے بجائے چینی حکومت نے افواہ سازی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے الزام میں 34 سالہ ڈاکٹر لی کو گرفتار کرلیا۔ دوسری طرف مرض بڑھتا رہا اور ہزاروں افراد ہسپتال پہنچ گئے۔متاثرین کے لعابِ دہن ، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزئے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسے2019-nCoVیا نویل کرونا واائرس کہتے ہیں۔ لفطِ کرونا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزئے کے دوران اس جرثومے کے جزئیات تاج (کراون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے 2020 کے آغاز پر اسے عالمی وبا یا Pandemicتسلیم کرتے ہوئے اس مرض کو 'کووِڈ 19' (COVID-19)کا نام دے دیا ۔ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں آٹھ کروڑ کے قریب لوگ اس مرض سے متاثر ہوئے جن میں سے 18 لاکھ سے زیادہ کی موت واقع ہوئی۔ تباہی کے اعتبار سے امریکہ کا پہلا نمبر ہےجہاں کووڈ مریضوں تعداد 2کروڑ ہے جن میں سے 3لاکھ 32 ہزار افراد زندگی کی بازی ہار گئے یعنی ہر ایک ہزار امریکیوں میں سے ایک فرد کو یہ موذی مرض چاٹ گیا۔ مزید بدنصیبی کہ مرض کے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی اکثریت رنگداروں اور غریبوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستان کووڈ کے حوالے سے بھی دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے اور ڈیڑھ لاکھ معصوم جانیں ضایع ہوگئیں۔ برازیل تیسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان کا باالترتیب 27، 28 اور 90واں نمبر ہے۔ مسلمان ملکوں میں ایران سب سے زیادہ متاثر ہے۔ تہران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے دواوں اور طبی آلات کی بندش نے صورتحال کو انتہائی گھمبیر بنادیا ہے۔ وہاں اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ ہے جن میں سے 55 ہزار افراد موت کے گھاٹ اترگئے۔
سال کے اختتام پر دنیا کے اکثر ممالک میں جدرین کاری یا Vaccinationکا آغاز ہوچکا ہے جسکی بناپر طبی ماہرین پر امید ہیں کہ 2021 کے وسط تک صورتحال معمول پر آنا شروع ہوجائیگی۔ تام اس موذی نے معیشت اور اسباب حیات کو جو نقصان پہنچایا اسکے ازالے کیلئے کم از کم اٹھارہ مہینے اور کچھ ماہرین کے خیال میں ڈھائی سے تین سال درکار ہیں۔
فلسطین:گزشتہ سال کا سب سے بڑا اخلاقی سانحہ عرب اسرائیل معاہدہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے جو نام دیا ہے وہ لکھتے ہوئے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ نسل کشی کی اس دستاویز کو اللہ کے خلیل سے منسوب کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی توہین ہے جنکے کے لئے حضرت ابراہیم، اللہ سے وفا اور وفاداری کا استعارہ ہیں۔اس معاہدے کا بنیادی مقصد عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکالنا تھاتاکہ عرب و مسلم ممالک فلسطینیوں کو اسرائیلی نسل پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے محدود وطنی بلکہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے مطابق فیصلے کریں۔
اب حال یہ ہے کہ غرب اردن میں آباد فلسطینیوں کےگھر اسرائیلی آبادکاروں کے حوالے کردئے گئے ہیں او اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوجانے والوں کواردن کی سرحد کی طرف دھکیلا جارہا ہے جہاں کاکسس بازار (بنگلہ دیش) کے برمی پناہ گزینوں کی طرز پر خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہں۔
صدر ٹرمپ الفت وپیار، قربت کے افتخار اور ناجائز قبضے کو توثیق کے وعدے پر مسلم رہنماوں کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی صلاح دے رہے ہیں۔ اگر خرِ زمانہ کو یہ راتب پرکشش محسوس نہ ہو تو چچا سام کے ایک ہاتھ میں گاجر کے ساتھ دوسرے ہاتھ میں موٹی سے لاٹھی بھی ہے۔تخت کو تختہ بنادینے کی دھمکی پر کیا وردی والے اور کیا بلڈی سویلین، امیر و شاہ، ملوک و سلاطین سب ہی سر جھکا دیتے ہیں۔کلائیاں مروڑ کر صدر ٹرمپ نے بحرین سے رباط اور کوسووو سے خرطوم تک سب کو اسرائیل کے آگے سجدہ ریز کردیا تاکہ فلسطینیوں کے حق میں ہلکی، روائتی اور رسمی سی آواز بھی نہ بلند ہونے پائے۔
اور تو اور ترکی نے بھی اسرائیل سے سفارتی کشیدگی ختم کرتے ہوئے سفیروں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے مابین سفارتی تعلقات تو کمال اتاترک کے شاگردِ رشید عصمت انونو کے وقت سے ہیں لیکن 2010 میں غزہ کیلئے کشتیوں کے امدادی قافلے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد جناب طیب ایر دوان نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھا اور گزشتہ 10 سال سے ان دونوں ملکوں کے درمیاتی سفارتی تعلقات معطل تھے۔
No comments:
Post a Comment