پاکستان کا گیس بحران
پاکستان کے بہت سے علاقوں میں آجکل گیس کی قلت محسوس کی جارہی ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں تو یہ مسئلہ اتنا شدید نہیں لیکن خیبر پختونخواہ اور کراچی کے بعض علاقوں میں گیس کا دباو بہت کم ہے۔
پنجاب کی بہتر صورتحال کی وجہ جنوب سے شمال کی جانب بچھائی جانیوالی پائی لائن ہے جس سے تقریباً 60 کروڑ مکعب فٹ اضافی (600mmcf.d)گیس یومیہ فراہم کی جارہی ہے۔ 100 ارب لاگت سے یہ منصوبہ 2018میں اس وقت مکمل ہوا جب شاہد خاقان عباسی وفاقی وزیر اور اور موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال وزیر مملکت برائے پیٹرولیم تھے۔
پاکستان میں گیس کے بحران کی وجہ بڑی سادہ ہے یعنی یہاں طلب، رسد سے زیادہ ہے۔ 2019 تک پاکستان میں گیس کی مقامی پیدوار 4 ارب مکعب فٹ یومیہ (4bcf/d)تھی۔ عام دنوں میں ضرور ت 5 ارب کی ہے جبکہ سخت سردی کے موسم میں طلب ساڑھے چھ ارب مکعب فٹ (6.5bcf/d)ہوجاتی ہے۔ طلب اور رسد کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے سابق حکومت نے قطر سے Liquefied Natural Gasیا LNG درآمد کرنے کا معاہدہ کیا۔ LNG کیا ہے اس پر چند سطور سے صورتحال سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ایل این جی کشید کرنے کیلئے قدرتی گیس سے پانی، ہائیڈروکاربن کے بو جھل و کثیف ذرات(heavy Hydrocarbons)، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر دباو ڈال کو اسے رقیق حالت میں تبدیل کردیا جاتاہے۔اس عمل کا بنیادی مقصد نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا ہے کہ جہاں پائپ لائن بچھانا ممکن نہ ہو تو ایل این جی کو ٹینکروں اور بحری جہازوں کے ذریعے پیداواری مقام سے دوردراز علاقوں یا بیرونی ممالک کو بھیجا جاسکے۔ LNG بنانے کے عمل میں قدرتی گیس کا حجم 600 واں حصہ رہ جاتا ہے۔مقام مقصود پر پہنچنے کے بعد اسے دوبارہ گیس کی شکل دیدی جاتی ہے تاکہ اس سیلینڈروں یا پائپ لائن کے ذریعے آگے تقسیم کیا جاسکے۔ اس عمل سے حاصل ہونے والی گیس کو Re-Gasified Liquefied Natural Gas (RLNG) کہا جاتا ہے۔
ایل این جی کو RLNG میں تبدیل کرنے کیلئے دو ٹرمینل بھی حاصل کئے گئے جنکی مجموعی گنجائش 1.2مکعب ارب فٹ روزانہ (1.2 bcf/d)ہے ، یعنی اب رسد کا حجم 5.2 مکعب ارب فٹ ہوگیا۔ یہ مقدار سخت سردی کیلئے ناکافی تھی چنانچہ دو مزید ٹرمینل کیلئے بات شروع کی گئی لیکن انتخابات کے ہنگامے میں معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ LNGخریدناتو کوئی مسئلہ نہیں کہ قطر،آسٹریلیا، نائیجیریا اوردوسرے بہت سے ملک LNGبہت پر کشش قیمتوں پر بیچنے کو تیار ہیں لیکن اگر ٹرمینل پر اسے پائپ لائن میں بہنے کیلئے آر ایل این جی بنانے کی گنجائش نہ ہو تو سب بیکار ہے۔
نئی حکومت آنے پرعلی زیدی سمیت کئی وزرا نے ایکسون موبل اور دوسری کمپنیوں سے سستے داموں LNGخریدنے کی بات تو کی لیکن ٹرمینل کی طرف کسی کی توجہ نہ تھی۔ عمران خان نے پہلے جناب غلام سرور خان کو وزیر پیٹرولیم بنایا پھر یہ ذمہ داری وزارت توانائی کو سونپ دی گئی اور اب جناب عمرایوب وزیر پیٹرولیم ہیں۔ اسی دوران ندیم بابر صاحب وزیراعظم کے مشیر خصوصی برائے پیٹرولیم مقرر ہوئے جو عملا super ministerہیں۔ ندیم بابر صاحب کے اپنے مسائل ہیں۔ انکی کمپنی اورینٹ پاور سوئی ناردرن کی 80 کروڑ کی نادہندہ ہے چنانچہ انکا سارا وقت اپنے قرضے معاف کرنے کی تگ و دو میں صرف ہورہاہے
بدقسمتی سے اس سال کے آغاز سے ملک کی پیدوار بھی کم ہونا شروع ہوگئی اور مقامی پیدوار کا حجم سکڑ کر 3.6مکعب ارب فٹ (3.6bcf/d)یومیہ رہ گیا جس میں اگر درآمدی ایل این جی کے 1.2ارب مکعب فٹ جوڑ دئے جائیں تو مجموعی حجم 4.8ارب مکعب فٹ بنتا ہے جبکہ ضرورت 6.5 ارب مکعب فٹ کی ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ دو نئے LNGٹرمینل کے معاہدے ہوچکے ہیں اور اگلے برس جولائی تک نئے ٹرمینل لگ جانے کے بعد LNGکو RLNGبنانے کی گنجائش 2.4ارب مکعب فٹ ہوجائیگی۔نئے ٹرمینل کی تنصیب خوش آئند ہے لیکن اگر گیس کی مقامی پیداوار میں اضافے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو اگلے سال کے اختتام تک درآمدی گیس کا تناسب پچاس فیصد ہوجائیگا جو اسوقت 25 فیصد ہے۔اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر جو اثر پڑیگا اسکا تخمینہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ کرونا کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت کا برا حال ہے اسلئے LNGاور خام تیل کی قیمتیں کم ہیں لیکن 2021 کے اختتام سے قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے
تیل و گیس کی تلاش و ترقی میں مندی کی بڑی وجہ گردشی قرضے ہیں جسکی وجہ سے گیس فروخت کرنے والے اداروں کو وقت پر ادائیگی نہیں ہورہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود زیادہ تر رگیں (rigs) زنگ کھارہی ہیں۔ نیب کے رشوت خور افسروں نے سرکاری تیل کمپنیوں کے افسران اور ماہرین کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ جب مہندسین اور ماہرینِ ارضیات نیب کو جوابدہی اور پیشیاں بھگت رہے ہوں تو تلاش کا کام کب ہوگا۔
No comments:
Post a Comment