Tuesday, December 8, 2020

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

پانچ اور چھ دسمبر کی درمیانی شب  خیبر ٹیچنگ ہسپتال، پشاور کے کرونا وارڈ میں آکسیجن کی قلت کی بناپر 7 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے کی تحقیقات کے بعد صوبائی وزیرصحت  وخزانہ تیمورجھگڑا نے حادثے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا

پلانٹ میں خرابی سے آکسیجن کی مقدار میں کمی واقع ہوئی ہے

اسپتال میں آکسیجن پلانٹ کا کوئی متبادل یا back-upنظام موجود نہ تھا

اسپتال میں 10 ہزار  مکعب  میٹر گیس ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن گیس فراہم کرنے والی کمپنی پاکستان آکسیجن لمیٹیڈ سے آکسیجن خریداری کا معاہدہ 30 جون 2017 کو ختم ہوچکا ہے جسکی گزشتہ  3 سال کے دوران تجدید نہیں کی گئی

رپورٹ کے مطابق اسپتال کے ٹیکنیکل عملہ تربیت  یافتہ نہیں تھا جسکی وجہ سے آکسیجن کی فراہمی برقرار رکھنے کیلئے  بروقت اقدامات نہ اٹھائے جاسکے

افسوسناک رپورٹ پیش کرتے ہوئے  بھی وزیراعلیٰ کے مشیر اطلاعات کامران بنگش  اپنی تعریف سے باز نہ رہ سکے اور فخریہ فرمایا  'انکوائری کمیٹی کو رپورٹ کیلئے 48 گھنٹے دئے گئے تھے لیکن صرف 24 گھنٹے میں رپورٹ مرتب کر لی گئی'

نامراد کرونا کی قباحت ہی  یہ ہےکہ اس سے تنفس ناہموار بلکہ سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے اور زندگی برقرار رکھنے کیلے مریضوں کو آکسیجن کی فراہمی ضروری ہے۔ چنانچہ کرونا وارڈ کیلئے آکسیجن کی فراہمی  بے حد اہم ہے۔

آکسیجن پلانٹ میں خرابی کوئی انوکھا واقعہ نہیں، مشینوں میں خرابی آجاتی ہے اور اسی بنا پر وہاں آکسیجن  ذخیرہ کرنے کا نظام موجود تھا ۔  لیکن آکسیجن کے ذخیرے کی طرف کسی نے گزشتہ 3 سال کے دوران توجہ ہی نہیں دی۔حالانکہ کرونا وبا کی بنا پراسپتال میں آکسیجن کی اضافی مقدار رکھنے کی ضروت تھی  

غیر سرکاری اطلاع کے مطابق ذخیرے میں 3000  مکعب میٹر  آکسیجن موجود تھی لیکن ڈیوٹی پر موجود ٹیکنیکل عملہ آکسیجن کی لائن کو پلانٹ سے ٹینکوں پر  منتقل کرنا نہ جانتا تھا۔

کیسی عجیب بات کہ   جلسوں میں سماجی فاصلے برقرارنہ رکھنے والوں کے خلاف تو پرچے کاٹے جارہے ہیں اور  دوسری طرف سرکار  کو یہ پتہ ہی نہیں کہ پشاور کے اس بڑے  ہسپتال میں آکسیجن خریداری کا  معاہدہ تین سال پہلے ختم ہوچکا ۔

امید ہے کہ اسد عمر صاحب پاکستان کے تمام دسرکاری و غیر سرکاری ہسپتال کے آکسیجن پلانٹ، انکا متبادل  (back-up)، آکسیجن ذخیرہ کرنے کی گنجائش اور ٹیکنیکل عملے کی تربیت کا فوری  جائزہ لینگے۔ کارکنوں اور طبی عملے کی تربیت کو پرکھنے کیلئے  وقتاً فوقتاً عملی  مشق یا  drillبھی ہونی چاہئے۔ پشاور میں جاں بحق ہونے والے تو اب واپس نہیں آسکتے لیکن اگر اس  سے سبق لیتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات رونما  نہ ہونے کو یقینی بنالیا جائے تو  شایہ   یہ حادثہ قربانیوں کا عنوان قرارپائے


 

No comments:

Post a Comment