ترکی کے خلاف امریکی پابندیاں
امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کردیا۔ ترکی شمالی اوقیانوس معاہدہ (NATO)کا رکن اور اسکے ابتدائی دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ یہ نیٹو کی 71 سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب ایک اتحادی نے دوسرے کے خلاف تادیبی پابندیاں عائد کی ہوں۔ تاہم ترکی، امریکی مطلق العنانیت کا پہلا شکار نہیں۔ ولادتِ نیٹو کے صرف 9 سال بعد یعنی 1958میں نیٹو پر امریکہ اور برطانیہ کے اجارہ داری کی حد تک غیر معمولی اثرو رسوخ سے فرانس کو سخت شکایات پیدا ہوئیں، چانچہ صدر چارلس ڈیگال نے امریکی صدر آئزن ہاور اور برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میک ملن کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے اتحادیوں کے درمیان غیر مساویانہ اختیارات کو ناقابل قبول قراردیا۔فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کی قیادت کیلئے امریکہ وبرطانیہ کے درمیان معاہدہ، پیرس کو قبول نہیں اور اس دستاویز کو سہ فریقی بندوبست یا Tripartite Directorateمیں تبدیل کرکے فرانس کے مرتبہ ومقام کا احترام کیا جائے۔ لندن و واشنگٹن سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر فرانسیسی بحریہ کو نیٹو کے بحرروم بیڑے سے نکال لیا گیا۔ اسی کیساتھ جنرل ڈیگال نے فرانس کی سرزمین سے نیٹو کی تمام جوہری تنصیبات ہٹالینے کا حکم جاری کردیا۔ فرانس نیٹو کا رکن تو رہا لیکن 1967 کے بعد فرانس نے صرف محدود مشترکہ مشق میں حصہ لیا۔ 2001کے افغان حملے کے بعد فرانس اور نیٹو کے درمیان تعلقات بہترہوئے اور امریکی صدر اوباما کی یقینی دہانیوں پر 2006 میں صدرنکولس سارکوزی نے اپنے ملک کو دوبارہ مرکزی کمان (Structural Command)کا حصہ بنالیا۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ پیرس کے سجدہ سہو کی وجہ بحرروم پر ترک بحریہ کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور دفاعی مصنوعات کے میدان میں ترکی کی چشم کشا ترقی ہے۔
اپنے محل وقوع کے اعتبار سے مشرق کے کمیونسٹ اور مغرب کے ساہوکار دونوں ہی ترکی سے دوستانہ تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ بحراسود سے نکلنے کا واحد راستہ ترکی سے ہوکر گزرتا ہے چنانچہ روس کیلئے ترکی سے دوستی بہت ضروری ہے تو دوسری طرف مغربی یورپ و امریکہ بھی انقرہ سے کشیدگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے
ترکی وامریکہ کے درمیان مہرومحبت کا آغازدوسری جنگ عظیم کے دوران اسوقت ہوا جب ترکی نے اس عالمی جنگ سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ تزویراتی (اسٹریٹیجک)محل وقوع کی بناپر امریکہ اور برطانیہ کی خواہش تھی کہ ترکی اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دے۔ چانچہ امریکی و برطانوی قیادت نے ترکی یاترا کی خواہش ظاہر کی لیکن غیرجانداری کے عزم پر قائم رہتے ہوئے انقرہ نے معذرت کرلی۔ جسکے بعد قاہرہ میں مذاکرات کی میز بچھائی گئی جہاں دسمبر 1943میں امریکی صدر روزویلٹ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور ترک صدر عصمت انونو کے درمیان دوروزہ مذاکرات ہوئے۔ عصمت انونو غیرجانبداری کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔آخر کاراس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ترکی غیر جانبداری پر قائم رہتے ہوئے آبنائے باسفورس تک اٹلی، نازی اور جرمنوں کی رسائی محدود کر دے گا۔ ان دشمنوں کو اتحادی 'روم۔برلن ٹوکیو مثلث' کہتے تھے۔ امریکہ کے اصرار پر فروری 1945 میں ترکی نے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا جسکے نتیجے میں آبنائے باسفورس روسی جنگی جہازوں کیلئے کھول دی گئی۔ روسیوں کا اصرارتھا کہ آبنائے کے دہانے پر انھیں بحری تنصیبات قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ جلد ہی یہ ملتجانیہ درخواست دھمکی میں تبدیل ہوگئی اور یہیں سے ترکی اور امریکہ کے درمیان عسکری رومانس کا آغاز ہوا، 1947میں امریکی صدر ہیری ٹرومن نے روسی 'توسیع پسندی' کے خلاف ترکی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جسے ٹرومن ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ 1950میں جنگ کوریا کا آغاز ہوا تو ترکی نے امریکہ کی نصرت کیلئے اپنے فوجی بھیجدئے جسکے بعد 1952 میں ترکی نیٹو کا رکن بن گیا۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عدنان میندریس ابتدا میں نیٹو کا حصہ بننے کے خلاف تھے لیکن جب روائتی حریف یونان نے نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی کیلئے نیٹو میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ روسی کشیدگی کے ساتھ یونان کی دشمنی سے ترکی کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق تھا جسکے مقابلے کیلے انقرہ نیٹو کی چھتری تلے آگیا۔ 1955 میں ترکی نے بحرروم کے ساحل پر اضنہ کے انسرلیک فوجی اڈے کا ایک حصہ نیٹو کیلئے وقف کردیا۔ اس اڈے پر امریکہ اور برطانیہ کے ساڑھے پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔ 50 سے زیادہ مسلح بمبار طیارے ہروقت پرواز کیلئے تیار رہتے ہیں۔ کچھ بمباروں پر جوہری ہتھیار بھی نصب ہیں۔
ساتویں دہائی سے اس صدی کے اختتام تک ترک انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی اور مخلوط حکومتیں بہت کمزور رہیں۔دوسری طرف سیکیولرازم کے سرپرست اور ضامن کی حیثیت سے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا آئینی تحفظ حاصل تھا جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترک جرنیلوں نے امریکہ سے براہ راست رابطے استوار کرلئے۔ نتیجے کے طور پرامریکہ کے اثرات بہت گہرے ہوگئے۔2002 کے انتخابات میں طیب ایردوان کی AKپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرکے ایک مضبوط حکومت تشکیل دی اور سویلین وزیراعظم نے نیٹو کے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا
انقرہ واشنگٹن کشیدگی کا آغاز اسوقت ہوا جب 2003 میں ترک وزارت دفاع نے عراق پر حملے کے لئے انسرلیک سے امریکی جنگی جہازوں کے اڑنے پر پابندی لگادی۔ صدر بش خاصے ناراض ہوئے لیکن وزیراعظم ایر دوان کا موقف تھا کہ جنگ اقوام متحدہ یا نیٹو کی اجازت کے بغیر چھیڑی جاری ہے لہٰذا ترک سرزمین عراق پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔
مئی 2010 میں ترکی سے امدادی سامان کے ساتھ کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ روانہ ہوا۔ ایک کشتی پر پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے۔اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں 9 سماجی کارکن مارے گئے۔ اپنے مذمتی بیان میں جناب ایردوان نے صاف صاف کہا کہ 'سپرطاقت' کی شہہ کے بغیر اسرائیل اس خونریزی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ترکی کے اس دوٹوک موقف سے ترکی و امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید تناو آگیا
شام و عراق کی خانہ جنگی اور داعش کے ظہور پر حالات مزید خراب ہوئے۔ امریکہ نے داعش کی سرکوبی کیلئے ترکی کے کرد علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی۔ دمشق سرکار نے شامی فوج آزادی (SDF)کے نام سے ملیشیا تشکیل دیدی جسے امریکی فوج نے اسلحہ فراہم کیا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اسد حکومت نے YPGدہشتگردوں کو SDF کی وردیاں پہنا کر ترک سرحد کی طرف دھکیل دیا۔ YPG کو ترکی کی عدالت عظمیٰ کیساتھ خود امریکہ نےبھی دہشت گرد قراردیا ہے۔
2015تک صورتحال یہ ہوگئی کہ ترکی کی عراق و شام سے ملنے والی سرحدوں پر SDFاور YPGنے مورچہ لگایا ہوا تھا۔شمال مشرق میں آرمینیاسے صورتحال کشیدہ تھی۔ اسی کیساتھ مشرقی بحر روم میں یونانی قبرص اور یونان نے آنکھیں دکھانی شروع کردیں۔ترک ساحل کے قریب بہت سے یونانی جزائر ہیں،دو ایک جزائر کا ترکی سے فاصلہ صرف تین کلو میٹر ہے۔ یونان کا اصرار ہے کہ ان جزائر کی آبی حدود کئی سو کلو میٹر تک ہیں۔ اگر اس دعوے کا مان لیا جائے تو یونان کی آبی سرحدیں ترکی کے ساحل تک ہیں۔ یہ بات ترکی کیلئے قابل قبول نہیں کہ بحرروم اور بحر اسود میں ترکی کا ساحل سب سے طویل ہے۔
شمالی قبرص اور ترکی کے درمیان سمندری فاصلہ بہت کم ہے اور بحرروم کا یہ علاقہ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ اسرائیل اور مصر نے مشرقی بحر روم میں کئی بڑے گیس کے میدان دریافت کئے ہیں۔ یونانی قبرص کی حکومت سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کاکام کرنا چاہتی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ تلاش و ترقی کے یہ سمندری یا Offshore Blocks اسکی آبی (maritime) حدود میں ہیں جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں Continental Shelf کہتے ہیں۔
اس سال فروری میں اطالوی تیل کمپنی Eni کنواں کھودنے کیلئے شمالی قبرص کے قریب ایک جہاز (Drill-ship)لے آئی لیکن ترک بحریہ نے اسے فرار پر مجبور کردیا۔چند ماہ پہلے یونانی قبرص کی وزارت معدنیات نے بلاک 7کا ٹھیکہ امریکہ کی ایکزون موبل ExxonMobilکی قیادت میں بننے والے مشارکہ کو دیدیا جسکے دوسرے حصہ دار Eni اور فرانس کی ٹوٹل (TOTAL)ہٰیں۔ ایک دوسرا بلاک جسے نمبر 10 کا نام دیا گیا ہے ایکزون موبل اور قطر پیٹرولیم کے مشارکہ کو عطا کردیا گیا۔ جیسے ہی ایکزون موبل کے وائس چئیر مین نیل چیپمین نے اعلان کیا کہ انکی کمپنی اس سال کے اختتام پر بلاک 10 میں آزمائشی کنوویں کی کھدائی شروع کریگی۔ ترک وزارت خارجہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو اپنے معدنی وسائل لوٹنے نہیں دینگے اور مشرقی بحر روم میں مہم جوئی کرنے والوں کو کچل دیا جائیگا۔ اس دھمکی پر ایکسون نے کھدائی کا منصوبہ غیر معینہ مدت کے لئے موخر کردیا۔ ترک بحریہ نے اپنی حدود سے فرانسیسی رگز (RIGS)کو بھی ڈبونے کی دھمکی دیکر علاقے سے باہر نکل جانے پر مجبور کردیا۔ اس سال کے آغاز پر ترکی کی سائزمک کشتیوں نے تیل و گیس کی تلاش کیلئے آزمائش و پیمائش کی مہم کا آغاز کیا۔ یونان نے فرانس اور یورپی یونین کی پشت پناہی میں ترکی کو مشتعل کرنے کی کوشش کی اور کئی بار دونوں ملکوں کے بحری جہاز اورلڑاکا طیارےخطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب آگئے تاہم تصادم نہ ہوا۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اسوقت پیدا ہوئی جب جولائی 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام فوجی کاروائی کے دوران باغی طیاروں نے انسر لیک کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔
صدر ایردوان نے اقتدار سنبھالتے ہی دفاعی پیدوار کی صنعت کی طرف توجہ دی اور بہت جلد ترک ساختہ بنکر شکن میزائیل، ڈرون، آبدوز اور صحرائی ٹینک بہت مقبول ہوگئے۔ اس سال ستمبر تک ایسا لگ رہا تھاکہ روس، فرانس، اسرائیل، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کھڑی کی جانیوالی حفتر ملیشیا بس چند ہی ہفتوں میں لیبیا کا دارالحکومت طرابلس فتح کرلیگی لیکن لیبیا حکومت کے ترک ساختہ ڈورن نے پانسہ پلٹ دیا۔ انھیں ڈرونز کی ہلاکت خیز کاروائی کے باعث آرمینیا کی فوج نے نگورناکاراباخ میں ہتھیار ڈالے۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ترکی کی کامیابی سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے۔
ترکی اپنے فضائی دفاع کی جانب سے خاصہ فکر مند ہے۔ اسکے پاس امریکی ساخت کے جدیدحملہ آور اور بمبار طیارے تو ہیں لیکن فضائی حملوں کے خلاف دفاع کے معاملے ترک جرنیلوں کو ایک جدید ترین نظام کی تلاش تھی۔ امریکہ فضائی دفاع کا پیٹریاٹ نظام فروخت کرنے کیلئے تیار ہے لیکن ترک ماہرین اسکی استعداد پر مطمئن نہ تھے۔ترک وزارت دفاع کو امریکیوں کی تلون مزاجی پر بھی شدید تحفظات ہیں کہ پابندیوں کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ مشرقی بحر روم کی سمندری حدود کے معاملے میں یورپی یونین سے ترکی کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں اور اگر تصادم کے وقت امریکہ بہادر نے پابندیاں لگادیں تو فوج کیلئے سخت مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں چنانچہ روسی ساختہ S-400طیارہ شکن دفاعی نظام کا جائزہ لیا گیا
ترک ماہرین کا خیال ہے کہ S-400 امریکی پیٹریاٹ سے بہتر، استعمال میں آسان، سستا اور زیاد موثر ہے۔ سب سے بڑی بات کہ روس اس میزایل شکن نظام کی ترکی میں تیاری پر نہ صرف رضامند ہے بلکہ معاہدے کے تحت ترک و روسی ماہرین اسکی بہتری کیلئے مل کر کام کرینگے۔ ان پرکشش شرائط کی بنا پر ترکی نے S-400خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ سودے کی خبر سامنے آتے ہی امریکہ بہادر آپے سے باہر ہوگئےاور ایردوان مخالف سینیٹروں نے ترکی کو نشانے پر رکھ لیا۔ 2017 میں امریکی مقننہ نے ' پابندیوں کے ذریعے دشمنوں سے مقابلے کا ایکٹ' یا CAATSAمنظور کیا ہے۔اس قانون کے تحت امریکہ کے نامزد تین بڑے دشمنوں یعنی ایران، شمالی کوریا اورروس سے فوجی تعاون، اسلحے کی خریداری اور خفیہ و عسکری معلومات کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔ سودے پر معترض سینیٹرز کا کہنا ہے کہ روس سے اسلحہ خرید کر ترکی CAATSAکی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا چنانچہ انقرہ کیخلات سخت پابندیاں لگنی چاہئیں۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی قرارداد پر کان نہ دھرا۔ انکا کہنا تھا کہ ایردوان ایک اہم اتحادی ہیں اور اس قسم کی تادیبی کاروائی سے علاقے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزے کی بات کہ ترکی کے ساتھ ہندوستان نے بھی S-400خریدنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اسکے خلاف کاروائی کی کوئی قرارداد تودور کی بات رسمی مذمت کی بازگشت بھی سنائی نہ دی۔
اس ماہ کے آغاز پر جب امریکی کانگریس کے سامنے دفاعی بجٹ پیش ہوا تو اسمیں CAATSAکے تحت ترکی کے خلاف پابندی اور افغانستان سے امریکی فوج کے واپسی کیلئے امن و امان کی شرط بھی لگادی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ امور کو واحد بل میں سمونے کے عمل کو امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں اومنی بس بل کہتے ہیں۔ اومنی بس بل کا بنیادی مقصد مختلف مفادات کو یکجا کرکے اعتراضات کے بغیر بل کی جلد از جلد منظوری ہے۔ یہ بل ایوان زیریں سے 78 کے مقابلے میں 335 اور سینیٹ سے 13 کے مقابلے میں 84 ووٹوں سے منطور ہوگیا اور 14 دسمبر سے ترکی پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔
پابندیوں کے تحت ترکی کو F-35طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے الگ کردیا گیاہے۔ اس غیر مرئی (Stealth)بمبار کی تیاری میں امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ترکی شامل ہیں۔ اسکا بیرونی ڈھانچہ یا شیل ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ اب تک یہ بات واضح نہیں کہ طیارہ ساز ادارہ لاک ہیڈ مارٹن اب بھی یہ شیل ترکی سے بنوائیگا یا اسے متبادل ڈھونڈنے کی ہدائت کردی گئی ہے۔ ترک دفاعی صنعت SSBکے سربراہ اسماعیل دمیر اور ادارے کے تین سینئر افسران پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔
پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے کہا کہ جب سے CAATSAمنظور ہوا ہے پہلی بار اسکا اطلاق کیا جارہا ہے اور وہ بھی نیٹو کے مخلص ترین رکن پر۔ ہم ترک عوام کو کیا بتائیں کہ یہ کس قسم کا اتحاد ہے؟ ترک صدر نے کہا کہ ان پابندیوں کا مقصد ترک دفاعی صنعت کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ ہم اپنے دفاع کیلئےبڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر رہیں۔ ترک ملت اسے اپنی سلامتی و خودمختاری پر حملہ سمجھتی ہے جسکی بھرپور مزاحمت کی جائیگی۔جناب ایردوان نے کہا کس ملک سے کیا خریدیں اسکا فیصلہ صرف اور صرف منتخب ترک قیادت کریگی، ہمیں کسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جناب ایردوان نے واضح کیا کہ اللہ کی مہربانیوں سے ترکی اس مقام تک پہنچ چکا ہے جب پابندیاں ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور اب ہم اپنی دفاع کو خود مختار بنانے کیئے دگنی محنت کرینگے۔ ترک صدر نے کہا کہ امریکہ ترکی کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اورترک قوم اپنے دفاع کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتی۔
امریکی حکومت کے فیصلے پر نیٹو نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اتحاد کے سربراہ جینس اسٹولٹن برگ Jens Stoltenbergنے برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کے درمیان تمام تنازعات بات چیت کے زریعے حل ہونے چاہئیں اور پابندیاں لگانے سےقابل قبول اور مثبت حل کی راہ مسدود ہوسکتی ہے۔روسی وزیرخارجہ سرجی لاورووSergey Lavrovنے پابندیوں کو امریکی تکبر کی ایک مثال قراردیا۔
ترک وزیر خارجہ مولوت چاوش اوگلو نے دھمکی دی ہےکہ امریکہ نے ترکی پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان کے رد عمل میں جوابی اقدامات کیے جائیں گے۔ ترکی نےروس سے میزائل دفاعی نظام کی خریداری کا فیصلہ ضرورت کے تحت کیا ہےکیونکہ اسے نیٹو کے کسی اتحادی ملک سے اطمینان بخش شرائط پر میزائل نہیں مل رہے تھے۔
نیٹو اتحادی پر پابندیوں کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ میں ایک ماہ بعدنئی انتظامیہ اختیارات سنبھال رہی ہے۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن صدر ایردوان کو امریکہ و اسرائیل مخالف سمجھتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات کے دوران ترکی میں اقتدار کی تبدیلی یا Regime Changeکی کوشش کرینگے۔ دوسرے ملکوں میں دخل اندازی کا یہ بھونڈا انداز اب چلنے والا نہیں۔ ترکی میں حکمرانی کس کی ہوگی اس فیصلے کا حق صرف اور صرف ترک عوام کو ہے۔ 2013 میں جوبائیڈن اپنے باس بارک اوباما سے مل کر مصر ی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت اور جمہوریت پر شبخون مارچکے ہیں۔ لیکن ترکی اب 1960 والا نہیں جب منتخب وزیراعظم عدنان میندریس کو پھانسی دیدی گئی۔ دنیا، جہوریت و آزادی سے ترک عوام کی وابستگی جولائی 2016 میں دیکھ چکی ہے جب امریکہ نواز مسلح وردی والوں کی نہتے عوام نے مشکیں کس دی تھیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 دسمبر 2020
روزنامہ امت کراچی 25 دسمبر 2020
ہفت روزہ دعوت دہلی 25 دسمبر 2020
ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 دسمبر
2020
Very informative article Sir.
ReplyDeleteThanks
Very informative article Sir.
ReplyDeleteThanks
Very informative article Sir.
ReplyDeleteThanks
شکریہ
Delete