Thursday, December 10, 2020

سیاسی اجتماعات میں خواتین سے بدسلوکی

سیاسی اجتماعات میں خواتین سے بدسلوکی

پاکستانی سیاست میں خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں لیکن جلسوں اور ریلیوں میں خواتین کارکنوں اور رہنماوں سے ناشائستگی اور دست درازی کے افسوسناک واقعات اب تیزی سے عام ہوتے جارہے ہیں۔

حال ہی میں بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے مسلم لیگ کی رہنما مائزہ حمید نے کہا 'مریم نواز کی لاہور کی ریلی میں مردوں کے ہجوم نے مجھے اور ہماری ایک خاتون کارکن کو گھیر لیا تھا جس کی وجہ وہ خاصی خوفزدہ ہو گئی تھی۔ جب میں انھیں وہاں سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی تو کیمرہ مین نے ہماری مدد کرنے کے بجائے ہماری ویڈیو بنانے کو ترجیح دی‘

دودن قبل ریلی کے دوران لاہور میں مریم نواز کو ایک شخص نے ہاتھ لگایا جس کے ردعمل میں محترمہ کے محافظوں  اور کارکنوں نےاس شخص کی گوشمالی کردی

چند روز پہلے اسی قسم کا واقعہ محترمہ مریم اورنگزیب کیساتھ پیش آیا جب ایک مبینہ کارکن نے ان کے ساتھ تصویر بنوانے کی فرمائش کی اور اس دوران موصوف نے بے تکلفی سے مریم اورنگزیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا

تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ سعدیہ سہیل کا کہنا ہے  ایسے واقعات بڑی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں ہزاروں کا مجمع ہو ہاتھ کاحادثاتی طور پرلگ جانا بھی بعید از قیاس نہیں۔

خواتین سیاسی کارکنوں سے دست درازی کےکافی واقعات 2014کے دھرنے میں پیش آئے  اوران واقعات کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں۔

سیاسی اجتماعات میں خواتین سے بدسلوکی کے معاملے میں مصر سرفہرست ہے۔ 2014میں غاصب ڈکٹیٹر السیسی کے 'جشن فتح' پر جو ہوا وہ 'رقص ابلیس' کے طور پر مشہور ہے۔ ریلی کے دوران ایک سو سے زیادہ معصوم خواتیں بے آبرو کردی گئیں جن میں امریکی ٹیلی ویژن CBS کی نمائندہ لورالوگن بھی شامل ہیں۔ تینتالیس سالہ لورا کے گرد 200مردوں نے گھیرابنالیا اور ایک درجن سے زیادہ اوباشوں نے اس پر مجرمانہ حملے کئے اس دوران اسکے جسم پر چاقو سے کچوکے بھی لگائے گئے۔ ایک بیالیس سالہ مصری خاتون ام مروان کے جسم پر  مجرمانہ حملے کے بعد کھولتے پانی کی پھواریں ماری گئیں اور ان شرمناک مناظر کی ویڈیو یوٹیوب پر جاری کرکے خاندان کی تذلیل کا اہتمام کیا گیا۔

ایک انیس سالہ بچی کا کہنا ہے کہ مردوں نے گھیرا بناکر اسے ڈانس کرنے پر مجبور کیا۔ حفاظت پر معمور پولیس کے سپاہی بھی رقص ابلیس کا تماشہ دیکھررہے تھی۔ وحشیوں نے اس پھول سی بچی کو بے آبرو کرنے کے بعد طمانچے مارے اور جسم پر تھوکا۔ ایک وحشی نے اسکی پیٹھ پر چھری سے ب لکھدیا جو غالباً اس لڑکے کے نام کا پہلا حرف تھا۔ بے شرمی کے اس عوامی مظاہرے میں عمر کی کوئی قید نہ تھی کہ آٹھ برس کی گڑیا سے لیکر ستر سالہ بڑھیاتک سب ہی کو سرعام رسوا کیا گیا۔

جب خواتین کی انجمن نے اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا تو وزارت داخلہ کے ترجمان ہنی عبدالطیف نے بے شرمی سے ہنستے ہوئے کہا کہ 'بات تو بہت بری ہے مگر خوشی کے لمحات میں ایسی بے اعتدالی ہوہی جاتی ہے۔ عوام خوشی سے سرشار تھے۔ لوگ فرط جذبات سے بغلگیر ہورہے تھے اور ایکدوسرے کو چوم رہے تھےجسے اخوانی مجرمانہ حملہ قرار دے رہے ہیں، اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو'

پاکستان میں ابھی یہ صورتحال نہیں لیکن ریلیوں میں خواتین سے بدتمیزی اور دست درازی کی شکایات بڑھتی جاری ہیں۔ہماری مضبوط و مستحکم سماجی اور تہذیبی اقدار کی بناپر فی الحال پاکستانی اوباش اپنے مصری ساتھیوں کی طرح دیدہ دلیری کی ہمت نہیں کرسکتے مگر بگاڑ یہاں بھی تیزی سے اپنی جگہ بنارہاہے۔ بے شرمی کی ان لہروں کے مقابلے میں عفت و پاکیزگی کے طوفان اٹھانے کی ضرورت ہے کہ بے قابو لہروں کو سونامی بنتے دیر نہیں لگتی۔


 

No comments:

Post a Comment