Sunday, December 13, 2020

امریکی صدارتی انتخابات کیلئے ووٹنگ پیر کو ہوگی

امریکی صدارتی انتخابات کیلئے ووٹنگ پیر کو ہوگی

جی ہاں! 3 نومبر کو محض بات پکی ہوئی تھی، نکاح کل ہوگا، 6 جنوری کو قاضی صاحب تصدیق شدہ نکاح نامہ جاری کرینگے اور 20 جنوری کو لیلٰی اقتدار کامیاب صدر کو راحت وصال عطاکریگی۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں، امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے اور صدر کا چناو ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeسے ہوتا ہے۔ کلیہ انتخاب میں وفاق کی  تمام اکائیوں یعنی ریاستوں کوانکی ابادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہےاور ہر ریاست سے ایوان نمائندگان(قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے لئے جتنے رکن منتخب کئے جاتے الیکٹرل کالج میں وہی اس ریاست کی نمائندگی کا حجم ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیاں جب اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب (ٹکٹ) کیلئے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں اسوقت کلیہ انتخاب کے ارکان بھی نامزد کردئے جاتے ہیں جنھیں Electorsکہا جاتا ہے۔ عام انتخابات  میں کامیاب امیدوار کے electors انتخابی کالج کے ارکان تصور ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر ٹیکسس میں صدر ٹرمپ نے میدان مارلیا ہے لہٰذا انکے تمام کے تمام 38 نامزد نمائندے ریاستی الیکٹرزہیں

انتخابی ضابطے کے تحت دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد والے پہلے پیر (اس بار 14 دسمبر)کو electorsریاستی دارالحکومتوں میں سکریٹری آف اسٹیٹ کے زیرنگرانی ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی۔جسکے بعد سکریٹری آف اسٹیٹ ووٹوں کی گنتی کرکے نتیجہ واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کو بھیج دینگے۔ دارالحکومت میں ان نتائج کی وصولی کی آخری تاریخ 23 دسمبر ہے۔چند دہائی پہلے تک ریاستوں سے الیکٹرل کالج کے منقش بیلٹ بکس خصوصی بگھیوں کے جلوس میں وفاقی دارالحکومت پہنچائے جاتے تھے۔ اب یہ تکلف ختم ہوگیا اور  ڈاک کے ذریعے لفافے بھیج دئے جاتے ہیں، بلکہ اب شائد برقی خط یا emailکے ذریعے بھیجے جاتے ہوں

33 ریاستوں میں الیکٹرل اسی امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہیں جس نے انھیں نامزد کیا ہے جبکہ دوسری ریاستوں میں الیکٹرز اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں لیکن یہ امریکہ کی قابل فخر جمہوری روائت ہے کہ گزشتہ 244 سال کے دوران صرف دو بار ایسے واقعات پیش آئے جب الیکڑرز نے 'خیانت' کی ۔ ایسے الیکٹرز کو faithless electorsکہتے ہیں۔ پہلی بار 1872 میں عام انتخابات کے بعد الیکٹرل ووٹنگ سے پہلے لبرل ریپبلکن پارٹی کے امیدوار Horace Greeley انتقال کرگئے چنانچہ انکے الیکٹرز نے دوسرے امیدواروں کو ووٹ دئے۔ یہ ٹیکنیکل معاملہ تھا لہٰذا اسے خیانت نہیں کہا جاسکتا۔

تاہم 2016 کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کے 5 اور صدر ٹرمپ کے 2 الیکٹرل 'لوٹے' ثابت ہوئے۔

6 جنوری 2021 کو کانگریس کے دونوں ایوان کا مشترکہ اجلاس ہوگا۔نائب صدر مائک پینس جو سییٹ کے سربراہ بھی ہیں، ہرریاست کے لفافے کھول کر الیکٹرل کالج کے ووٹوں کی تفصیل سنائیگے۔ کانگریس کے ارکان کو ووٹوں کی صحت کے بارے میں سوال اٹھانے کا اختیار حاصل ہے اور تنازعے کی صورت میں ارکان کا اکثریتی ووٹ فیصلہ کن ہے۔ ایک ایک ریاست کے ووٹ گننے کے بعد نائب صدر نتائج کا اعلان کرینگے جو صدارتی انتخاب کا سرکاری اور حتمی اعلان ہوگا۔

کیا کل خلافِ توقع نتیجہ آسکتا ہے؟؟

یہ مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ 3 نومبر کے نتائج کے مطابق صدر ٹرمپ کے 232 کے مقابلے میں جو بائیڈن کے الیکٹرل ووٹوں کی تعدا 306 ہے۔ اگر 37 ڈیموکریٹک electorsلوٹے یا faithlessثابت ہوں تو نتیجہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اب بھی پرامید ہیں کہ 20 جنوری کو وہ اپنی دوسری مدت کا حلف اٹھائینگے، کیا انھیں الیکٹرز کی جانب سے کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے؟؟؟ تاہم معاملہ اتنا آسان بھی نہیں کہ ووٹوں کی آخری جانچ پڑتال اور گنتی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں  ہوگی جہاں ڈیکوکریٹک پارٹی کے حامی سینٹر اور ایوان نمائندگان کے ارکان کی مجموعی تعداد 280 ہے۔ْ اسکے مقابلے میں ریپبلکن کا پارلیمانی حجم 249 ہے چنانچہ ڈیموکریٹس مشتبہ faithlessووٹوں کو چیلنج کرکے رنگ میں بھنگ ڈال سکتے ہیں۔



 

 

 

No comments:

Post a Comment