Monday, December 7, 2020

بائیکاٹ اور استعفوں کی سیاست

بائیکاٹ اور استعفوں کی سیاست

کہا جارہا ہے کہ کل پی ڈی ایم اپنے سربراہی اجلاس  میں اسمبلیوں سے استعفوں کے بارے میں حتمی اعلان کریگی۔ اس ضمن میں محترمہ مریم نواز نے  فرمایا ہے کہ اب آر یا پار کا فیصلہ ہوجائیگا۔ ساتھ ہی انھوں نے ہچکپچاہٹ میں مبتلا  اپنے ارکان اسمبلی کو متنبہ کیا کہ پارٹی کے فیصلوں سے  بے وفائی کرنے  والوں کا گھیراو کیا جائیگا۔ پی ڈی ایم جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاستدانوں پر مشتمل ہے جس نے دہائیوں اقتدار واختیارکی سیاست کی ہے چنانچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کل جو بھی فیصلہ ہوگا وہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائیگا۔ پاکستانی سیاست میں انتخابات کابائیکاٹ اور اسمبلیوں سے استعفیٰ کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔

اس سلسلے میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم مرحوم کی بات یاد آرہی ہے۔ وہاں جب عام انتخابات میں حصہ لینے کا سوال اٹھا تو بہت سے جماعتی رہنماوں کا خیال تھا کہ تمام حکومتی ادارے جماعت کے سخت خلاف ہیں، سارے ملک میں جماعت کے کارکنوں کو قتل روزمرہ کا معمول بنا ہوا ہے۔ ہزاروں کارکنوں پر غداری اور پاک فوج سے سازباز کے مقدمات ہیں ۔ اس پس منظر میں انتخابات میں حصہ لینا اپنے کارکنوں کو جلادوں کے نشانے پر رکھدینے والی بات ہے۔ اس پر شوریٰ میں دیر تک  بحث ہوتی  رہی جسے ختم کرتے ہوئے غلام اعظم صاحب نے کہا کہ 'جیسے مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی ویسے ہی سیاسی جماعت انتخابات کے میدان سے باہر رہ کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ اگر ہم نے تبدیلی و انقلاب کیلئے پرامن و جمہوری ذرایع استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے  تو پھر ہمیں ہر قیمت پر انتخابات میں حصہ لینا ہوگا۔ شائد یہی وجہ ہے شدید آزمائشوں کے باوجود 2018 سمیت جماعت اسلامی  نے بنگلہ دیش کے ہر انتخاب میں بھرپور حصہ لیا۔

پاکستان میں بائیکاٹ کی تاریخ بہت اچھی نہیں

  • 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا جسکے بارے میں بینظیر نے خود کہا کہ یہ انکی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا
  • 2001میں ایم کیوایم  نے کراچی کے  بلدیاتی انتخاب کابائیکاٹ کیا اور جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ناظم کراچی بن گئے
  • 2008میں قاضی صاحب نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جسکے نقصانات جماعت نے 2013 کے انتخابات میں بھی محسوس کئے

انتخابات کی طرح پارلیمنٹ سے  فرار کے نتائج بھی منفی بھی ثابت ہونگے۔ 2014میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے  بھی استعفے دئے تھے لیکن بعد میں استعفے واپس  ہوگئے۔

اسوقت 342 کے ایوان میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور اے این پی کی مجموعی نشستیں 154 ہیں اور اگریہ سب کے سب مستعفی ہوجائیں تب بھی  قومی اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی اور  خالی ہونے والی  نشستوں پر ضمنی انتخابات کراکر  نئے اراکین منتخب  کئے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوسکتی ہے۔  جس قسم کا لوٹا کلچر ملک میں موجود ہے اسے دیکھ کرصاف لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ کے کم ازکم  15 فیصد ارکان 'قومی مفاد' کو سامنے رکھتے ہوئے استعفے نہیں دینگے

ایک اہم سوال  سندھ صوبائی حکومت  کے بارے میں پیپلزپارٹی   کا متوقع رویہ ہے، کیا بلاول بھٹو  سندھ  حکومت قربان کرنے پر تیار ہوجائینگے؟ سندھ اسمبلی  میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد  50 فیصد سے زیادہ  ہے اور اگر سب کے سب  96 ارکان مستعفی ہوجائیں تو صوبائی اسمبلی تحلیل ہوسکتی ہے

اجتماعی استعفوں سے جو سب سے بڑا آئینی و نظریاتی خطرہ نظر آرہا ہے وہ آٹھارہویں ترمیم کی منسوخی، اسمبلی توڑنے کے اختیار کی صدر کو واپسی، ناموس رسالت قانون کی تنسیخ اور تحفظ ختم بنوت ترمیم کی تحلیل ہے۔ایف اے ٹی ایف کے پس منظر میں پاکستان پرناموس رسالت اور ختم نبوت ترمیم کی تنسیخ کیلئے سخت دباو ہے۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل  کی صنعت نسبتاً بہتر ہورہی ہے اور اپنی مصنوعات کے فروخت کیلئے پاکستان کو نئی منڈیوں کی تلاش ہے۔ یورپ  کے بازاروں تک رسائی کیلئے ان شرائط پر اصرار بڑھ سکتا ہے۔اگر ایم ایم اے کے مٹھی بھر مولوی اسمبلیوں سے نکل گئے تو روشن خیالوں کو کھل کھیلنے کاموقع مل جائیگا۔

اس تناظر نے بہتر یہی ہوگا کہ پی ڈی ایم جلسوں اور تحریک کی شکل میں حکومت پر اپنا دباو برقرار رکھے۔ عمران نیازی صاحب خواہ بے نیازی کا کتنا ہی مظاہرہ کریں اندر سے انکی پریشانی بہت واضح ہے۔ دھرنوں اور جلسے جلوسوں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ انکا مقصد ملک کے 'بادشاہ گروں' کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ 'گرجائینگے اگر یہ اتارے نہ جائینگے'

 حکمرانی کے موجودہ بندوبست کو بی بی مقتدرہ کی  بھرپور حمائت حاصل اور کیوں نہ ہو کہ یہ عفیفہ کی arranged نہیں بلکہ گھر والوں کی مرضی کے خلاف پسند کی  شادی ہے لہذا کپتان  کے لطف وصال سے محرومی کا کوئی امکان نہیں   تاہم اگر  حکمرانی کے لچھن نہ بدلے، بد نظمی و گرانی کا یہی عالم رہا اور حسینہ اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ ان تلوں میں تیل باقی نہیں رہا تو تبدیلی خارج ازامکان نہیں چنانچہ

پاس کر یا برداشت کر!! استعفٰی مسئلے کا حل نہیں


 

No comments:

Post a Comment