Saturday, September 30, 2023

مسلم نوجوانوں کی مردانہ وجاہت

 

مسلم نوجوانوں کی مردانہ وجاہت

ہندوستانی انتہاپسندوں کو شکائت ہے کہ گوشت کھانے والے سرخ و سفید تنومند نوجوان ہندو خواتین کے دل اور دھرم دونوں جیت رہے ہیں۔

کچھ ایسی ہی شکائت اسرائیلیوں کو بھی پے اور پھر یہاں معاملہ زیادہ آسان ہے کہ اہل کتاب ہونے کی بنا پر دل دے دینا ہی بہت ہے دھرم اپنا اپنا رہ سکتا ہے۔

پہلے معاملہ صرف فلسطینی پناہ گزین لڑکوں اور حسینانِ اسرائیل کے درمیان تھا لیکن اب جیلوں میں فلسطینی قیدیوں پر نظر رکھنے والی محافظ خواتین بھی متاثر ہورہی ہیں۔

آج انکشاف ہوا کہ الفتح سے تعلق رکھنے والے ایک قیدی کی وجاہت اور عمدہ اخلاق سے جیل کی کئی خواتین گارڈ متاثر تھیں ، جبکہ ایک لڑٖکی نے جینے مرنے کی قسم بھی کھالی۔ یہ فلسطینی، قتل کے الزام میں سزا کاٹ رہا ہے۔ گرفتار نوجوان کے دام محبت میں آئی گارڈ نے اسے ایک موبائل فون بھی دیدیا تھا جس پر یہ دونوں اور خاتون سپاہی کی سہیلیاں اس قیدی سے گپیں لڑاتیں اور تصاویر کا تبادلہ کرتی تھیِں

یہ خبر نشر ہوتے ہی اندرونی سلامتی کے وزیر المعروف پولیس منسٹر اتامر بن گوئر اور قید خانوں کی کمانڈر محترمہ کیٹی پیری نے تمام خواتین گارڈز کو ان جیلوں سے ہتالینے کا اعلان کردیا جہاں 'دہشت گرد' رکھے گئے ہیں۔

حوالہ Times of Israel:

معلوم نہیں مرزا غالب کے کلام کا عبرانی ترجمہ ہوا ہے یا نہیں ورنہ جبری وصل کے اس حکم پر زلیخانِ اسرائیل اپنے پا بہ زنجیر یوسفِ کو وہاں چھوڑ کر یہ کہتی چلی جاتیں کہ

گرکیاناصح نے ہم کو 'دور' اچھا یوں سہی

یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائینگے کیا

اب آپ مسعود ابدلی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


Thursday, September 28, 2023

کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل دونوں ملکوں کے درمیان شدید سفارتی تناو

 

کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل

دونوں ملکوں کے درمیان شدید سفارتی تناو

کنینڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹرودو کا کہنا ہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نِجر کو ہندوستانی خفیہ اداروں نے قتل کروایا ہے۔ خالصتان تحریک کے  45 سالہ رہنما،  18 جون کو کینیڈین صوبے برٹش کولمبیا کے قصبے سرے(Surrey)  میں گرودوارہ نانک صاحب کے سامنے اسوقت قتل کردئے گئے جب وہاں شام کی پرارتھنا (عبادت) ہورہی تھی۔ گزشتہ ہفتے  حزب اختلاف کی پارلیمانی پارٹی کے ہنگامی اجلاس کو جناب ٹروڈو نے بتایا کہ حکومت کے پاس ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ہندوستانی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے "قابل اعتماد" ثبوت و شواہد موجود ہیں۔انھوں  نے کہا کہ کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں کسی بھی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔ کینیڈین وزیراعظم نے حکومتِ ہند پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو سلجھانے میں تعاون کرے۔

بعد میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیر خارجہ محترمہ میلینی جولی Mélanie Joly نے بتایا کہ اٹاوہ کے ہندوستانی سفارتخانے میں تعینات را (RAW)کے افسر کو فوری طور پر ملک چھوڑ دینے کی ہدائت کردی گئی ہے۔ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق جولی صاحبہ نے نیویارک میں G-7ممالک کے سفارتکاروں کو بھی  معاملے کی سنگینی سے آگاہ کردیا۔

فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ٹروڈو کابینہ  کے وزیر ہرجیت سجن نے CBC ریڈیو کو بتایا کہ حکومت ابلاغ عامہ کو بتائے بغیر اس معاملے کو سفارتی سطح پرحل کرنا چاہتی تھی لیکن نجر کی ہتیا (قتل) میں بھارت کے ملوث ہونے والی بات پر صحافتی حلقوں میں سرگوشیاں شروع ہوچکی تھٰیں اسلئے وزیر اعظم نے  فیصلہ کیا کہ میٖڈیا پر بھانڈا پھوٹنے اور افواہوں کا بازار گرم ہونے سے پہلے عوام کو درست معلومات براہ راست فراہم کردی جائیں۔

جناب سجن  نے کہا کہ  ہردیپ سنگھ نجر کو کچھ عرصہ پہلے سے دھمکیاں مل رہی تھیٓ اور اسی وجہ سے نجر صاحب کو  بلٹ پروف صدری (جیکٹ) بھی دی گئی تھی اور اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ دھمکیوں اور قتل میں بھارتی حکومت کے ایجنٹ ملوث تھے۔ جب وزیر موصوٖ ف سے پوچھا گیا کہ دھمکیوں کےپس منظر میں نجر صاحب کی حفاظت کیلئے اضافی اقدامات کیوں نہ اٹھائے گئے تو انھوں نے کہا کہ   پولیس اور ایجنسیا ں چوکس تھیں لیکن یہ حادثہ ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈین حکومت بھارت سمیت کسی ملک کو توڑنے کی وکالت نہیں کرتی لیکن کسی معاملے پر رائے ظاہر کرنے والے کسی کینیڈین کو جان سے ماردینے  کا کوئی جواز نہیں۔

حسب توقع دوسرے ہی دن  دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے  ہندوستان میں تعینات ایک سینئر  سفارتکار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ہندوستان سے نکل جانے کا حکم دیدیا گیا۔ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شری ارندم باگچی  نے  وزارت کا اعلامیہ اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر شایع  کیاجس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ سفارتکار کو ہندوستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت اور ہندمخالف سرگرمیوں کی بناپر 5 دن کے اندراندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔

دہلی کی G-22کانفرنس میں میزبان وزیراعظم نے  اجلاس کے دوران جسٹن ٹروڈو اکو کنارے لے جاکر کینیڈا میں خالصتان تحریک کی سرگرمیوں پر ناراضگی کا  اظہار کیا تھا۔ جسکی وضاحت کرتے ہوئے  بھارتی  وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم مودی کوکینیڈا میں انتہا پسند عناصر کی بھارت مخالف سرگرمیوں پر سخت تشویش  ہے۔۔ مودی جی کا خیال ہے کہ وزیر اعظم ٹروڈو  ہندوستان کے علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی اور بھارتی سفارت کاروں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہندسرکار الزام لگارہی ہے کہ   سکھ علیحدگی پسند کینیڈا میں انڈین کمیونٹی کو دھمکانے کے ساتھ وہاں کی ہندو  عبادت گاہوں کے قریب پُرتشدد سرگرمیوں میں مصروف ہیں جس کی  ٹروڈو حکومت درپردہ حوصلہ افزائی کررہی ہے۔

اٹاوا نے مودی جی کے اس انداز کو سفارتی رکھ رکھاو کے منافی گردانا تھا اور دوسرے ہی دن کینیڈا کی وزیرتجارت محترمہ میری انگ Mary Ngنے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ تجارتی  معاہدے کیلئے کنیڈا ہند مذاکرات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بھارتی وزارت تجارت کے ایک افسر نے تجارتی مذکرات میں تعطل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کینیڈا کی اندرونی سیاسی پیش رفت اور اس پر دہلی کے تحفظات بات چیت میں رکاوٹ کا سبب ہے'۔

 وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے  ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ٹہرانے کے ثبوت اپنے قریبی اتحادیوں کو فراہم کردئے ہیں۔ کینیڈاین وزارت خارجہ  کے مطابق جناب  جسٹن ٹروڈو نے اس معاملے پر امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک  سے براہ راست گفتگو کی ہے۔

اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن ان الزامات کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔  واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب کربی کا کہنا تھا کہ الزامات کی تحقیقات کیلئے امریکہ،کینیڈا کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔قصرِ مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی ایک ترجمان محترمہ ایڈرین واٹسن نے کہا کیندین شہری کے کینیڈا میں قتل   پر امریکہ کو گہری تشویش ہے اور ہم اپنے کینیڈین شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں  ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ تفتیش کا آگے بڑھنا بہت اہم ہے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کے مطابق امریکہ دلی سے بھی رابطے میں ہے اور   قتل کی تحقیقات میں  کینیڈا سے تعاون  پر زور دے رہا ہے۔کینیڈا کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سکھ شہری کے قتل سے بھارت کے ممکنہ تعلق پر کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں نے امریکی اداروں کیساتھ مل کر کام کیا ہے۔ امریکی سی آئی اے کے علاوہ  امریکہ، کینیڈا، برطانیہ،اسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ تحقیقاتی  ایجنسی 5 Eyes نے  بھی  نِجر قتل کی گتھی سلجھانے میں کینیڈا کی معاونت کی ہے

کنیڈا کی وزیرخارجہ نے اپنے برطانوی ہم منصب جیمز کلیورلی (James Cleverly) اور آسٹریلوی وزیرخارجہ کو اس بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کنیڈا کی طرح ان دونو ں ملکوں میں  بھی سکھ آبادی  خاصی بڑی ہے۔ محترمہ جولی سے گفتگو کے بعد برطانوی وزیرخارجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'برطانیہ نے ’کینیڈا کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ انکا کہنا تھاکہ کینیڈا اور بھارت دونوں برطانیہ کے قریبی دوست اور دولت مشترکہ کے شراکت دار ہیں اور معاملے کی  تحقیقات مکمل ہونے  کے بعد برطانیہ اپنے لائحہِ عمل کااعلان  کرے گا۔آسٹریلیا کی وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر 'فکرمندی' کا ااظہار کرتے بھارت کو  اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے۔

ہندوستانی رہاست پنجاب میں جہاں مبینہ طور پر 59 فیصد سکھ آبادہیں،   1980 اور 1990 کے دوران پرتشدد خالصتان تحریک چل  چکی ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، ہندوستان میں خالصتان تحریک عملاً دم توڑ چکی ہے  لیکن ادھر کچھ عرصے سے بیرون ملک خاص طور سے کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں مقیم سکھ برادری  خاصی سرگرم نظر آرہی ہے۔

ہردیپ سنگھ نجر اس تحریک میں بہت سرگرم تھے۔ آزاد خالصتان تحریک نے بیرون ملک سکھوں کی رائے معلوم کرنے کیلئے آن لائن استصواب کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور نجر صاحب ریفرنڈم میں پیش پیش رہتے تھے ۔ گاوں بگرا سنگھ پورا،  جالندھر کے ہردیب سنگھ نجر  1997 میں کینیڈا آگئے تھے جب انکی عمر صرف 19 سال تھی۔  انکا دعویٰ تھا کہ کینیڈا آنے کے بعد وہ کبھی  ہندوستان نہیں گئے۔

بھارتی خفیہ ادارے،  قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے مطابق نِجر کا تعلق علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس سے تھا اور  2013 میں وہ  خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ جگتار سنگھ تارا سے ملنے پاکستان آئے تھے۔۔ این آئی اے نے الزام عائد کیا کہ  آنہانی   نجر کا تعلق کالعدم تنظیم سکھ فار جسٹس سے بھی تھا۔ اسی تنظیم نے کینیڈا اور آسٹریلیا  میں خالصتان ریفرنڈم کا اہتمام کیا تھا۔ ایک ہندوپجاری کے قتل کے سازش میں بھی وہ مبینہ طور پر ملوث پائے گئے، یہ واردات 2016 میں ہوئی تھی۔  اسکے علاوہ  2007 میں پنجاب کے ایک سینما ہال پر  ہونے والے بم دھماکے سے بھی انھیں منسلک کیا گیا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔ان پر   زراعت سے متعلق قوانین کے خلاف کسانوں کی  ملک گیر تحریک میں حصہ لینے کا الزام بھی تھا۔ دلچسپ بات کہ یہ قوانین حکومت نے بعد میں خود ہی واپس لے لئے۔جب 2018 میں جسٹس ٹروڈو ہندوستان کے دورے پر آئے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے انھیں کینیڈا میں مقیم جن  10 مطلوب 'دہشت گردوں' کی فہرست فراہم کی تھی اس میں جناب نجر کا نام بھی شامل تھا،

جولائی 2020 میں ہندوستان نے انھیں دہشت گرد قرار دیکر  ہردیپ سنگھ کی گرفتاری پر 10 لاکھ روپئے انعام کا اعلان کیا اور  'دہشت گردوں ' سے سہولت کاری کے الزام میں بھارتی  حکومت نے انکی  11 کنال  آبائی اراضی  ضبط کر لی تھی۔سرکاری دستاویزات کے مطابق  آن لائن ریفرنڈم میں انکا قائدانہ کردار  جائیداد کی ضبطی کا سبب بنا۔ہردیپ سنگھ نجر اپنے خلاف دہشت گردی کے الزام کو سیاسی چال قراردیتے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ ریفرنڈم  ایک پرامن سر گرمی ہے جس پر تشدد یا دہشت گردی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آنجہانی نِجر خود کو مزدور کہتے تھے جو پلمبنگ کرکے روٹی روزی کماتے ہیں۔ کینیڈا کی سکھ برادری انھیں اپنا قائد تسلیم کرتی تھی۔

معلوم نہیں کینیڈا میں خالصتان تحریک کی سرگرمیوں  سے ٹروڈو مودی ذاتی تعلقات متاثر ہوئے یا ان دونوں رہنماوں  کے درمیان مخاصمت پلمبر کے دوچھوٹے بچوں کو یتیم کرگئی لیکن جسٹن ٹروڈو اور جناب نریندرا مودی کے درمیان کشیدگی برسوں پرانی ہے۔اتفاق سے ان دونوں   نے ایک سال کے وقفے سے اپنے اپنے ملکوں کی قیادت سنبھالی اور انکے درمیان  شدید نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ٹروڈو آزاد خیال لبرل رہنما ہیں جبکہ مودی جی کی پشت پر ہندوتوا قوم پرست انتہا پسند

کینیڈا میں ہندو اور سکھ ووٹروں کی تعداد اگر فیصلہ کن نہیں توبھی مقامی سطح پر خاصہ موثر کردار ادار کرتی ہے۔سکھوں کی اکثریت لبرل و آزاد خیال ہے جو انتخابات میں جناب ٹروڈو کی حامی ہے جبکہ ہندوتوا طبقہ انکے قدامت پسند مخالفین کے حق میں ووٹ ڈالتا ہے۔

جناب ٹروڈو کو سفارتی  سردمہری کا سامنا  اسوقت ہوا جب وہ  2018 میں پہلی بار  8 روزہ دورے پر ہندوستان پہنچے۔ اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم کی آمد پر مہمان کا استقبال نریندرا مودی  نے خود کیاتھا جبکہ جناب ٹروڈو کے استقبال کو ایک وزیرمملکت بھیجے گئے۔ جناب ٹروڈو کی آمد کے تیسرے دن نریندرا مودی نے ا ن سے'مختصر' سی ملاقات کی جو دراصل ایک فوٹو سیشن تھا۔ حد تو یہ کہ جب کینیڈین وزیراعظم، مودی جی کی آبائی ریاست گجرات گئے  تب بھی ہندوستانی وزیراعظم ان سے ملنے نہ آئے۔دلی کا تضحیک آمیز رویہ  کینیڈا کی سکھ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مبینہ ہمدردی پر مودی انتظامیہ کی اظہارِ ناراضگی تھا ۔

حالیہ جی 20 کے سربراہی اجلاس  کے دوران بھی مودی ٹروڈو کشیدگی بہت واضح تھی۔ یہ بات میڈیا پر اب تک گردش کررہی ہے کہ وزیراعظم مودی سے مصافحے کے دوران ٹروڈو صاحب انے پنا ہاتھ جلدی کھینچ لیا۔ اور سب سے بڑی بات کہ ہندوستانی صدر کی جانب سے سربراہانِ حکومت و مملکت کے عشائیے میں جناب ٹروڈو نے شرکت نہیں کی۔ کانفرنس کے خاتمے پر کینیڈین وزیراعظم کو اسی دن وطن واپس روانہ ہونا تھا لیکن طیارے میں خرابی کی وجہ سے انھیں  مزید دو دن دہلی رکنا پڑا ، یہ سارا وقت انھوں نے اپنے ہوٹل میں گزارا اور  ہندوستانی  وزیر تو دور کی بات، کوئی  معمولی اہلکار انکی  رسمی مزاج پرسی کو بھی نہ آیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کچھ منچلوں نے  جی20 اجلاس کے موقع پر دہلی میں دیواروں پر آزاد خالصتان کے  نعرے لکھ دئے تھے۔ اس نوشتہ دیوار نے بھی مزاجِ یار کی برہمی میں اہم کردار اداکیا۔

یہ تنازعہ ہے تو خاصہ سنگین اور نجر کے  ہندوستانی ایجنٹ کے ہاتھوں قتل کو کچھ کنینڈین اہلکار رہاستی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، کنیڈا کے تینوں معتمد اتحادی امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا بظاہر کنیڈا کی پشت پر ہیں، لیکن مغربی دنیا کوشش کررہی ہے کہ کینیڈا اور بھارت  کے درمیان سفارتی تنازع دوسرے ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو خراب نہ کرے۔ بڑھتی ہوئی معاشی قوت کیساتھ ہندوستان کا عالمی بساط سیاست پر کردار بہت اہم ہوگیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کیلئے ہندوستان ، چین کی پیش قدمی روکنے والا ہراول دستہ ہے۔ افغانستان پر  روسی حملے کے وقت صدر ضیاالحق  پاکستان کو کمیونسٹ یلغار کے سامنے Front Line Stateکہا کرتے تھے۔ اب مغربی دنیا ہندوستان کو چین کے امڈتے سیلاب کے آگے مضبوط بند سمجھتی ہے۔

چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین نہیں چاہتے کہ ہند کنینڈا تنازعہ،  چین کے خلاٖف اتحاد کو کمزور کردے۔  امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کو اس قتل کے الزامات پر ’گہری تشویش‘ ہے، وہ اس تنازعے کے حل اور ہند کنیڈا کشیدگی کم کرنے کیلئے بیتاب ہیں لیکن اگر تحقیقات کے نتیجے میں بھارتی دامن و خنجر خود بول پڑے تب بھی ان ممالک کیلئے دہلی کی سرزنش  و مذمت ممکن  نہیں کہ

'انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبکینوں کو'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپشل کراچی 29 ستمبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 29 ستمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 29 ستمبر 2023




Wednesday, September 27, 2023

 

آزادی اظہار رائے کا دہرا معیار ۔۔ چشم کشا انکشاف

فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ آزادی اظہار پر یقین رکھنے کے ساتھ معاشرے (Community)کی توقیر و تحفظ کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ 'قابل اعتراض مواد پر انتباہی پیغامات ملتے ہیں اور بسا اوقات اکاونٹ منجمد کردئے جاتے ہیں۔

انفرادی پوسٹ کیساتھ صفحات اور نیٹ ورکس کی 'غیر پسندیدہ'سرگرمیوں کو فیس بک کی مالک میٹا کمپنی Meta مربوط غیر مستند طرز عمل یا Coordinated Inauthentic Behavior(CIB)کہتی ہے جنکی نگرانی اور سدباب کیلئے مختلف جغرافیائی اکائیوں میں CIBکمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔

اس سارے بندوبست کا مقصد سنسر اور پابندیوں کو مربوط و منصفانہ بنانا ہے

یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے لیکن آج واشنگٹن پوسٹ کے ٹیکنالوجی ایڈیٹر Joseph Menn (ٹویٹر @josephmenn) اور بھارتی بیورو کے سربراہ Gerry Shih (ٹویٹر @gerryshih) کاایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے جسکے مطابق تقریبا تین سال قبل فیس بک کے نقیبوں (propaganda hunters) نے سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ کے ایک بڑے آپریشن کا انکشاف کیا۔ نقیبوں نے بتایا کہ سیکڑوں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے کشمیر کے شورش زدہ سرحدی علاقے میں بھارتی عسکری کاروائی کی تعریف کرتے ہوئے کشمیری صحافیوں پر علیحدگی پسندی اور غداری کا الزام لگایا گیا تھا۔ چھان بین پر پتہ چلا کہ یہ نیٹ ورک بھارتی فوج کی چنار کور کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔

جب CIB یونٹ کے امریکہ میں مقیم سپروائزر نے فیس بک ہندوستان کے ذمہ داروں کو چنار نیٹ ورک کے صفحات حذف کرنے کی سفارش کی تو نئی دہلی کے دفتر نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔فیس بک کے ہندوستانی اہلکاروں نے متنبہ کیا کہ کسی بھی کاروائی سے پہلے مقامی وکلا سے مشورہ ضروری ہے۔ ہندوستانی افسران کا کہنا تھا کہ خودمختار ملک کو اسکے زیر کنٹرول علاقوں میں کارروائیوں پر تنقید کا نشانہ بنانا خطرناک ہوسکتا ہے اور غداری کے الزام میں گرفتاری بھی خارج از امکان نہیں۔

ان خدشات کی بناپر CIBیونٹ ایک سال تک خاموش رہا اور اس عرصے میں بھارتی فوج کے یونٹ نے غلط معلومات کی تشہیر جاری رکھی جس سے کشمیری صحافی خطرے میں پڑ گئے۔سال بعد ڈیڈ لاک اس وقت ختم ہوا جب فیس بک کے اعلی حکام نے مداخلت کی اور جعلی اکاؤنٹس حذف کردئے گئے۔

کشمیر پروجیکٹ پر کام کرنے والے ایک ملازم نے کہا کہ چنار کور نے فیس بک کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرضی شخصیات کو خفیہ طور پر ایک بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ (پالیسی کی صریح خلاف ورزی کے باوجود) چنار کور کی حمائت نے CIBکو تقریبا توڑ دیا اور ماہرین کا ایک بڑا گروپ CIB چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔

جوزف اور جیری رقمطراز ہیں' کشمیر کا معاملہ اس بات کی صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح فیس بک وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے دباؤ پر ہندوستان میں اپنی پالیسیوں کو پس پشت ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔ جب بھی بی جے پی کے سیاست دانوں یا ان کے حلیفوں کے ذریعہ نقصان دہ مواد پھیلایا گیا، پلیٹ فارم نے کارروائی سے گریزکیا'

ہندوستان کیلئے فیس بک کے نرم گوشے کی وجہ بیان کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں ہند نژاد صارفین کی تعداد اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ہندوستانی افسران کے اثرورسوخ کےحوالے سے ہندوستان ایک مثالی منڈی ہے۔ ہندوستان انگریزی بولنے والی ٹیکنالوجی سے واقف جمہوریت ہے جسے بائیڈن انتظامیہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ہندوستان میں فیس بک صارفین کی تعداد پوری امریکی آبادی سے زیادہ ہے۔ ہندوستان ، ٹویٹر کے لئے بھی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔اسی بنا پر CIBپالیسیوں کی صریح خلاف ورزی کرنے والے مواد پر ہندوستان سے خصوصی سلوک کیا جاتا ہے ۔

بھارت میں حکومت نواز مواد کو اعتدال پسند بنانے کے حوالے سے فیس بک کا محتاط رویہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ نقب زن (ہیکرز) اور پراپیگنڈا کرنے والوں کی بیخ کنی امریکہ سے کی جاتی ہے۔ لیکن انکے ہندوستانی ہم منصبوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھیں سیاسی نظریات اور یا حکومتی آشیرواد کی بناپر بھرتی کیا گیا ہے اور یہ سب نظریاتی طور پر بی جے پی کے حلیف ہیں۔

رپورٹ میں فیس بک کے 20 سے زیادہ موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کمپنی کے افسران بی جے پی سے وابستہ، نفرت پھیلانے والے اکاؤنٹس کو سزا دینے سے کتراتے ہیں۔ انٹرویوز اور دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک کے مقامی عہدیدار ہندو قوم پرست رہنماؤں کی ویڈیوز اور پوسٹس کو ہٹانے میں ناکام رہے، حالانکہ انہوں نے کھلے عام ہندوستانی مسلمانوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

حوالہ: واشنگٹن پوسٹ، 26 ستمبر 2023






Thursday, September 21, 2023

مراکش کا زلزلہ ۔۔۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟؟ پراسرار نیلی روشنی؟؟؟

 

مراکش کا زلزلہ

8 ستمبرکو مراکش میں آنے والے  زلزلے سے جاں بحق ہونے  والوں کی تعداد 3000 سے تجاوز کرچکی ہے۔ پانچ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہیں ۔ مراکش  شہر کے جنوب میں  صوبہ الحورز اور سوس ماسۃ کے کوہستانی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے  ہیں۔ اسکے علاوہ کیسابلانکا،  ورزازات (Ouarzazate) اورشيشاوہ سے بھی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ امریکی مساحت ارضی (USGS)کے مطابق زلزلے  کی شدت  6.8اور اسکا مرکز یعنی epicenter مراکش شہر  سے 70 کلومیٹر جنوب میں ایغیل کے قریب 18.5کلومیٹر گہرائی پرتھا۔ مراکش کے مرکز برائے طبعی ارضیات (Geophysical Center of Morocco) کاکہنا ہے کہ زلزلے کی شدت 7.2، گہرائی 11 کلومیٹر اور تھرتھراہٹ کا دورانیہ 20 سیکنڈ تھا۔حیات و اسبابِ حیات کیساتھ دوتاریخی مساجد،  جامع الفناء اور جامع الکتیبہ کو بھی  زلزلے سے نقصان پہنچا۔ 1147ء  میں تعمیر کی جانیوالی جامع الکتیبہ کے چٹانوں کو تراش کر بنائے جانیوالے مینار چٹخ گئے

آج کی نشست میں ہم اس قدرتی آفت کے ارضیاتی پہلو کا جائزہ لیں گے۔ احباب کو یاد ہوگا ترکی و شام میں آنے والے زلزلے پر بھی ہم نے اسی نوعیت کی گفتگو کی تھی۔ زلزلے کیوں آتے ہیں اسے سمجھنے کیلئے کرہ ارض کے سطحی پہلو کا جائزہ ضروری ہے۔یہ نکات  آپ ترک و شام زلزلے کے حوالے سے بھی دیکھ چکے ہیں چنانچہ تکرار سے پہنچنے والی کوفت پر پیشگی معذرت۔

زمین کی بیرونی سطح جس  پر ہم آباد ہیں وہ سِلوں یا slabs پر مشتمل ہیں جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں ساختمانی پرتیں یاTectonic Plates کہا جاتاہے۔ یہ سلیں  یا پلیٹیں حرکت کرتی رہتی ہیں، تاہم متصل پلیٹیں اتنے مربوط انداز میں ہِلتی  ہیں کہ ہمیں اسکااندازہ ہی نہیں ہوتا ، جیسے زمین،  سوج کے گرد  1670 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہے لیکن ہمیں اس حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ طلوع آفتاب، دوپہر ڈھلنے اوررات چھاجانے کی شکل میں ہم اجرام ہائے فلکی کی حرکت کا ہرروز مشاہدہ کرتے ہیں۔

زمین کی پلیٹیں حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں اور پرتوں کی ناہموا ٹکّر سے ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے پھلکے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ ٰجو آبادیاں بڑی پلیٹوں کے وسط پر ہیں وہاں پلیٹوں کے ٹکراو سے لگنے والے جھٹکے محسوس نہیں ہوتے لیکن کنارے پر آباد لوگ ان جھٹکوں سے  کبھی کبھار لرز جاتے  ہیں۔

بعض اوقات پلیٹیں  آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کا راستہ روک لیتی ہیں یا یوں کہئے کہ جنگلی بھینسوں کی طرح سینگ پھنسالیتی ہیں۔شائد اسی بنیاد پر قدیم ہندووں کا خیال تھا کہ زمین کو بھینسا دیوتا نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا  رکھا ہےاور جب دیوتا جی تھک جاتے ہیں تو بوجھ دوسرے سینگ پر رکھ لیتے ہیں اور سینگ کی تبدیلی زلزلے کا سبب بنتی ہے۔

ماہرین ارضیات کا خٰیال ہے کہ پلیٹوں کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے سے حرکت رُک جاتی ہے لیکن  پشت سے آنے والا دھکابرقرار رہتا ہے۔ دباو بڑھ جائے پر چٹانوں کی شکست و ریخت شروع ہوتی ہے۔ اگر دباو دونوں جانب سے برقرار رہے تو بیچ کا حصہ اوپر اٹھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مثال طور پر اگر آپ ایک موٹےکاغذ کو ہموار سطح پر رکھ اپنے ہاتھ کاغذ کے دونوں کناروں پر رکھ کر اسے دونوں جانب سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو کاغذ بیچ سے اوپر (fold) ہوجائیگا۔کوہِ ہمالیہ سمیت دنیا بھر کے پہاڑ وں کو ایسے ہی عوامل نے جنم دیا ہے۔

اگر دباو برداشت سے بڑھ جائے تو دونوں پلیٹیں  پھسل کرایک دوسرے کے راستے سے ہٹنے  لگتی ہیں۔ انشقاق کے  اس عمل کو ارضیات کی اصطلاح  میں ruptureکہتے ہیں۔ دونوں پلیٹیں جس مقام پر آمنے سامنے ملی ہوتی ہیں اسے ماہرین ارضیات نے خط دراڑ یا fault lineکا نام دیا ہے۔ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹیں  اوپر نیچے یعنی عمودی اور دائیں بائیں دونوں  سمت  پھسل سکتی ہیں۔اگر پرتیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بجائے ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہوکر حرکت کریں تو چٹانیں آڑی ترچھی سمت بھی پھسل سکتی ہیں۔مراکش کے زلزلے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔  پلیٹوں کے پھسلنے سے  سطح  زمین پر ارتعاش محسوس ہوتا ہے جو درحقیقت زلزلے کے پہلا جھٹکا ہے۔ ان پلیٹوں کی صرف ایک سینٹی میٹر حرکت خوفناک زلزلے کا سبب بن سکتی ہے۔

پلیٹوں کے کھسکنے سے جھٹکے کے ساتھ وہ  توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو دونوں پلیٹوں  کی حرکت رک جانے کے باوجود پیچھے سے آنے والے دھکے کے نتیجے میں  جمع ہورہی تھی۔اسے یوں سمجھئے کہ  اگر آپ نے گاڑی کو بریک پر سختی سے پیر رکھا ہوا ہو،  پیچھے سے کئی تنو مند نوجوان گاڑی کو دھکا لگارہے ہوں اور اگر آپ اچانک بریک سے پاوں ہٹالیں تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی انشقاق کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اس توانائی سے پیداہونے تھرتھراہٹ Vibrations زلزلے کے مقام سے سینکڑوں میل دور تک کی زمین کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ پہلے جھٹکے کے بعد یہ توانائی رفتہ رفتہ خارج ہوتی رہتی ہے جو رادفات یا  after shocksکا سبب ہے۔ رادفہ کی اصطلاح ہم نے قرآن سے لی ہے۔ تتبعھا الرادفۃ، سورہ  79، النازعات آئت 7

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا،  انشقاق کے نتیجے میں پلیٹوں کے سرکنے سے جہاں جھٹکا محسوس ہوتا ہے وہیں زبردست  Seismicتوانائی بھی خارج ہوتی ہے، توانائی کی لہریں  نقطہ آغاز یا Hypocenter  سےچہار جانب ارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔

زلزلے کے حوالے سے ترکی اور شام کے مقابلے میں لیبیا پرسکون و بے ضرر  علاقہ ہے کہ ملک کا  چھوٹاسا حصہ یعنی شمالی مغربی مراکش افریقی اور یوریشیائی (Eurasian)پلیٹ کے سنگم پر ہے۔ افریقی پرت کو نوبین (Nubian)پلیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین ارضیات کاخیال ے کہ 6 کروڑ سال پہلے یوریشیائی اور افریقی پیلٹوں کے درمیان تصادم سے سارا کرہ ارض خوفناک زلزے کا شکار ہوا۔ کرہ ارض پر عظیم الشان عالمگیر سمندر  جسے  سائنسدانوں نے بحر Tethysکانام دیا تھاکئی سمندروں میں تقسیم ہوگیا۔پلیٹوں کے ٹکراو  سےیورپ میں الپس Alps ایران و عراق کے قریب کوہ زاغرس Zagrosاور ہمارے علاقے میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے۔ افریقی اور یوریشین پرتوں کی دھینگا مشتی نے  مراکش، تیونس اور الجزائر تک پھیلے 2500 کلومیٹڑ طویل کوہِ اطلس کو جنم  دیا ہے۔ ارضیات کے علما کا ٓخٰیال ہے کہ گزشہ کئی ہزار سال سے  افریقی  پرت کی حرکت بہت خفیف  یعنی ایک ملی میٹر  سالانہ ہے۔

تاہم کوہِ اطلس کی ایک انوکھی ارضیاتی خصوصیت  یہ ہے کہ اسکی بیرونی  سخت پرت یا lithosphereمعمول سے زیادہ پتلی ہے اور نیچے کی سخت ٖ غلافی چٹانوں (mantle rocks) کے اوپر کی سمت مسلسل حرکت کی وجہ سے کوہ اطلس کی  ارضیاتی ساخت بہت زہادہ مستحکم نہیں۔ غلاف (Mental) کا قصہ یہ ہے کہ کرہ ارض کا اندرونی مرکز یا کور (core)ایک دہکتی ہوئی گیند ہے جسکی ماہیت انسان کو اب تک ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن Seismic تجزئے کے مطابق  لوہے اور نکل Nickelکے دھاتی مرکب سے بنی اس تہہ کا درجہ حرارت 9800Fسے زیادہ ہے۔ قدرت نے  بکمال مہربانی ہماری زمین کے دہکتے مرکز کو سلیکیٹ (Silicate)کی  2900 کلومیٹر موٹی غیر مسامدار سخت چٹانوں سے گھیر دیا ہے جو غلاف یا مینٹل کہلاتا ہے۔

یوریشین اور افریقی پرتوں کی حرکت اگرچہ کہ خفیف ہے لیکن  کوہ  اطلس کی  اوپری نرم اور نیچے کی  غلافی سخت چٹانوں کے مابین رگڑ یا Faultingکا سلسلہ جاری رہتاہے۔ ارضیاتی ساخت کی یہ خرابیاں اس زلزلے کی ممکنہ وجہ ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ نقائص ایک طویل عرصے سے فعال ہیں۔دوہفتہ پہلے آنے والے زلزلے کے بارے میں ماہرین طبعیائی ارضیات (Geophysicists)  اور زیر زمین تھرتھراہٹ پر نظر رکھنے والے  علما (Seismologists) کا کہنا ہے  کہ  افریقی پرت اور یوریشیائی پرت کی حرکت ایک سمت  کو تھی اور  اس 'ہم آہنگی' یا   Convergenceکی وجہ سے   500 کلومیٹڑ دور کوہ اطلس کی گہرائی میں کمزور اور متغیر چٹانیں ایک دوسرے سے آگے نکل گئیں۔دونوں  پرتوں کی حرکت ایک ہی  سمت میں تھی اسلئےٹوٹ پھوٹ و  انشقاق یا Ruptureکے نتیجے میں  چٹانیں اوپر نیچے  اور دائیں بائیں کے بجائے آڑی ترچھی  پھسلیں  یا ارضیات کی اصطلاح میں Oblique Thrust Faultingکا حادثہ پیش آیا اور 6.8شدت کے جھٹکے سے خارج ہونے والی 9 درجے کی خوفناک  بھونچالی یا  Seismicلہروں نے   قیامت برپا کردی۔

یہ تو تھا اس حادثے کا تیکنیکی تجزیہ۔ لیکن اس بار ہلاکت خیز  جھٹکے سے چند لمحہ پہلے  افق پر کوند جانیوالی نیلی روشنی کا بھی خاصہ شورہے۔ اس پراسرار چمک کی کوئی حتمی سائنسی منطق سامنے نہیں آئی اور ابتدا میں ماہر ین نے اسے تخیلاتی نظر بندی قراردیا یعنی یہ چودہ طبق روشن ہوجانے والی بات تھی۔ لیکن کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن پر محفوظ کئے جانیوالے مناظر میں نیلی روشنی کی پراسرار چمک بہت واضح ہے۔ یہ مناظر متاثرہ علاقے کے کئی مقامات پر ریکاڑد کئے گئے جسکی وجہ سے اسے خواب و خیال کہہ کر نظر انداز کردینا ممکن نہیں اور اس چمک کو نورِ زلزلہ (Earthquake Light)یا  EQLکا نام دیا جارہا ہے۔

امریکی مساحت ارضی کے ایک ریٹائرڈ ماہر ِطبعیاتی ارضیات جان ڈر John Derrکا کہنا ہے  کہ نورِ زلزلہ محض تخیل نہیں تاہم   اسکا مشاہدہ وقت، مقام اور وہاں چھائی تاریکی سے مشروط ہے۔  بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے سے پہلے بھی افق پر یہ روشنی دیکھی گئی حالانکہ وہاں یہ قیامت دوپہر ڈیڑھ بجے ٹوٹی تھی۔اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مورخیں نے نورِ زلزلہ کا ذکر   89 قبل مسیح  آنے والے زلزلوں کی روداد بیان کرتے ہوئے بھی کیا ہے۔ دورِ جدید میں نورِ زلزلہ 1965 کے  بھونچالِ جاپان سے پہلے دیکھا گیا۔ اسکے علاوہ 2008ء میں چین، 2009 میں اٹلی اور آخری بار  2017 میں زلزلہِ میکسیکو سے پہلے بھی روشنیاں نظر آئیں۔

جناب جان ڈر کا کہنا ہے کہ نورِ زلزلہ 5 یا اس سے شدت کے زلزلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور یہ زلزلے کے مقام (Epicenter) سے 600 کلومیٹر  تک کے علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ روشنی کس نوعیت کی ہے اسکے بارے میں بھی کوئی بات حتمی نہیں۔چند ماہرین کے خیال میں یہ روشنیاں عام طور پر تیرتے ہوئے آسمانی اجسام کی شکل میں ہوتی ہیں جبکہ  کچھ کے خیال میں  یہ بادل جیسی لکیریں ہیں، جن میں سے اکثر کا رنگ سبز ہے۔بعض علمائے ارضیات کے کا کہنا ہے کہ  یہ نور زلزلہ اسمانی بجلی کی شکل میں کوندتا ہے۔امریکہ  ادارے NASAکے ایک ماہر  فریڈمن فرنڈ Friedemann Freund کے مطابق جب ساختماتی  پرتوں یا Tectonic Platesکے ٹکراو اور رگڑ سے چٹانیں ٹوٹتی ہیں تو ذرات میں ملفوف آکسیجن روشنی کی صورت فضا میں بکھر جاتی ہے

ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زلزلے کے مرکز کے قریب شدید ٹیکٹونک دباؤ کی وجہ سے چٹانوں میں موجود Radon کا اخراج روشنی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تاہم  اس نظرئے کو زیادہ پزیرائی نہیں ملی کہ ریڈان ایک تابکاری مادہ ہے اور اگر ریڈان  اس روشنی کا ماخذ ہے تو اس سے  محض چمک نہیں بلکہ  شعلہ جوالہ جنم لینا چاہئے۔

سائنسدانوں کی اکثریت کیلئے نورِزلزلہ اب تک ایک تخلیاتی مشاہدہ ہے لیکن اس پر سنجیدہ گفتگو کا اغاز ہوچکا ہے۔ کیا عجب کہ یہ روشنی اس قدرتی آفت کی پیشنگوئی  کا روشن سنگ میل  بن جائے۔

حوالہ:

  • امریکی مساحت ارضٰی USGS
  • مراکشی مرکز برائے طبعی ارضیات (Geophysical Center of Morocco)
  • مڈل ایست آئی Middle East Eye
  • ڈاکٹر سلوین باربٹ Sylvain Barbot جامعہ جنوبی کیلی فورنیا(USC)
  • پروفیسر ہوزے پیلیز (José A. Peláez) ، مراکش
  • العربیہ ٹیلی ویژن سعودی عرب

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 ستمبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 ستمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 22 ستمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 ستمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Sunday, September 17, 2023

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے حساب آئے

 

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے حساب آئے

آج جبکہ ترک ملت سلطانی جمہور پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہے ان شہدا کی جدائی کے زخم تازہ ہوگئے ہیں جنکے گرم لہو نے سیکیولر ازم کے اندھیروں میں ایمان و یقین کے دیپ روشن کئے۔ بے خدا سیکیولر سے نجات میں نجم الدین اربکان مرحوم کی بصیرت اور طیب ایردوان کی ہمت و انتھک محنت کا بڑا ہاتھ ہے لیکن قصرجمہوریت کی بنیاد کو وزیراعظم عدنان میندریس، وزیر خارجہ فطین رستم اور وزیرخزانہ حسن ارسلان کا پاک و مبارک لہونے معطر کررکھا ہے۔

 جب 1950میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہوئے تو عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی نے 487 کے ایوان میں 408 نشستیں جیت کر سیکیولر قوتوں کو حیران کردیا۔ چار سال بعد 1954کے انتخابات نے اتاترک کی ریپبلکن پارٹی کا بالکل ہی صفایا ہوگیا اور عدنان میندریس نے 541 میں سے 503 نشستیں جیت لیں۔ 1957 میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے ایک بار پھر دو تہائی نشستیں جیت کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔ اپنے عہد اقتدار میں میندریس سرکار  نے سارے ترکی میں صنعتوں کا جال بچھا دیا، ترکی نے مغرب سے قریبی تعلقات قائم کئے اور نیٹو کی رکنیت حاصل کی۔ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ کیا گیا۔ شہری آزادیوں کو بحال کیا گیا۔ مدارس میں عربی تعلیم کی اجازت دی گئی، مساجد سے عربی میں اذان بحال کی گئی جبکہ اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں داخلے پر پابندی ختم کردی گئی۔

جناب میندریس کے ان اقدامات کی حزب اختلاف نے سخت مخالفت کی۔ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو نے جب ان سے طنزیہ پوچھا کہ وہ شریعت نافذ کرکے خلافت کب بحال کر رہے ہیں تو جناب میندریس نے بے دھڑک جواب دیا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو مکمل شریعت بھی نافذ ہوسکتی ہے۔ اس پر انکے وزیرخارجہ فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا اور وزیر خزانہ حسن ارسلان بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔

پارلیمان کی یہ گفتگو ان تینوں کیلئے موت کا پیغام لائی۔ 27 مئی 1960 کو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سرسری سماعت کے دوران استغاثہ نے جو فرد جرم عائد کی اسکے مطابق بعد عربی مدارس کی بحالی،  بند مساجد کا اجرا ، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کے سر ڈھانکنے کی اجازت ریاست کے خلاف گھناونا جرم اور سیکیولر ازم سے صریح انحراف تھا۔ ان 'سنگین' الزامات کے ساتھ پارلیمینٹ کے اجلاس میں خلافت بحال کرنے کا عزم ناقابل معافی ٹہرا۔ عدنان میندریس اور انکے دونوں ساتھیوں کو سزائے موت سنادی گئی اور اپیل و نظر ثانی کے تکلف میں پڑے بغیر 17ستمبرکو یہ تینوں تختہ دار پر لٹکا دئے گئے۔

یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا اسکا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق ترکی کے صدر جمال گرسل نے جناب میندریس اور انکے ساتھیوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ھوئے۔ صدر نے موت کے حکم نامے کو مسترد کرتے ہوئے تحریر کیا کہ آئین کے مطابق غداری کا مقدمہ صرف کھلی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے جبکہ اس انتہائی اھم مقدمے کی سماعت چند نوجوان فوجی افسروں نے بحر مرمارا کے ایک تنگ و تاریک جزیرے پر کی اورصدر و  وزیراعظم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انکو دوساتھیوں سمیت تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔

 جناب میندریس کے آھنی اعصاب کا مظاھرہ اسوقت ہوا جب پھانسی کی صبح رات کے تیسرے پہر جلاد، جیل کے سپر انٹنڈنٹ کے ھمراہ انکے سیل میں داخل ہوا۔ ٘موصوف کے خراٹوں سے سارا سیل گونج رھا تھا اور وہ اتنی گہری نیند میں تھے کہ بیدار کرنے کیلئے انکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے پڑے۔ جلاد کا کہنا ہے کہ اس نے  پوری زندگی میں سزائے موت پانے والے فرد کو ایسا پرسکون نہیں دیکھا۔ انکی موت کے بیس سال بعد ایک آئینی عدالت نے جناب میندریس کی پھانسی کو وحشیانہ قتل قرار دیا اور انھیں جدید ترکی کا معمار قرار دیتے ہوئے انکے لئے عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا انکے دونوں سزا یافتہ ساتھی بھی اسی مقبرے میں انکے ساتھ آسودہِ خاک ہیں۔  انکی آبائی شہر  ازمیر کے ھوائی اڈے اور مرکزی جامعہ کو بھی جناب میندریس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ؏ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔