Thursday, September 14, 2023

ایران سعودی، سعودی شام اور ترک ایران قربت ایک نئے اتحادِ ثلاثہ کی بازگشت

 

ایران سعودی، سعودی شام اور ترک ایران قربت

ایک نئے اتحادِ ثلاثہ کی بازگشت

مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار3 ستمبر کو تہران میں اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ جناب حسین امیرعبداللہیان نے اعلان کیا کہ ایران، سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ سہ فریقی اقتصادی اجلاس کے انعقاد پر کام کر رہا ہے۔ مجوزہ اتحاد ثلاثہ کے پس منظر پر چند سطور۔

مارچ میں ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا جسکے لئے چین کی ثالثی میں کافی عرصے سے مذاکرات جاری تھے۔ مشرق وسطٰی کی سیاست پر نظر رکھے والے ماہرین ابتدا ہی سے تہران ریاض مفاہمت کو رفاقتِ عرب و عجم  قراردے رہے تھے۔ سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ اگر سعودی و ایرانی قیادت نے شاہراہ دوستی کی راہ میں بچھی فرقہ پرستی کی بارودی سرنگوں سے دامن بچالیا تو یہ مفاہمت اہل و شام و یمن کیلئے  بھی امن و استحکام کا سبب بنے گی۔ حسب توقع کچھ ہی دن  بعد شام و سعودی عرب نے سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کرلئے اور عرب لیگ میں شام کی رکنیت بحال کردی گئی۔ اسی کیساتھ بمباری کے عذاب میں مبتلا مظلوم یمنیوں کو بھی راحت محسوس ہوئی اور برسوں بعد وہاں عید الفطر و عید الاضحیٰ روائتی جوش و خروش سے منائی گئی۔

مشرق وسطیٰ میں ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ جب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے قطرسے تعلقات توڑ کر اس ننھی سی خلیجی ریاست کی ناکہ بندی کردی تو ترکیہ قطر کی مدد کو آیا، نتیجے کے طور پر انقرہ کے ریاض و ابوظہبی سے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے۔ لیبیا میں حفتر دہشت گردوں کے مقابلے میں وفاقی حکومت کی ترک پشت پناہی سے تعلقات میں مزیدکشیدگی آئی۔ امریکی سی آئی اے کا خیال ہے کہ لیبیا کے عبوری وزیراعظم عبدالحميد محمد الدبيبہ اخوانی فکر سے وابستہ ہیں۔ یک نہ شد دو شد کہ جلد ہی اخوان المسلمون کی حامی انصاف و تعمیر پارٹی (JCP)کے قائد خالد المصری عبوری کونسل کے سربراہ مقرر کردئے گئے۔

عبوری کونسل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ملک گیر مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے اسلئے کونسل کی کھل کر مخالفت تو نہ کی جاسکی لیکن اسرائیل، مصر، فرانس ، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب،  حفتر ملیشیا کو درپردہ مدد فراہم کرتے رہے۔ متفقہ حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے روسی کی  ویگنر ملیشیا کو بھی میدان میں اتارا گیا جنکے اخراجات خلیجی ممالک نے بردا شت کئے۔ اسکے مقابلے میں ترکیہ وفاقی حکومت کی  پشت پر آکھڑا ہوا اور اسکے تباہ کن ڈرونوں نے حفتر ملیشیا کو بھاری نقصان پہنچایا۔

مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مورسی کے خلاف جولائی 2013 کے شب خون پر جناب طیب ایردوان  کا ردعمل انتہائی شدیدتھا اور اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے ترکیہ نےمصر سے سفارتی تعلقات عملاً توڑ لئے ۔ مورسی حکومت کےخلاف کاروائی میں جنرل السیسی کو یورپی یونین اور امریکہ کیساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مکمل حمائت حاصل تھی۔ان دونوں ممالک نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ اسکے باوجود طیب ایردوان مصری اخوانیوں کی اصولی حمائت پر ڈٹے رہے، چنانچہ ترکیہ کے مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عر ب سے تعلقات میں مزید خرابی آگئی ۔

دہشت گرد تنظیم کردش ورکزپارٹی (PKK)کے عسکری دھڑے YPG کی سرگرمیوں پر شام اور ترکیہ میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ وائی پی جی اور اسکی خواتین شاخ YPJکو داعش کی سرکوبی کیلئے اتارا گیا تھا چنانچہ جلد ہی ان دہشت گردوں کو امریکی حمائت یافتہ قوات سوريا الد يمقراطیہ یا سِرین ڈیموکریٹک فورس (SDF)میں ضم کرکے جدید ترین اسلحے سے لیس کردیا گیا۔ داعش کے خلاف کاروائی میں صدر بشار الاسد کی وفادار شامی فوج، امریکہ کی حمائت یافتہ SDFکی اتحادی ہے اور YPG امریکہ نواز مشترکہ فوج کا حصہ۔ دوسری طرف ایران بھی بشارالاسد کی حمائت کررہاہے۔

داعش کیخلاف کاروائی تک تو معاملہ ٹھیک رہا لیکن کردش ورکرز پارٹی کی ہدائت پر YPGنے شمال اور شمال مشرقی شام سے ترک فوج کی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ شمال مغرب میں قمشلی کے مقام سے بھی ترک فوج پر حملوں کی اطلاعات ملیں۔ ترک عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ قمشلی پر حملے کیلئے YPG کو عراق سے کمک آئی تھی۔ اب ایران کیلئے ترکیہ اسکے دوست شام کادشمن تھا اور ا نقرہ نے تہران کو اپنے دشمن YPGکا دوست گردانا۔

سعودی، ایران اور شام کشیدگی میں کمی آنے پر شمالی شام میں عسکری سرگرمیاں سرد پڑیں اور ترک سرحد پر دراندازی کا سلسلہ رک گیا۔ مفاہمت کا سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے ترکیہ نے ایران سے تعلقات بہتر بنالئے جنکا پہلےبھی کوئی براہ راست تصادم نہ تھا بلکہ ترکیہ کی طرح  ایران کو بھی PKKدہشت گردی کا سامنا ہے۔ جناب ایردوان نے مصر سے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا اور جولائی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ ترکیہ نے اب تک اخوان کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے نہ تعلقات بحال کرنے کیلئے مصر نے ایسی کوئی شرط عائد کی۔ تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اخوان سے محبت پر وطن کا مفاد غالب آگیا۔ دوسری طرف اسلامی تحریک سے دیرینہ وابستگی اور مقصد سے جناب ایردان کے اخلاص پر شبہہ بھی مناسب نہیں۔

اب آتے ہیں مجوزہ ترک ، ایران اور سعودی اقتصادی اتحاد کی طرف

ستمبر کے پہلے ہفتے ترک وزیرخارجہ حاکن فدان (Hakan Fidan) ایران کے دورے پر آئے۔ تہران آمد پر انکی غیر معمولی آوبھگت اور ایرانی میزبان حسین امیرعبداللہیان کے پرجوش انداز سے اسرائیل پریشان اور امریکہ اندیشہ ہائےدوردراز میں مبتلا ہوگیا۔ گرمجو شی کے ایسے ہی مناطر سعودی وزیرخاجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے دورہ ایران پر نظر آئے تھے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ایرانی و سعودی اہلکاروں کے مابین مختلف سطح پر بات چیت جاری ہے اور دفاع سمیت کئی شعبوں میں باہمی تعاون کے راستے تلاش کئے جارہے ہیں۔اسی نوعیت کی بات چیت ترکی اور ایران کے درمیان بھی چل رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر نظر آنے والی یہ پیش رفت امن عالم اور علاقے کے عوام کیلئے تو یقیناً امید افزا ہیں لیکن 'لڑاو اور قبضہ برقرار رکھو' کے اصول پر کاربندقوتوں کیلئے دوستی و ہم آہنگی کے سندیسے تشویشناک ہیں۔

ایران، سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پس پردہ سرگوشیوں اور ملاقانوں پر امریکہ اور اسرائیلی وزارت خارجہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگست کے اغاز سے ایران، سعودی عرب اور ترکیہ اتحاد کا 'خدشہ' ظاہر کیا جارہا تھا۔عرب و عجم سیاست پر نظر رکھنے والے غیرجانب دار سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ تینوں ممالک اب یہ تو سمجھ چکے ہیں کہ 'خردمندو! خرد مندی نہیں باہم دِگر لڑنا' لیکن دیرپا اتحاد میں ابھی وقت لگے گا۔

مشرق وسطیٰ کے سیاسی پنڈت علاقائی سیاست کی نئی صورت گری پر تجزئے، تبصرے اور تحفظات سے مزین محتاط پیشن گوئیوں میں مصروف تھے کہ جناب حسین امیرعبداللہیان نے تہران میں سعودی، ترک اور ایران کے سہ فریقی اقتصادی اجلاس کا ذکر کردیا جو سفارتی ماہرین کے خیال میں ایک 'ڈھیلے ڈھالے'اتحاد کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔

اسی مشترکہ پریس کانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ حالیہ ملاقات میں ترکیہ و ایران کے درمیان تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے پر بات ہوئی۔ اسرائیل و امریکہ کے دفاعی ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ تہران و انقرہ ڈرون ٹیکنالوجی پر مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ روس یوکرین جنگ میں ایرانی و ترک ڈرون اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ روسی فضائیہ یوکرینی تنصیبات پر حملوں کیلئے ایران کے شاہد ڈرون استعمال کررہی ہے جبکہ یوکرین نے ترک ساختہ Bayraktar TB2ڈرون سے روس کو خاصہ نقصان پہنچایا ہے۔ ترک ڈرونوں نے آذربائیجان کی جانب سے نگورنوکارباخ جنگ میں آرمینیا پر فیصلہ کن ضرب لگائی تھی۔

ایران ترک قربت کا انکشاف فیس بک کی مالک میٹا کمپنی Meta نے بھی کیا ہے، حال ہی میں میٹا نے نے ایران اور ترکی کے کئی نیٹ ورکس کی ایسی سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے جنھیں مربوط غیر مستند طرز عمل یا Coordinated Inauthentic Behavior(CIB)کہا جاتا ہے، یعنی ایسی ویب سائٹس یا صفحات (Pages) جنھیں حکومتی کہانیاں پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میٹا کا کہنا ہے کہ کمپنی نے 'مربوط غیر مستند رویے کی بنا پر (ترکیہ اور ایران کے) 22 فیس بک اکاؤنٹس، 21 صٖفحات) اور انستا گرام کے 7 اکاؤنٹس کو حذف کردیا ہے۔

مجوزہ سہ فریقی اتحاد تادم تحریر ابھی نشستند و گفتند کے مرحلے تک بھی نہیں آیا اسلئے اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن ترکیہ، سعودی عرب اور ایران تینوں نے تصادم و مزاحمت کے بجائے تعاون و مفاہمت کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ سہ فریقی اقتصادی اتحاد کی وسط ایشیا تک وسعت بھی خارج از امکا ن نہیں کہ یہاں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) پہلے سے موجودہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی سمیت وسط ایشیا کے دس ممالک پر مشتمل  یہ تنظیم 1964 میں قائم ہونے والے علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD)کا تسلسل ہے۔روس اور چین بھی اس اقتصادی اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں۔

 جی 20 کی دلی سربراہی کانفرنس میں امریکہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اورہندوستان نے مشرقی ایشیا کو مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ سے ملانے کیلئے  بحری وبری راہداری کی تعمیر کے لئے مفاہمت ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ اس اعلان کے بعد علاقے سے چین کی دلچسپی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مشرقی ایشیا یورپ راہداری دراصل چین کے Belt & Road Initiative (BRI) کا جواب ہے۔ اس سلسلہ میں کاشغر تا گوادر  چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)منصوبہ معمولی رکاوٹوں کے باوجود جزوی تکمیل کا ہدف حاصل کرچکا ہے۔ مشرقی ایشیا یورپ راہداری میں قباحت یہ ہے کہ بھارت کی اسکے مشرقی پڑوسی سے غیر معمولی کشیدگی کی بنا پر زمینی راستہ اختیار کرناممکن نہیں لہٰذا یہ شاہراہ بحری راستے سے ہندوستان کو سعودی عرب سے ملائے گی جبکہ سی پیک کو توسیع دیکر  ایران و عراق سے ہوتے ہوئے ریل اور زمینی شاہراہ کے ذریعے  سعودی عرب پہنچا جاسکتا ہے۔

 

ترکیہ، سعودی عرب، ایران اتحاد یا مفاہمت، امریکہ و اسرائیل کے لئے شائد اچھی خبر نہ ہو لیکن غیر ضروری کشیدگی ختم ہوجانے کی صورت میں اس سے علاقے کے عوام کو بہت فائدہ پینچے گا۔ حالات کا جائزہ لینے اور سعودی عرب کااعتماد بحال کرنے کیلئے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کیلئے صدربائیڈن کے خصوصی ایلچی بیرٹ مک گرک Brett McGurkبہت جلد سعودی عرب آرہے ہیں،

 ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 ستمبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 ستمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 15 ستمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 ستنبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment