اسرائیل سے تعلقات ۔۔۔ مسلم ممالک کے قائدین اور
عوام کی سمت مختلف
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار!!
اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات
پر لیبیا کی وزیر خارجہ ڈاکٹر نجلاء محمد المنقوش
معطل کر دی گئیں۔ 27 اگست کو وزیرخارجہ ایلی کوہن نے سماجی ابلاغِ عامہ پر المنقوش صاحبہ سے اٹلی میں
ملاقات کا انکشاف کیا تھا۔ ایلی کوہن نے
ملاقات کو "تاریخی" اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تشکیل میں
"پہلا قدم" قرار دیا ۔ گفتگو کے دوران لیبیا میں عبرانی نوادرات اور مذہبی اہمیت کے مقامات کے تحفظ پر تبادلہ
خیال کیاگیا۔روم میں ہونے والی اس ملاقات کا اہتمام
اطالوی وزیرخارجہ انتونیو تیجانی (Ontonio
Tajani) نے کیا تھا، ستر برس کے قدامت پسند تیجانی ا
اہم اتحادی ہونے کے ناطے وزیراعظم جارجیا میلونی کے بہت قریب ہیں۔
اس خبر پر لیبیا میں سخت
اشتعال پھیلا اور وزیراعظم عبدالحميد محمد الدبيبہ نے وزیر خارجہ کو معطل کرکے
تحقیقات کا حکم دے دیا۔نجلا صاحبہ نے ملاقات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی تقریب
میں سرِ راہ سلام کلام کو جناب کوہن نے ملاقات سمجھ کر بیان جاری کردیا۔ کہا جارہا
ہے کہ نجلا منقوش فرار ہوکر ترکیہ چلی گئی ہیں۔
اسلامی دنیا خاص طور سے
عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم
کرانے کی مہم کا آغاز 2020میں ہوا جب سابق صدر ترمپ کو صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک
پارٹی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا۔ دوسال پہلے ہونے والے وسط مدتی انتخابات
میں کانگریس (پارلیمان ) پر سے انکی برتری
ختم ہوچکی تھی اور رائے عامہ کے اکثر
جائزوں میں ڈیموکریٹک کا پلہ بھاری نظر آرہا تھا۔
امریکی انتخابات میں اسرائیلی ترغیب
کاروں (Lobbyists)کا کردار
بہت اہم بلکہ کسی حد تک فیصلہ کن ہوتا ہے، چنانچہ اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے
کیلئے صدر ٹرمپ نے عرب و مسلم اکثریتی ممالک پر زور دیا کہ وہ صیہونی ریاست کو
تسلیم کرلیں۔ دامادِ اول جیررڈ کشنر اس مہم کے روحِ رواں تھے۔ ملاقاتوں اور مشورے کے بعد 28 جنوری 2020 کو 181 صفحات پر مشتمل دستاویز جاری ہوئی
جس میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی
ضمانت دی گئی تھی۔ ساتھ ہی اعدادوشمار سے ثابت کیا گیا امن کے بعد غربِ اردن اور
غزہ میں جس پیمانے پر سرمایہ کاری ہوگی اسکے نتیجے میں سارا فلسطین، دورِ حضرت داودؑ و سلیمانؑ کی طرح فردوس
بر روئے زمیں کی شکل اختیار کر لے گا۔ جناب ٹرمپ نے اپنے دامادکی اس تصنیف کو 'ڈیل آف دی سنچری'
قراردیا۔
تاہم مجوزہ معاہدے کے تجزئے سے پتہ چلا کہ اسکے تحت سربراہِ فلسطین کے اختیارات مقبوضہ
فلسطینی علاقے کے کسی رئیسِ شہر (Mayor)سے بھی کم ہونگے۔ ستم ظریفی کہ اس 'عظیم الشان' دستاویز کی تدوین میں فلسطینیوں
کو شریک مشورہ کرنا تو دور کی بات اعلان سے پہلے انھیں اعتماد
میں بھی نہیں لیا گیا۔توقع کے عین مطابق فلسطینیوں نے تجویز
مسترد کردی۔ مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس کا کہنا تھا کہ تجویز پر غور تو دور کی بات وہ
متعفن کچرے کے اس ڈھیر کو ردی کی ٹوکری
میں بھی جگہ دینے کو تیار نہیں۔
فلسطینیوں کے اس صاف انکار پر جیرارڈ کشنر نے عرب و اسرائیل
امن معاہدے سے فلسطینیوں کو الگ کردینے کی مہم شروع کی جسے معاہدہ ابراہیمؑ کا نام
دیا گیا یعنی حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تینوں مذاہب کے ماننے والوں کا عہدِ امن۔ یہ
مہم کامیاب رہی اور سب سے پہلے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جسکے
کچھ ہی دن بعد بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کردیا۔اس
معاہدے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں
فلسطینی ریاست یا اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس کی وضاحت
کرتے ہوئےصدر ٹرمپ کی موجودگی میں امریکہ کے داماد اول نے کہا کہ معاہدہ ابراہیمؑ
کے بعد عرب و مسلم ممالک فلسطینی ترجیحات سے بالاتر ہوکر اپنے قومی مفاد کے مطابق
فیصلے کررہے ہیں۔ گویا جیررڈ کشنرنے عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین
کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکال دیا۔
سعودی
ولی عہد محمد بن سلمان (MBS)سے تفصیلی ملاقاتوں کے نتیجے میں جیررڈ کشنر
پُراعتماد تھے کہ جلد ہی سعودی عرب، کوئت، عُمان اور قطر بھی اسرائیل کو تسلیم
کرلینگے۔نجی گفتگو میں داماد اول نے الجز
ائر، تیونس، لیبیا اور سوڈان کی جانب سے بھی مثبت اشاروں کا ذکر کیا۔ غیر عرب
ممالک میں انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ملائیشیا
اور پاکستان پر ڈورے ڈالے گئے۔ واشنگٹن کے صحافتی و سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ اس
معاملے میں پاکستان کے سابق وزیراعظم
عمران خان کا جواب بڑا دوٹوک تھا جنھوں نے پیغام رسانوں سے دامادجی کو جوابی سندیسہ بھجوایا کہ فلسطینیوں سے بانی پاکستان محمد علی جناح نے جو وعدہ کیا تھا ،
انکی حکومت اس عہد سے روگردانی کا تصور
بھی نہیں کرسکتی۔ مفتی اعظم فلسطین حضرت
امین الحسینی (ر)کے نام پیغام میں قائد اعظم نے کہا تھاکہ جب تک فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق انکی ایک
ایسی آزاد و خودمختار ریابیت قائم نہیں ہوجاتی جسکا دارالحکومت القدس شریف ہو،
پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسوقت
سے پاکستانی پاسپورٹ پر درج ہے کہ 'یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سواتمام ممالک
کیلئے معتبر ہے'
اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے معاملے میں سعودی عرب کا رویہ
امریکیوں کیلئے 'مبہم' ہے۔ جیرڈ کشنر اور امریکی وزیرخارجہ کی کئی ملاقاتوں اور صدر
ٹرمپ کی سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ٹیلی فون پر گفتگو کے باوجود ریاض تل ابیب سے
سفارتی تعلقات قائم کرنے پر تیار نہیں۔ اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) کے مطابق سعودہ ولی عہد کے قریبی
دوست و معروف سرمایہ کار و فلمسازجناب حائم شعبان نےانکشاف کیا کہ MBS اسرائیل کو تسلیم
کرنے سے سخت خوفزدہ ہیں۔ 76 سالہ مصری نژاد امریکی، حائم شعبان راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔ انھوں نے اکتوبر 2020 میں جو بائیڈن کے ایک انتخابی جلسے
سے مجازی (Virtual)خطاب کرتے ہوئے کہاکہ
ان سے گفتگو میں MBS نے خطرہ ظاہر کیا تھا کہ اگر سعودی عرب نے اسرائیل کے تسلیم کیا تو ایرانی و قطری ایجنٹ
بلکہ شائد سعودی ہی اپنے ولی عہد کو قتل کردیں۔
اسی کیساتھ افریقی عرب دنیا میں اسرائیل کیلئے نئے دوستوں
کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ سوڈان، مراکش اور لیبیا نرم چارہ محسوس ہوئے کہ یہ تینوں
ممالک شدید مالی و سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ مراکش نے دسمبر 2020 اور سوڈان نے جنوری 2021کو اسرائیل سے
معمول کے سفارتی تعلقات بحال یا normalizeکرلئے۔ انعام کے طور پر سوڈان کے ماتھے سے 'دہشت گرد' کا
ٹیکہ صاف کردینےکیساتھ متنازعہ مغربی صحارا پر مراکش کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ اقوام
متحدہ نے 1991 میں فیصلہ کیا تھا کہ مغربی صحارا کی قسمت کا فیصلہ شفاف استصوابِ
رائے سے ہوگا لیکن قرارداد کشمیر کی طرح قرارداد مغربی صحارا پر ابھی تک عمل درآمد
نہیں ہوا۔
لیبیا اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کئی سال سے جاری ہے۔ حفتر ملیشیا اور وفاقی حکومت کے
درمیان کشیدگی کا بھی اسرائیل بھرپور فائدہ اٹھارہاہے۔ وفاقی حکومت کو دباو میں
رکھنے کیلئے اسرائیل نے حفتر ملیشیا سے
رابطوں کا آغاز کیا۔
- نومبر 2021 میں جنگجو رہنما خلیفہ حفتر کے صاحبزادے صدام
حفتر کا نجی طیارہ تل ابیب کے بن
گوریان ائر پورٹ پر اترتے دیکھا گیا۔مزید تفصیلات کے مطابق اس ملاقات میں
اسرائیل نے مبینہ طور پر حفتر ملیشیا کو اسلحہ دینے کا وعدہ کیا۔ حوالہ الارض
Haaretz
- جنوری 2022 میں وزیراعظم عبدالحميد
محمد الدبيبہ نے اردن میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنے (David
Bernea)سے ملاقات کی
جسکا اہتمام اردنی وزارت خارجہ نے کیا تھا۔ جناب الدبيبہ نے ملاقات کی تردید کی ہے۔ حوالہ المونیتور
Al-Monitor
- لیبیائی وزارت خارجہ کے حکام نے شناخت ظاہر
نہ کرنے کی شرط پر المونیتور کو بتایا کہ اسرائیل اور لیبیا کے درمیان بات
چیت کیلئے امریکی حکومت سہولت کاری فراہم کررہی ہے۔
- اس سال جنوری میں امریکی سی آےئی اے کے ڈائریکٹر
ولیم برنس نے طرابلس میں لیبیا کے وزیرازعظم سے ملاقات کی جس میں اسرائیل لیبیا normalizationکی تفصیلات طئے
کی گئیں۔ حوالہ: ایسوسی ایٹیڈ پریس
حالیہ ملاقات کے بارے میں لیبیا کے حکام نے حد درجہ رازداری
کا مظاہرہ کیا لیکن بقول اسرائیلی قائدِ حزبِ اختلاف ییر
لیپڈ، 'شیخی بھگارنے کے
ہونکے میں اسرائیلی وزیرخارجہ نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی ماردی'۔ ییر لیپڈ کا کہنا ہے کہ جناب کوہن کے بچگانہ روئے نے اسرائیل اور
وزیرخارجہ منقوش کو دنیا کے سامنے شرمندہ کردیا۔
اسرائیلی وزیرخارجہ کے
انکشاف پر چچا سام بھی سخت ناراض ہیں۔ عبرانی چینل 13 کے مطابق اسرائیل میں امریکہ
کی قائم مقام سفیر محترمہ اسٹیفنی ہلیلٹ
Stephanie Hallett نے ایلن کوہن تک امریکی
وزارت خارجہ کا پیغام پہنچایا جس میں کہا گیا کہ ابتدائی ملاقات کی خبر جاری کرکے
اسرائیل نے لیبیا سے ملاقات کے تمام غیر رسمی راستے بند کردئے ہیں۔
لیبیا میں عام لوگ اس خبر پر
سخت مشتعل ہیں۔فلسطینی پرچم لہراتے ہزاروں افراد نے طرابلس میں وزارت خارجہ اور
ایوان وزیراعظم پر مظاہرہ کیا اور اسرائیلی پرچم جلائے۔ مظاہرین اس بات پر سخت
مشتعل تھے کہ زیر تفتیش و تحقیق وزیرخارجہ کو ملک سے جانے کی اجازت کیوں دی گئی۔لیبیا
کی برسراَقتدار عبوری کونسل کے سربراہ اور اخوانی فکر سے وابستہ انصاف و تعمیر
پارٹی (JCP)کے قائد خالد المصری نے کہا کہ اس ملاقات سے حکومت نے ممنوعہ سرخ
لکیر عبور کرلی ہے۔
عوام کا غصہ کم کرنے کیلئے
لیبیا کے وزیراعظم نے قوم سے خصوصی خطاب کیا جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تردید
کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو یقین دلایاکہ "ہم اسرائیل کیساتھ کسی بھی قسم کے
نارملائزیشن کو مسترد کرنے کا اعادہ کرتے ہیں۔بدقسمتی سے حکومت میں شامل 'ایک فرد'
نے آزادانہ طور پر یہ کام کیا' ۔اس موقع
پر انھوں نے لیبیا زندہ باد، فلسطین زندہ
باد اور فلسطین کاز زندہ باد کے نعرے
لگائے۔
لیبیا میں شدید ردعمل کا اثر
دوسرے عرنب ملکوں میں بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے سربیا، ایران، عراق اور ترکیہ کیلئے تیونسی سفرا
کو اسنادِ سفارت عطا کرنے کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل سے پہلے
اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے امکان کا مسترد کردیا۔انھوں نے اپنے سفارت کاروں سے کہا کہ 'بطور سفیر اپنا
فرض ادا کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کو کبھی نہ بھولیں، جو "تمام اقوام کا
مرکزی مسئلہ" ہے۔ جناب قیس نے یروشلم کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کا
دارالحکومت بنانے، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور 'نہر تا بحر' خودمختار فلسطین کی وکالت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ
اسرائیل کے لئے "نارملائزیشن" کا لفظ ہماری کتابوں میں موجود نہیں۔
لیبیائی عوام کے غیر معمولی
ردعمل سے سعودی عرب میں بھی بیچینی ہے جہاں مبینہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے
معاملات حتمی مراحل میں ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 ستمبر 2023
ہفت روزہ دعوت دہلی 8 ستمبر 2023
روزنامہ امت کراچی 8 ستمبر 2023
ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 ستمبر 2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment