Friday, September 1, 2023

امریکہ میں امیدواروں کے درمیا ن مباحثے سے 2024 کی انتخابی مہم کا آغاز

 

امریکہ میں امیدواروں کے درمیا ن مباحثے سے 2024 کی انتخابی مہم کا آغاز

بدھ 23 اگست کو ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کے خواہشمندوں کے درمیان مباحثے سے 2024 کی انتخابی مہم کا آغاز ہوگیا۔ امریکہ میں عام انتخابات کیلئے تاریخیں نہیں دی جاتیں بلکہ صدارتی انتخابات  چار پر تقسیم ہونے والے سال  کے نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتے ہیں۔ چانچہ اس بار صدارتی انتخابات 5 نومبر 2024 کو ہونگے۔ ایک اور اہم بات کہ امریکہ میں کوئی مرکزی الیکشن کمیشن نہیں اور انتخابات کا انتظام و انصرام ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

پانچ نومبر کو  ایوانِ نمائندگان  (قومی اسمبلی) کی جملہ 435نشستوں کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائنگے، سینیٹ کی 33 نشستوں، 11امریکی ریاستوں  کے علاوہ  دو امریکی کالونیوں، سمووا Samoaاور پورتو ریگو کے گورنروں کا چناو بھی اسی  دن ہوگا۔ یہاں صدر کی مدتِ چار سال ہے جبکہ ایوان نمائندگان  کے ارکان 2 برس اور ارکانِ سینیٹ   6 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔

 جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں امریکہ میں امیدواروں کو  ٹکٹ کا اجرا پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ سے نہیں ہوتا بلکہ نامزدگی کیلئے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں یعنی امیدواروں کو ٹکٹ  کیلئےعام انتخابات کی  طرح باہم  مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ پرائمری انتخابات میں عام لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور پارٹی رکنیت کیلئے ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنابہت کافی ہے۔ بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔پرائمری کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

اس وقت پارٹی ٹکٹ کیلئے مقابلہ درپیش ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں صدر بائیڈن کے مقابلے میں آنجہائی سییٹر رابرٹ کنیڈی کے صاحبزادے اور صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے  رابرٹ کینیڈی جونئیر کے علاوہ ایک دانشور محترمہ میرین ولیمسن نے پارٹی ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی ہے لیکن فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ جناب بائیڈن کو نامزدگی میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا ُڑیگا۔

ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کیلئے سابق صدر ٹر مپ سمیت 16 امیدوار میدان میں ہیں۔  بدھ کے مباحثے  کیلئے اُن  9 امیدواروں کو  دعوت دی گئی تھی  جنکے انتخابی فنڈ میں امریکی شہریوں نے کم ازکم 40 ہزار ڈالر کے عطیات دئے ہیں  اور رائے عامہ کے جائزوں میں کم از کم ایک  فیصڈ ووٹروں نے انکی حٓمائت کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔سابق صدر ٹرمپ نے مبا حثے سے معذرت کرلی تھی۔ جناب ٹرمپ نے موقف اختیار کیا کہ امریکی عوام  نہ صرف انھیں اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ وہ انکی کارکردگی بھی دیکھ چکے ہیں اور سب سے اہم بات کہ  انکے پاس  'غیر اہم' لوگوں سے مباحثہ کرنی فرصت نہیں۔ دوسرے دن  صدر ٹرمپ کی  ریاست جارجیا کی عدالت میں پیشی تھی۔ جہا ں ا ن پر  2020 کے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی سازش اور  متعلقہ افسروں کو ڈرانے دھمکانے کے 13 الزامات پر مشتمل فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی کی عظیم الشان رونالڈ ریگن لائبریری میں ہونے والے مباحثے اہتمام فاکس FOXٹیلی ویژن نے کیا تھا جس میں فلورڈا کے گورنر ران ڈی سینٹس (Rob DeSantis)، سابق نائب صدر مائک پینس، جنوبی کیرولینا کی سابق گورنر نمرتا نکی رندھاوا المعروف نکی ہیلی، جنوبی کیرولینیا کے سیاہ فام سینیٹر ٹِم اسکاٹ، ریاست نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی (Chris Christie)، شمالی ڈکوٹا کے گورنر ڈَگ برگم (Doug Burgum)، ریاست آرکنسا کے سابق گورنر اسا ہچنسن (Asa Hutchinson) کے  علاوہ مشہور کاروباری شخصیت ووک راما سوامی نے شرکت کی۔ گویا اسٹیج پر ایک خاتون، دوہندنژاد، تین رنگدار، دو گورنر، تین سابق گورنر اور ایک نائب صدر کھڑٖے تھے۔

حسبِ روائت  تمام امیدواروں نے گفتگو کا آغاز لطیف فقروں سے کیا۔ نکی ہیلی نے سابق برطانوی وزیر اعظم محترمہ مارگریٹ تھیچر کا یہ جملہ دہرایا کہ   زبانی جمع خرچ  مطلوب ہے تو مرد کو لاو،  لیکن اگر ٹھوس کام چاہئے تو  خاتون  کو آگے بڑھاو

سیاست میں نووارد ووک راماسوامی نے کہا 'آپ  جاننا چاہتے ہونگے کہ  سینئر سیاست دانوں کے جھرمٹ میں یہ دبلا، سانولا سا نوجوان کون ہے تو سنیں کہ میرے والدین  جب کیرالہ سے امریکہ آئے تو انکی جیب خالی تھی اور آج انکا بیٹا اربوں ڈالر کا کاروبار کررہاہے۔ ایسا امریکہ ہی میں ممکن ہے، یہ ہے امریکی خواب کی حسین تعبیر۔ اسکے بعد انھوں نے اپنے  دس نکاتی 'سیاسی عقیدے' (10 commandments)  کا اعلان کیا۔

خدا ایک حقیقت ہے، انسانوں کی صرف دوجنسیں ہیں،  انسانی  نشوونما کیلئے تیل اور گیس ضروری ہے ،  جوابی نسل پرستی  بھی نسل پرستی کی ایک شکل  ہے، کھلی سرحد کوئی سرحد نہیں،  بچوں کی تعلیم کا تعین والدین کی ذمہ داری ہے، خاندان کی بنیادی اکائی مرکزیت ہے، سرمایہ داارنہ نظام ہی غربت سے نجات کا راستہ ہے اور امریکی حکومت کی صرف تین شاخیں ہیں۔ ان نکات کے تجزئے کی ضرورت نہیں کہ 38 سالہ ووک  راماسوامی نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا  قدامت پسند نظریاتی ایجنڈا پیش کردیا

گورنر ڈگ برگم نے کہا میرا تعلق جس شہر سے ہے اسکی کل آبادی 300 سے بھی کم ہے اسلئے آج اتنے بڑے اسٹیج پر جہاں ابلاغ عامہ کے طفیل کروڑوں امریکی انھیں دیکھ رہے ہیں، انکی کیفیت کچھ عجیب سی ہے۔

مباحثے سے غیر حاضر رہنے کے باوجود ڈانلڈ ٹرمپ  کیلئے  سامعین کا جوش وخروش بہت واضح تھا۔ اجب میزبان نے  پوچھا کہ سابق صدر ٹرمپ پر چار مقدمات ہیں۔ دوسری طرف وہ ریپبلکن پارٹی میں  مقبول بھی ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی روائت ہے کہ نامزدگی حاصل کرنے والے امیداور کی پوری جماعت یکسو ہوکر حمائت کرتی ہے۔ اگر ڈانلڈ ٹرمپ ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے تو کیا آپ سب لوگ مقدمے کے باوجود  عام انتخابات میں انکی حمائت کرینگے؟  جواب میں آٹھ میں سے چھ افراد نے ہاتھ بلند کردئے اور ووک راماسوامی جذباتی انداز میں بولے 'یقیناً، اسلئے کہ ڈانلڈ ٹرمپ اس صدی کے سب سے موثر امریکی صدر تھے جو وز ارت انصاف کے انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سینیٹر ٹم اسکاٹ نے بھی مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب  ہوگئے تو حلف اٹھاتے ہی اٹارنی جنرل کو برطرف کرینگے۔ جب کرس کرسٹی نے کہا کہ صدر کیلئے اجلا کردار ضروری ہے تو حاضرین  کی جانب سے  سخت ردعمل سامنے آیا اور ہوٹنگ اتنی شدید تھی کہ میزبان کو مداخلت کرنی پڑی۔

اسقاط، دفاع، اسرائیل سے تعلقات، یوکرین جنگ، LGBTاور غیر قانونی تارکین وطن بحث کا موضوع رہا۔ تارکین وطن کے معاملے میں تمام کے تمام افراد ایک سے بڑھ کر ایک سخت موقف پیش کرتے رہے۔ اکثر امیدوار میکسیکو کی سرحد پر نگرانی سخت کرنے کیلئے فوج تعینات کرنے کے حق میں تھے۔ راماسوامی صاحب تو یہاں تک کہہ گئے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں تعینات امریکی فوج کو واپس بلاکر میکسیکو کی سرحد پر لگادیا جائے اور   بقراطی چھانٹی کہ open border is no border۔سچ ہے کہ  آدمی بے حیا ہوجائے تو جو چاہے کہتا پھرے۔ سات سمندر پار سے انکے والدین امریکہ آئے تو درست لیکن دہلیز پر موجود میکسیکو کے لوگوں کو امریکہ آنے سے روکنے کیلئے مہلک فوجی قوت کا استعمال بھی غلط نہیں۔

جناب جو بائیڈن اور ڈانلڈ ٹرمپ کی عمر بھی زیربحث آئی۔  نئے صدر کی حلف برداری کے دن یعنی 20 جنوری 2025 کو صدربائیڈن کی عمر 83 سال اور ڈانلڈ ٹڑمپ 79 برس کے ہونگے۔ میزبان نے سوال کیا کہ کیا ان دونوں کا دماغی معائنہ ہونا چاہئے تو سابق نائب صدر مائک پینس نے مسکراتے ہوئے کہا'میرا خیال ہے کہ  واشنگٹن کے سارےاہلکاروں کو معائنہ ہونا چاہئے۔ساتھ ہی فرمایا امریکی صدر نہ بہت عمر رسیدہ درست نہ  کھلنڈرا نوجوان بلکہ  'مناسب عمر ' کا تجربہ کار فرد ہوناچاہے  کہ  ایوان صدر سیکھنے کی نہیں  کچھ کر دکھانے کی جگہ ہے۔ اس معاملے میں محترمہ نکی ہیلی کا رویہ ہمیں  ناشائستہ لگا۔ وہ صدر بائیڈن کی عمر کو مسلسل نشانہ بنارہی ہیں،  بلکہ مباحثے کے بعد ABCٹیلی ویژن پر باتیں کرتے ہوئے  انھوں نے کہا اگر جوبائیڈن 2024 کا انتخاب جیت گئے تو حلف اٹھاتے وقت انکی عمر 83 سال کے قریب ہوگی اور وہ کسی صورت اپنی چار سالہ مدت مکمل نہیں کر پائینگے۔ یہ سن  کر ہمیں  جناب منور حسن (ر) کا یہ جملہ یاد آیا کہ 'موت کا تعلق نہ عمر سے ہے اور نہ صحت سے، یہ بس ہمارے رب کے حکم سے مشروط ہے'

مباحثے میں سارا زور اس بات پرتھا کہ  ٹکٹ مل جانے پر کون صدر بائیڈن کو عام انتخابات میں ہراسکتا ہے۔ سابق نائب صدر پینس کا دعویٰ تھا کہ وہ گورنر، رکن کانگریس اور اپنے خیال میں امریکی تاریخ کی سب سے شاندار( ٹرمپ )انتظامیہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں لہذا انکے لئے صدر بائیڈن کو ہرانا کچھ مشکل نہیں۔ کچھ ایساہی  دعویٰ نکی ہیلی اور سینیٹر ٹِم اسکاٹ نے کیا، جبکہ نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی نے بہت فخر سے کہا کہ نیوجرسی ڈیموکیٹک پارٹی کا گڑھ ہے جہاں میں  نے برسراقتدار ڈیموکریٹ گورنر John Corzineکو شکست دی ۔ اس اعتبار سے سب کی طنزیہ نظریں سووک راماسوامی پر تھیں جو میدان کے نئے کھلاڑی ہیں۔ مائک پینس نے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا 'دنیا میں سب سے مشکل کام امریکی صدارت ہے جسکے لئے تجربہ چاہیے، یہ کسی rookie (نئے رنگروٹ) کے بس کی بات نہیں۔ جس پر راماسوامی جی تڑخ کر بولے مجھے سرکاری فنڈ اڑانے کا نہیں لیکن محنت مشقت سے روزی کمانے کا تجربہ ہے اور  امریکی عوام کیلئے روزگار کے باعزت مواقع پیدا کرنا میری ترجیح ہوگی کہ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا سرمایہ ہے۔

مباحثے کے بعد جاری ہونے والے جائزے میں ریپبلکن پارٹی کے  44 فیصد حامیوں نے جناب ٹرمپ کی حمائت کا عندیہ دیا جبکہ 22 فیصد لوگ گورنر ران دی سینٹس کے حامی ہیں۔یعنی چار مقدمات اور 131 سنگین الزامات کے باوجود ڈانلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں بہت مقبول ہیں۔ تاہم  انتخابات میں پندرہ ماہ باقی ہیں گویا ابھی پلِ سیاست کے نیچے سے بہت ساپانی بہنا ہے۔

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment