مسلم نوجوانوں کی مردانہ
وجاہت
ہندوستانی انتہاپسندوں کو
شکائت ہے کہ گوشت کھانے والے سرخ و سفید تنومند نوجوان ہندو خواتین کے دل اور دھرم
دونوں جیت رہے ہیں۔
کچھ ایسی ہی شکائت
اسرائیلیوں کو بھی پے اور پھر یہاں معاملہ زیادہ آسان ہے کہ اہل کتاب ہونے کی بنا
پر دل دے دینا ہی بہت ہے دھرم اپنا اپنا رہ سکتا ہے۔
پہلے معاملہ صرف فلسطینی
پناہ گزین لڑکوں اور حسینانِ اسرائیل کے درمیان تھا لیکن اب جیلوں میں فلسطینی
قیدیوں پر نظر رکھنے والی محافظ خواتین بھی متاثر ہورہی ہیں۔
آج انکشاف ہوا کہ الفتح سے
تعلق رکھنے والے ایک قیدی کی وجاہت اور عمدہ اخلاق سے جیل کی کئی خواتین گارڈ
متاثر تھیں ، جبکہ ایک لڑٖکی نے جینے مرنے کی قسم بھی کھالی۔ یہ فلسطینی، قتل کے
الزام میں سزا کاٹ رہا ہے۔ گرفتار نوجوان کے دام محبت میں آئی گارڈ نے اسے ایک
موبائل فون بھی دیدیا تھا جس پر یہ دونوں اور خاتون سپاہی کی سہیلیاں اس قیدی سے گپیں
لڑاتیں اور تصاویر کا تبادلہ کرتی تھیِں
یہ خبر نشر ہوتے ہی اندرونی
سلامتی کے وزیر المعروف پولیس منسٹر اتامر بن گوئر اور قید خانوں کی کمانڈر محترمہ
کیٹی پیری نے تمام خواتین گارڈز کو ان جیلوں سے ہتالینے کا اعلان کردیا جہاں 'دہشت
گرد' رکھے گئے ہیں۔
حوالہ Times of Israel:
معلوم نہیں مرزا غالب کے
کلام کا عبرانی ترجمہ ہوا ہے یا نہیں ورنہ جبری وصل کے اس حکم پر زلیخانِ اسرائیل
اپنے پا بہ زنجیر یوسفِ کو وہاں چھوڑ کر یہ کہتی چلی جاتیں کہ
گرکیاناصح نے ہم کو 'دور' اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ
جائینگے کیا
اب آپ مسعود ابدلی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment