Friday, October 6, 2023

امریکہ میں شدید سیاسی تناو ۔۔ سابق صدر ٹرمپ نے فوج کے کمانڈر کو پھانسی دینے کا عندیہ دیدیا

 

امریکہ میں شدید سیاسی تناو

سابق صدر ٹرمپ نے فوج کے کمانڈر کو پھانسی دینے کا عندیہ دیدیا

امریکہ کے صدارتی انتخابات اگلے نرس  5 نومبر  کو ہونگے،  یعنی ابھی 13 مہینوں سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے لیکن انتخابی مہم بھرپور انداز میں شروع ہوچکی ہے۔عام انتخابات میں امریکیوں کی اکثریت پارٹی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے، لہٰذا اصل میدان پارٹی ٹکٹ کے لئے ہونے والے پرائمری انتخابات میں سجتا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا مقابلہ 15 جنوری کو رہاست Iowaمیں ہوگا اور چار جون کو واشنگٹن پرائمری سے ٹکٹ کیلئے ہونے والے انتخابات کی تکمیل ہوجائیگی۔

ٹکٹ کیلئے  صدربائیڈن کو اپنی  پارٹی کی جانب سے کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں تاہم اندرونِ خانہ صدر کی  پیرانہ سالی پر چہ می گوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کے جارحانہ روئے اور تیزی سے بڑھتی مقبولیت کی بنا پر حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی میں امیدوار تبدیل کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ تبدیلی کی بات  ابھی مدھم لہجے میں ہے جسے سرگوشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا لیکن میدان سیاست میں سرگوشی کے کوٹھے چڑھتے بہت دیر نہیں لگتی۔

رییپلکن پارٹی میٰں صدارتی ٹکٹ کیلئے انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے اور  امیدواروں کے درمیان دو دھواں دھار مباحثے بھی ہوچکے ہیں لیکن یہ دونوں ٹاکرے بن دلہا بارات تھےکہ پارٹی کے مقبول ترین رہنما ڈانلڈ ٹرمپ ان میں شریک نہیں ہوئے۔ جناب ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی عوام انھیں آزماچکے ہیں اسلئے ٹرمپ صاحب کو  اس 'تماشے' میں شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ انھوں نے مباحثے کو Stupid(احمقانہ) قراردیا جو انکے خیال میں جاب انٹرویو ہے۔ رائے عامہ کے جائزو ں میں ریپبلکن پارٹی میں انکی مقبولیت 59 فیصد سے زیادہ اور انکے قریب ترین حریف فلورڈا کے گورنر ران ڈیسنٹس (Ron DeSantis) کی حمائت 16 فیصد ہے۔ باقی امیدوار سات  فیصد سے  بھی کم ہیں۔ قومی سطح پر بھی جناب  ٹرمپ ، صدر بائیڈن سے کافی آگے ہیں۔ حالیہ جائزے میں امریکی صدر  42 اور ڈانلڈ ٹرمپ کو 52 فیصد رائے دہندگان کی حمائت حاصل ہے۔

مباحثوں میں شرکت نہ کرکے جناب ٹرمپ،  پارٹی میں اپنے حریفوں کو غیراہم و غیر ضروری ثابت کرناچاہتےہیں۔ وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ مباحثے دوسری پوزیشن  کیلئے ہیں۔ اسی کیساتھ انکے وکلا نے عوامی خطاب کے دوران انھیں احتیاط سے گفتگو کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ وہ چارمقدمات میں زیر ضمانت ہیں اور انھیں غداری و بدعنوانی سمیت 100 کے قریب سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ وکلا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ بحث و مباحثے میں انکی کسی لغزشِ زبان کو استغاثہ  رائی کا پہاڑ بناسکتا ہے۔

غیرحاضری کے باوجود دونوں مباحثوں پر ڈانلڈ ٹرمپ چھائے رہے۔ نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی کے علاوہ کسی نے ان پر تنقید کی جرات نہیں کی بلکہ شری وویک راماسوامی نے سابق صدر ریگن اور  صدر ٹرمپ  کو امریکی تاریخ کے دوبہترین صدور قراردیا۔ ران ڈی سینٹس نے جناب ٹرمپ کے مباحثے میں شرکت نہ کرنے شکوہ تو کیا لیکن انکا انداز بھی مودبانہ تھا۔ سیاسی منچلوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی نامزدگی تقریباً یقینی ہے اور میدان میں موجود باقی امیدوار اب نائب صدارت کیلئے مہم چلارہے ہیں۔ ضابطے کے تحت بیلٹ پیپر پر نائب صدارت کیلئے ساتھی  کاانتخاب نامزد صدارتی امیدوار کا صوابدیدی حق ہے۔

وکلا کی جانب سے احتیاط کی درخواست کے باوجود صدر ٹرمپ اپنے جارحانہ انداز سے رجوع کرنے کو تیار نہیں۔ 22 ستمبر کو سماجی رابطے کے نجی پلیٹ فارم”Truth Social”پر جناب ٹرمپ نے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کو زبردست تنقید کو نشانہ بنایا۔ انھوں نے لکھا کہ ساری قوم کو اس ہفتے جشن منانا چاہے کہ  اس نااہل و بزدل جرنیل  سے قوم کی جان چھوٹ رہی ہے۔ جنرل ملی یکم اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ دلچسپ بات کہ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے منصب پر 2019 میں انکا تقرر صدر ٹرمپ نے خود کیا تھا

 جناب ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان سے پسپائی کے وقت جنرل ملی نے اربوں ڈالر کا قیمتی اسلحہ وہاں چھوڑدیا۔ سوشل میڈیا پر انھوں نے لکھا کہ  ا'گر فیک نیوز کی رپورٹنگ درست ہے تو یہ شخص دراصل چین کے ساتھ مل کر بیجنگ کو امریکی صدر کی سوچ سے آگاہ  رکھتا تھا۔  یہ اس قدر گھناؤنا عمل ہے کہ پرانے وقتوں میں اس کی سزا موت ہوتی' ۔ جناب ٹرمپ کا خیال ہے کہ جنرل ملی کی اس 'غداری' کے نتیجے میں چین اور امریکہ کے درمیان جنگ ہوسکتی تھی۔جناب ٹرمپ فاکس نیوز کے سوا امریکہ کے  تمام ٹی وی چینلوں کو fake newsکہتے ہیں۔

اس پورے معاملے کا پس منظر کچھ اس طرح  ہے کہ 2020 کے انتخابات میں شکست کو سابق امریکی صدر نے تسلیم نہیں  کیا،  نومنتخب صدر کے حلف اٹھانے تک وہ مبینہ طور پر نتایج کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کام کیلئے انھوں نے اپنے صدارتی اختیارات بھی استعمال کئے۔ اس بنا پر جناب ٹرمپ کے مخالفین کو ڈرہوا کہ کہیں صورتحال کو ڈرامہ خیز بنانے کیلئے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے وہ چین پر فوجی حملہ نہ کروادیں۔ آئین کے تحت جنگ یا کسی بڑی عسکری کاروائی سے  پہلے  کانگریس کی توثیق ضروری ہے لیکن کسی فوری خطرے کے سدباب  کیلئے  دشمن پر قبل از وقت یا Preemptive  حملہ کمانڈر انچیف کا صوابدیدی حق ہے۔

گزشتہ دنوں CBS Newsکے نامہ نگار باب ووڈورڈ (Bob Woodword) اور رابرٹ کوسٹا (Robert Costa) نے اپنی کتاب Peril (خوف) میں انکشاف کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے نتائج  تسلیم نہ کئے جانے پر جنرل ملی نے پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل لی زوچینگ Li Zuocheng کو یقین دلایا کہ امریکہ چین کے خلاف حملہ نہیں کرے گا۔صدر ٹرمپ جنرل صاحب کی اس کوشش کو  سنگین غداری قراردے رہے ہیں، آئین میں جسکی سزا موت ہے۔

جناب ٹرمپ کے اس پیغام پر جنرل ملی کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا اور انھوں نے اسے دھمکی قرارادیتے ہوئے کہا  کہ جناب ٹرمپ کا کوئی انتہاپسند ساتھی انھیں نشانہ بناسکتا ہے۔ جنرل صاحب نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی حفاطت کے لئےخصوصی انتظامات کررہے ہیں۔ جنرل ملی نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ڈانلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بن گئے تو انھیں انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جائیگا۔

اسی دن جناب ڈانلڈ ٹرمپ کے ایک ترجمان نے سماجی رابطے کی ایک سائٹ پر  کہا کہ سابق صدر نے ریاست جنوبی کیرولینا (South Carolina)میں  اسلحے کی  دوکان سے  ایک پستول خریدا ہے۔تھوڑی ہی دیر بعد  جناب ٹرمپ نے پستول خریدنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اسلحے کی  دوکان کا دورہ  امریکی آئین کے تحت اسلحہ رکھنے کے شہری حق کی حمائت کا اظہار تھا اور فورآ ہی وہ پوسٹ بھی ہٹالی گئی۔ جنرل ملی نے اس خبر کو تشویشناک قراردیا۔

دوسرے دن ریاست ایریزونا (Arizona)کی سینیٹر جان مک کین (John McCann)یادگاری لائیبریری میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے صدر ٹرمپ کی سرگرمیوں کو جمہوریت کیلئے  ایک خطرہ قراردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ MAGA تحریک ہماری جمہوریت کے بنیادی عقائد سے متصادم ہے۔ جناب ٹرمپ تبدیلی کے پیغام کو امریکی نشاۃ ثانیہ تحریک یا(MAGA) Make America Great Againکہتے ہیں ۔ اسکا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا 'اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی ریپبلکن پارٹی میگا انتہا پسندوں سے متاثر اور خوفزدہ ہے۔ "انہوں نے خبردار کیا کہ میگا  انتہا پسند ایجنڈے کا نفاذ جمہوری اداروں کی بنیادی ہئیت کو مسخ کردیگا۔ میرے پیشرو کی سیاست  آئین اور شائستگی کے بجائے  انتقام اور عداوت سے عبارت ہے۔ جناب  ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ  وہ صدر کی حیثیت سے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔جنرل ملی کی پھانسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی صٖدر نے کہا  میں نے کسی امریکی صدر یا منتخب نمائندے کو  مذاق میں بھی کبھی ایسا کہتے نہیں سنا۔

 جنرل ملی کو پھانسی اور پستول کی خریداری  کے ذکر نے جناب ٹرمپ کیلئے قانونی مشکلات  پیدا کردی ہیں۔ امریکی قانون کے تحت زیرِضمانت فرد کی  آتشیں اسلحے تک رسائی غیر قانونی ہے کجا یہ کہ وہ خود اسلحہ خریدے، اسی طرح ضمانت پر رہا فرد اگر تشدد کا مرتکب ہویا کسی کو دھمکائے تو ملزم کی ضمانت منسوخ کرکے اسے جیل بھیجا جاسکتا ہے۔سرکاری وکلا نے آنے والے دنوں میں یہ معاملہ عدالت میں زیربحث لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس بات کا امکان تو کم ہے کہ عدالت جناب ٹرمپ کی ضمانت منسوخ کرکے انھیں جیل بھیج دے لیکن حرکت محدود کردینے اور انکی زباں بندی کا حکم  جاری ہوسکتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ وکلا اور خود انکی پارٹی کے کچھ ارکان ریپبلکن پارٹی کی قیادت کو درخواست دے رہے ہیں کہ غداری جیسے سنگین الزامات میں نامزد فرد کو پارٹی ٹکٹ کیلئے  نااہل قرار دے دیاجاے تاہم جناب ٹرمپ کی آسمان سے باتیں کرتی مقبولیت کے تناطر میں پارٹی کی مجلس عاملہ ایسا کرنے کی جرات نہیں کرسکتی اور اگر قیادت یہ ہمت کر بھی لے صدر ٹرمپ عدالت سے حکم امتناعی لے سکتے ہیں۔

قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ امریکہ میں  جماعت اسلامی کی طرح Write-in Ballotکی سہولت بھی موجود ہے۔ یعنی  بیلٹ پیپر پر نامزد امیدواروں کے ناموں کیساتھ ایک  خانہ خالی رکھا جاتا ہے جس میں رائے دہندہ  کو اپنے امیدوار کا نام لکھنے کی اجازت ہے۔ماضی  قریب میں ایسا ہوچکا ہے۔ 2010  کے انتخابات میں  الاسکا سے ریپبلکن پارٹی کی رہنما محترمہ لیسا مرکاوسکی پرائمری انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ انھوں نے عوام سے درخواست کی کہ بیلٹ پیپر پر نام لکھ کر  انھیں ووٹ دیا جائے اور محترمہ نے عام انتخابات میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ یافتگان کو ہرادیا۔ اگر جناب ٹرمپ انتخابات سے پہلے جیل بھیج دئے گئے اور عدالت نے انکانام بیلٹ پیپر سے ہٹانے کی منظوری دیدی تب بھی وہ دوڑ میں پورے عزم سے شریک رہیں گے۔آئین و قانون کی بالادستی اپنی جگہ  لیکن  سابق صدر کی غیر معمولی مقبولیت کی بنا پر عدالت کیلئے  فرمانِ خلق ( مینڈیٹ)  کو نظر انداز کردینا بھی اتنا آسان نہ ہوگا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 اکتونر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 6 اکتوبر 2023

روزنامہ امت کراچی 6 اکتونر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 اکتوبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment