Thursday, July 30, 2020

افغان امن! زلمے خلیل زاد کا اہم دورہ


افغان امن! زلمے خلیل زاد کا اہم دورہ
امریکہ طالبان امن معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے امریکی وزارت خارجہ کے خصوصی نمائندے جناب زلمے خلیل زاد دوبارہ کابل پہنچ گئے۔ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ جناب خلیل زاد صدر ٹرمپ کی خصوصی ہدائت پر کابل آئے ہیں۔امریکی صدر معاہدے کی راہ میں کابل انتطامیہ خاص طور پر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے ایک کے بعد ایک  رکاوٹ پر شدید برہم ہیں۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ نومبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے بین الافغان معاہدہ ہوجائے تاکہ وہ اپنے حامیوں کو فخر سے بتاسکیں کہ انھوں نے دودہائی پر مشتمل اس لڑائی کو پرامن انداز میں ختم کرکے اپنے بچوں کو میدان جنگ سے واپس بلالیا۔
امریکی ماہرین افغان امن کو سانپ اور سیڑھی کا کھیل قراردے رہے ہیں کہ اوج ثریا کی طرف بلند ہوتےقدم  ذراسی ٹھوکر اور لغزش سے زمین پر آرہتے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں طالبان اور امریکہ امن معاہدے پر اس قدر قریب پہنچ چکے تھے کہ صدر ٹرمپ نے معاہدے پر دستخط کیلئے ملا صاحبان کو واشنگٹن آنے کی دعوت بھی دیدی لیکن ایک امریکی فوجی قافلے پر طالبان کے مہلک حملے نے بساط پلٹ دی اور امریکی صدر نے مذاکرات معطل کردئے۔  صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ  '18 سال سے جاری افغان جنگ کے پر امن اختتام کی امید دم توڑچکی ہے' انکا کہناتھا کہ ہمارے فوجیوں کوقتل کرکے طالبان مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ  امن نہیں بلکہ طالبان کو مکمل فتح مطلوب ہے۔ اسوقت تو بظاہرایسا لگا کہ گویا بات چیت کے باب کو قفل لگ گیالیکن اکثر ماہرین کا خیال تھا کہ بات چیت ختم نہیں بلکہ معطل کی گئی ہے۔اور ہوا بھی ایسا ہی، چند ہفتوں بعد جناب زلمے خلیل زاد'کون کہتا ہے ہم تم میں جدائی ہوگی' گنگناتے  قطر پہنچ گئے۔ مصافحوں، معانقوں اور شکوہ شکایات کے بعد مذاکرات کی میز دوبارہ بچھا دی گئی۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ فارسی لہجے میں ملا عبدالسلام ضعیف کی شستہ اور بامحاوہ انگریزی انکے کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ 2001 کے امریکی حملے کے دوران ملا ضعیف اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر تھے جنھیں پاکستانی حکومت نے سفارتی استثنیٰ پس پشت ڈالتے ہوئے زنجیروں میں جکڑ کر پشاور ائر پورٹ پر امریکی سی آئی اے کے حوالے کردیا۔ بدترین توہین کیلئے امریکہ کے فوجی ہیلی کاپٹر پر سوار کرنے سے پہلے  ملا صاحب کو پاکستان کے اعلی عسکری عہدیداروں کے سامنے برہنہ کرکے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملا عبدالسلام ضعیف طالبان کے مذاکراتی وفد کے سینئر رہنما اور نائب سربراہ ہیں جنھیں اردو، فارسی، پشتو، دری انگریزی اور روسی زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ اردو تو وہ اہل زبان سے بھی اچھی بولتے ہیں۔ علامہ اقبال کے خوبصورت اشعار سے مزین انکی باتیں تو بس وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ خیر یہ تو ایک ضمنی سی بات تھی جو ملا صاحب کے حوالے سے آگئی۔
طالبان کے اصرار پر کابل انتظامیہ کو مذاکرات سے دور رکھا گیا تھا جسکی وجہ سے افغان صدر کو اس معاہدے پر شدید تحفظات ہیں اور انکے اقدامات سے صاف لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ معاہدے پر عملدرآمد میں مخلص نہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے جنگجو قدامت پسند عسکری انخلا کو شکست سمجھتے ہیں اسلئے مختلف امریکی مراکز دانش میں انخلا کے مضمرات پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔
قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کا وعدہ قابل اعتبار نہیں کہ طالبان کے القاعدہ سے اب بھی بہت قریبی مراسم ہیں اور ملاوں کے فوجی اخراجات القاعدہ کی فکر سے متاثر متمول عرب شیوخ پورا کررہے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے یہ خبر بھی گرم ہے کہ روس کے عسکری سراغ رساں ادارے امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے طالبان کو نقد انعامات کی پیشکش کررہے ہیں۔کسی ثبوت کے بغیر یہ خبر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے شائع کی تھی جسکی سختی سے تردید کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اسے fake newsقراردیا تھا لیکن امریکی میڈیا پر یہ خبر چھائی ہوئی ہے حتیٰ کے آنے والے انتخابات میں صدر ٹرمپ کے متوقع ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن نے بھی اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسی کیساتھ جنگی قیدیوں کی رہائی میں افغان حکومت کی سست رفتاری معاملے کو خراب کررہی ہے۔ معاہدے کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ مارچ میں مکمل ہونا تھا۔ طالبان نے 5000 قیدیوں کے عوض اپنی قید سے سرکاری فوج کے 1000 قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کابل کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی کو یقین تھا کہ حملوں کے دوران طالبان نے جن سرکاری فوجیوں کو قیدی بنایا ہے وہ پاکستان میں آئی آیس آئی کی جیلوں میں ہیں اور رہائی کے وقت پاکستان سے افغان فوجیوں کی رہائی طالبان کیلئے شرمندگی کا سبب بنے گی لیکن اب تک جتنے افغان فوجی رہا ہوئے ہیں وہ سب کے سب افغانستان میں طالبان کے مختلف اڈوں پر صحافیوں کے سامنے اقوام متحدہ کے افسران اور ہلال احمر کے حوالے کئے گئے۔
امریکی وزارت خارجہ کو اشرف غنی کی جانب سے امن معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکانے پر کوئی تعجب نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا افغانستان میں نہ کوئی ماضی ہے اور نہ مستقبل۔ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ یورپ و امریکہ میں گزارا ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ دونوں انتخابات میں وہ ٹھپے بازی اور جھرلو سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اسکے مقابلے میں انکے دونوں بڑے حریف یعنی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کی افغان عوام میں جڑیں گہری ہیں۔ احمد شاہ مسعود کی گہری رفاقت کی بنا پر فارسی بانوں میں  جناب  عبداللہ عبداللہ کو  پزیرائی حاصل ہے۔ جنگجو رہنما اور گلم جم ملیشیا کے سربراہ عبدالرشید دوستم بھی عبداللہ عبداللہ کے حلیف ہیں۔ اسی طرح حامد کرزئی پشتونوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں ڈاکٹر اشرف غنی افغان سیاست میں اجنبی ہیں۔ طالباں سے معاہدے کے بعدبننے والے بندوبست میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
اس سے پہلے بھی ایک نشست میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ امریکی قدامت پسندوں کی مخالفت اور افغان حکومت کی جانب سے بے دلی و رکاوٹ کے باوجود معاہدے کے دونوں فریق یعنی امریکہ اور طالبان مسلسل رابطے میں ہیں۔ زلمے خلیل زاد کے علاہ صدر ٹرمپ بھی وقتاً فوقتاً ملا عبدالغنی برادرسے فون پر بات کرلیتے ہیں۔
امن مذاکرات سے ڈاکٹر عبدالغنی کو علیحدہ رکھنے کیلئے امریکہ کی نگرانی میں اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational Reconciliation High Commission کی سربراہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی گئی ہے۔ اس کمیشن کو مالی وسائل فراہم کرکے خودمختار و بااختیار بنایا جارہا ہے اور امن مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔
قطر معاہدے پر عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کےترجمان نےکہا کہ دوحہ اور کابل میں خلیل زاد قیدیوں کے حتمی تبادلے اور تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے پر زور دیں گے۔اس دوران انھیں  پاکستانی قیادت کو بحالی امن کی کوششوں اور اس میں مثبت پیش رفت  سے آگاہ کرنے کیلئے اسلام آباد بھی آنا تھا لیکن 29 جولائی کو امریکی دفتر خارجہ نے بتایا کہ جناب خلیل زاد اس بار پاکستان نہیں آئینگے۔
امن مذاکرات کیلئے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کا نام تجویز کیا گیا ہے جبکہ متبادل کے طور پر بلغاریہ کی راجدھدانی صوفیہ کا نام لیاجارہاہے۔ اس دورے میں زلمے خلیل زاد اوسلو اور صوفیہ بھی جائینگے جہاں نیٹو اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے ساتھ مذکرات کے انتظامات پر غور کیا جائیگا
روانگی سے پہلے جناب زلمے خلیل زاد نے  24 جولائی کو امریکی مرکز دانش یونائٹیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس یا USIPکی ایک تقریب سے خطاب کیا۔ 1984 میں یہ ادارہ امریکی کانگریس کی ایک قرارداد کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا۔ امریکی حکومت USIPکو ہرسال 4 کروڑ ڈالر کی اعانت فراہم کرتی ہے۔ کہنے کو تو USIPایک مرکز دانش ہے اور ایسے درجنوں ادارے امریکہ میں موجود ہیں۔لیکن دوسرے مراکزِ دانش کی طرح یہ محض تحقیق اور بحث مباحثے کا فورم نہیں بلکہ USIP بین القوامی امور پر پالیسی سازی میں امریکی حکومت کو مدد فراہم کرتا ہے
جناب خلیل زاد کا خطاب دراصل سیاست، دفاع اور بین الاقومی تعلقات کے ماہرین کو افغان امن پر ہونے والی اب تک کی کوششوں سے آگاہ کرنا تھا۔اپنے خطاب میں امریکہ کے خصوصی سفیر نے کہا کہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک میں تشدد کو ختم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ افغانستان میں پرتشدد کاروائیاں جاری ہیں لیکن افغان  فوج  اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں کمی آرہی ہے اور ملاوں کے ہاتھوں سرکاری اہل کاروں کی ہلاکتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 فی صد کم  ہیں۔انھوں نے کہا کہ طالبان امریکی فوج پر حملہ نہ کرنے کے وعدے پر قائم ہیں اور قطر معاہدے کے بعد سے افغانستان میں کوئی بھی امریکی یا اتحادی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔
اس تجزئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی ماہرین کابل انتطامیہ کے اعدادوشمار پر اعتبار کرنے کے بجائے زمینی صورتحال پر براہ راست نظر رکھے ہوئے ہیں۔جناب خلیل زاد نے USIPکے ماہرین کو بتایا کہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قیدیوں کے تبادلے میں تعطل ہے جسکی وجہ سے بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ غیر یقینی صورتحال پر تشدد کاروائیاں کو مہمیز لگارہی ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ  افغان حکومت نے 5000 طالبان قیدیوں میں سے 4400 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے، جسکے جواب میں طالبان سرکاری فوج کے 1000 اہل کاروں میں سے 861 کو ہلال احمر کے حوالے کرچکے ہیں۔زلمے خلیل زاد نے زور دیکر کہا کہ امریکہ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں اپنے وعدے پر قائم ہے اور وہ قیدیوں کی رہائی کیلئے کوشش جاری رکھے گاتاکہ بین الافغان  امن مذاکرات جلد از جلد شروع کیے جا سکیں۔کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ 600 طالبان قیدی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جنھیں رہا کرنا خطرناک ہوگا۔خلیل زاد نے افغان حکومت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو رہائی میں تعطل پر سخت مایوسی ہے، انھوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی تاریخی قطر معاہدے کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا پرامن اختتام ہے۔
جناب خلیل زاد نے اس بات کی تصدیق کی کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 15000 سے کم کرکے 8600 کردی گئی ہے اور بقیہ امریکی فوج کا انخلا جولائی 2021 تک مکمل کرلیا جائیگا، انھوں نے بتایا کہ امریکہ اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کرچکا ہے۔ انھوں نے خالی کے جانیوالے اڈوں کے نام نہیں بتائے۔ اسوقت افغانستان میں امریکی فوج کے چھ اڈے،کابل کے قریب بگرام، ہرات میں شین ڈنڈ، قندھار ائرپورٹ، گرم سیر ہلمند، کیمپ لیدرنیک ہلمند اور صوبہ نمروز کے شہر دلارام میں ہیں۔ خیال ہے کہ بگرام کے سوا تمام دوسرے اڈے خالی کردئے گئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری کہ اکثر اڈوں پر امریکیوں کیساتھ نیٹو کے فوجی بھی تعینات ہیں لہٰذا خالی کئے گئے یہ اڈے اب نیٹو کے استعمال میں ہیں۔
خلیل زاد کے ساتھ کابل کا سفارتی عملہ بھی کابل انتظامیہ پر دباو ڈال رہا ہے۔ 26 جولائی کو افغانستان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر راس ولسن نے افغان صدر اشرف غنی اور ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ پر زور دیا کہ طالبان کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ جلد از جلد مکمل کرکے بین الافغان مکالمے کا آغاز کیا جائے۔انکا کہناتھا کہ بات چیت میں تاخیر سے امن کی کوششوں کو ناقابل تافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کابل انتظامیہ کو امریکیوں کے تجزئے سے شدید اختلاف ہے۔ USIPمیں زلمے خلیل زاد کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ا فغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ قطر معاہدے کے بعد سے تشد میں بالکل کمی نہیں آئی اور صرف ایک ہفتے کے دوران طالبان کے401 دہشت گردحملوں میں 46 شہری ہلاک ہوئے جس سے قیام امن کیلئے طالبان کا عزم مشکوک نظرآتا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے جاوید فیصل کے ٹویٹ کا جواب تو نہیں دیا لیکن گزشتہ ہفتے ہیرات کے ضلع خم زیارت میں افغان فضائیہ کے حملے کی شدید مذمت کی جس میں شیرخوار بچوں سمیت 45 شہری ہلاک بحق ہوگئے تھے۔ اپنے ٹویٹ میں امریکی سفارتکار نے  شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ سرکاری فوج کے اس حملے سے امن کی کوششوں کا دھچکہ لگا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ بمباری شادی کی تقریب پر کی گئی جہاں حال ہی میں رہا ہونے والے کئی کمانڈر  موجود تھے تاہم وہ سب محفوظ رہے۔ قطر میں طالبان کے ترجمان ملا سہیل شاہین نے الزام لگایا ہے کہ کابل انتظامیہ کے زیر  اثر علاقوں میں سرکاری فوج ان طالبان کو گرفتار کررہی ہے جو حال ہی میں معاہدے کے تحت رہا کئے گئے ہیں۔ چھاپوں کے دوران پردہ دار خواتین سے بدسلوکی کے واقعات بھی ہیں پیش آرہے ہیں۔ تاہم طالبان نے قیام امن کیلئے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر عید الضحیٰ سے قبل تمام قیدی رہا کر دیے جائیں تو عید کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں یہ خبر بھی عام ہے کہ بین الافغان مذکرات میں طالبان وفد کی قیادت کیلئےملا عمر کے صاحبزادے ملا محمد یعقوب کو نامزد کیا گیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ 30 برس کے یعقوب اپنے والد کی طرح سخت و غیر مصالحانہ روئے رکھتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کہ فی الحال ڈاکٹر اشرف غنی طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کیلئے تیار نہیں اور جب تک قیدیوں کا تبادلہ مکمل نہیں ہوجاتا طالبان مذکرات یا یتھیار رکھنے پر تیار نہیں۔
کابل انتظامیہ کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈاکٹر اشرف غنی کے مشیرِ قومی سلامتی حمد اللہ محب نے افغان وزارتِ دفاع کی ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے کہا اگر قطر معاہدہ نہ ہوتا تو طالبان کو اس سال  شکست دی جا سکتی تھی۔اس تقریب میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی موجود تھے جو ساراقت خاموش رہے۔
پروپیگنڈے، الزامات اور بد اعتمادیوں کے باوجود زلمے خلیل زادکی تقریروں، ٹویٹ پیغامات، امریکی سفیر کے بیانات اور صٖدر ٹرمپ کی ملا برادر سے براہ راست بات چیت خوش آئند ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف امن کیلئے امریکہ کے اخلاص اور عزم کا اظہار ہوتا بلکہ جناب خلیل زاد کے پئے درپئے دوروں سے صاف لگ رہا ہے کہ معقولیت پر آمادہ کرنے کیلئے واشنگٹن ڈاکٹر غنی پر دباو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سیانے توقع کررہے ہیں کہ موجودہ دورے میں 600 طالبان قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ حل ہوجائیگا جسکے بعد بین الافغان مذاکرات کا سنسنی خیز آغاز ہوگا۔ 
 ہفت روزہ دعوت دہلی 31 جولائی 2020
ہفت روزہ فرائیٖڈے اسپیشل کراچی 31 جولائی 2020

تیل و گیس کے میدان میں چین کی پیشقدمی


تیل و گیس کے میدان میں چین کی پیشقدمی  
کرونا وائرس کے نتیجے میں تیل و گیس کی صنعت شدید مالی بحران  کا شکارہے۔ نفع تو دورکی  بات کئی جگہ تیل و گیس کی فروخت سے پیداواری لاگت بھی وصول نہیں ہوپارہی۔ معاملہ صرف چھوٹی کمپنیوں تک محدود نہیں، شیل، بی پی، ایکسون موبل اورشیورون جیسی کمپنیاں بھی اپنے اثاثے بیچ کرروزمرہ کے اخراجات پورے کرہی ہیں۔
نقدی سے مالا مال چین اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہم نے خلیج فارس میں ایران کی فرزاد گیس فیلڈ سے ہندوستان کی بیدخلی اور چین کی دبنگ انٹری کی خبر دی تھی
آج بلومبرگ Bloombergکے مطابق چین کی قومی تیل کمپنی CNPC بی پی bpسے ڈیڑھ ارب ڈالر کے عوض عُمان کی مشہور زمانہ خزان ۔ المکارم  گیس فیلڈ کے 10 فیصد حصص خرید رہی ہے۔
خزان گیس میدان (Block 61)دارالحکومت مسقط سے 280 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف الظاہرہ صوبے میں ہے۔صوبے کی مغربی سرحدیں متحدہ عرب امارات  اور سعودی عرب سے متصل  ہیں۔ یہ فیلڈ 2000 میں bpنے دریافت کی تھی۔
خزان کا گیس میدان غیر روائتی (Unconventional)کہلاتا ہے کہ گیس کو ذخیرہ کرنے والی چٹانیں بہت سخت  اور انکے مسام کنجوس کی مٹھی کی طرح بند ہیں۔ مسامات کے مابین  رابطہ نہ ہونے کی وجہ  سے ان میں موجود گیس سطح کی طرف سفر پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اسکا حل یاروں نے یہ نکالاکہ شدید دباو ڈال کر مسامات کی درمیانی دیواروں کو منہدم کردیا جائے۔انہدام کے بعد مسامات میں باریک ریت، گوار وغیرہ کی تہہ بچھادی جاتی  ہے تاکہ تیل وگیس کے بہاو میں آسانی ہو۔ اس قسم کی چٹانوں میں پائے جانیوالے ذخائر tight reservoirکہلاتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کے اس عمل کیلئے پانی کا دباو استعمال کیاجاتا ہے اسلئے اسے Hydraulic Fracturingیا frackingکہتے ہیں۔ غیر ضروری لیکچر پر معذرت
ماہرین ارضیات کے مطابق خزان میں مدفون  گیس کے خزانے کا حجم ایک لاکھ ارب مکعب فٹ یا 100 trillion cubic feet ہے۔ ان کنووں سے ایک ارب 20کروڑ مکعب فٹ گیس یومیہ (1.2 bcfd) نکالی جارہی ہے۔
آغاز پر اس مشارکے میں BPکا حصہ 60 فیصدتھا جبکہ 40 فیصد ملکیت  عُمان آئل (OOCEP)کے پاس تھی۔2018 میں ملائیشیا کی قومی تیل کمپنی پیٹروناس نےعُمان آئل سے دس فیصد حصے خرید لئے۔اگر یہ سودا ہوگیا تو اب یہاں bp پچاس فیصد، عُمان آئل 30اور ملائی و چینی اداروں کی ملکیت دس دس فیصد ہوجائیگی۔
چین گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت یکسوئی کیساتھ ایک ناقابل تسخیراقتصادی قوت بننے کی کوشش میں مصروف ہے اورا سکی خارجہ پالیسی کا محور بھی معاشیات ہے۔یہی وجہ ہے صدر ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانئے کا  چینی جواب بہت  ٹھنڈا، جچا تلا ور متواز ن ہوتا ہے۔ چینیوں کی سفارتی بردباری کا یہ عالم ہے کہ لداخ میں ہندوستان کی ٹھیک ٹھاک گوشمالی کے بعد شیخی اور دھمکی کے بجائے  چینی وزرت خارجہ ہندوستان سے تمام متنازعہ  امور کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں دلچسپی ظاہر کررہی ہے۔ کاش کہ چینی اپنے مظلوم یغور شہریوں کے لئے بھی اسی معاملہ فہمی، شفقت اور بردباری کامظاہرہ کریں۔ سراج الحق اور عمران خان کو اس سلسلے میں مشترکہ کوششیں کرنی چاہئے۔ بیجنگ میں ان دونوں حضرات کیلئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے

Thursday, July 23, 2020

ایران چین قربت ، اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور چچا سام کے مثبت اشارے


ایران چین قربت ، اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور چچا سام کے مثبت اشارے
حضرت راحت اندوری کہتےہیں
سرحدوں پر بہت تناو ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناو ہے کیا
یہ شعر پاک ہند روائتی رقابت کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ نااہلی و ناکامی چھپانے کیلئے 'کچل دو' اور اور 'نشان عبرت بنادو' دلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کا مجرب نسخہ ہے۔ تاہم انتخاب جیتنے کیلئے نفرت و قوم پرستی کی آگ کو ہوا دینا برصغیر تک محدود  نہیں بلکہ دنیابھر کے بیرحم سیاسی رہنما دھمکیوں اور جھوٹے قومی افتخار کا علم بلند کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔آجکل امریکہ انتخابات کی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ اس بار کرونا کی وبا نے سیاستدانوں کو باہمی الزام تراشی کی نئی جہت عطا کر دی ہے لیکن روائتی ہتھکنڈوں کا استعمال بھی جاری ہے۔
برصغیر کے رہنماوں کی طرح امریکہ کو گھر کی دہلیز پر دشمن میسر نہیں اسلئے بیچاروں کو سات سمندر پار چاند ماری کرنی پڑتی ہے۔ امریکہ کے دشمن بھی ایک سے زیادہ ہیں چنانچہ ایک چومکھی معرکہ درپیش ہے۔ چومکھی اسلئے بھی کہ امریکہ نے چار ملکوں یعنی روس، چین، شمالی کوریا اور ایران کوسرکاری طور پر اپنا دشمن نامزد کررکھاہے۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے امریکہ چین تعلقات بظاہر خوشگوار تھے، شمالی کوریا کو صدر اوباما نے نظر انداز کررکھا تھا، ایران سے جوہری معاہدے کے بعد باہمی تعلقات معمول کی طرف بڑھتے نظر آرہے تھے۔ صرف روس سے کشدیدگی نمایاں تھی۔کریمیاپر کریملن کے قبضے اور یوکرین میں مداخلت کی بنا پر امریکہ کیساتھ نیٹو اور یورپی یونین سے بھی روس کے تعلقات میں تناو بڑا واضح تھا۔
ایران کے بارے میں 2016 کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کا رویہ خاصہ تلخ تھا۔ ایران سے امریکہ کو  براہ راست کوئی ڈر نہیں اور ان تحٖفظات کی وجہ ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو ممکنہ خطرات ہیں۔سچ پوچھیں تو یہ خدشہ و امکان نہیں بلکہ داخلی سیاست کے تیشے سےتراشہ مفروضہ ہے۔اسرائیل کی مکمل و غیر مشروط حمائت صدر ٹرمپ کے منشور کا سب سے اہم نکتہ تھا۔ اسرائیل کی حمائت اور اسکے تحفظ کو صدر ٹرمپ اپنا اخلاقی و مذہی فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اپنے خطابات اور سیاسی مباحثوں میں انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کیلئے شدید خطرہ قراردیاتھا۔ انکا خیال ہے کہ 'ایرانی ملاوں' نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر اپنا جوہری پروگرام جاری رکھاہوا ہے۔ اقوام متحدہ سربراہی اجلاس میں بھی انھوں نے ایران جوہری معاہدے کو امریکہ کیلئے شرمناک قراردیا۔
ایران جوہری معاہدے کے نام سےمشہور میں اس دستاویز کا سرکاری نام Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOA ہے ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان اور جرمنی و یورپی یونین پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی نے دوسال کے طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ایران کو پابندیاں ہٹانے کے عوض یورینیم کی افزودگی کو ایک خاص مقام تک  منجمد کرنے پر راضی کرلیا اور 14 جولائی 2015 کو معاہدے کے متن پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے کے تحت تمام دستخط کنندہ ہر چھ ماہ بعد عالمی جوہری توانائی کمیشن یا IAECکی اطمینان بخش جانچ پڑتال کے بعد معاہدے کی توثیق کرتے ہیں۔ دستخط کے بعد سے 2018تک ایرانی تنصیبات کا 8 بار تفصیلی معائنہ ہوچکا ہے اور IAECنے ہر بار اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے اخلاص کی تعریف کی چنانچہ کسی بھی فریق کو معاہدے کی توثیق میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
اس معاہدے کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی۔ اسوقت تک ڈانلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے تھے۔انھوں نے  معاہدے کو امریکہ اور اسرائیل کیلئے سخت نقصان دہ قراردیا۔ جناب ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ حکومت سنبھالتے ہی وہ امریکہ کو اس معاہدے سے علیحدہ کرکے ایران پر شدید ترین پابندیاں عائد کردینگے۔
اپنے انتخابی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئےصدر ٹرمپ نے8 مئی 2018کوقوم سے اپنے خطاب میں معاہدے کی توثیق سے انکار کردیا جسے قانونی اصطلاح میں Decertificationکہتے ہیں۔ قانونی اعتبار سے عدم توثیق تنسیخ نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے اس بات کا اظہار ہے کہ ایران معاہدے پر اسکی روح کے مطابق عمل نہیں کررہا لہٰذا امریکہ تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ یہ پابندیاں اسوقت تک برقرار رہینگی جب تک  ایران کے طرز عمل اور اقدامات سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ معاہدے پر عمدرآمد میں مخلص ہے۔
چین سے صدر ٹرمپ کو شکوہ تھا کہ بیجنگ نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قدر کم رکھی ہوئی ہے جسکی وجہ سے  اسکی برآمدی مصنوعات کی قیمت بہت کم ہے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہماری صنعتی  تباہی کا بنیادی سبب چین کی جارحانہ پالیسی ہے۔ کم قیمت مصنوعات کے علاوہ صدر ٹرمپ نے چین پر امریکی املاک دانش کی چوری کا بھی الزام لگایا۔ انکا کہنا تھا کہ بیجنگ نے ایسے قوانین بنارکھے ہیں جسکے تحت وہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے ڈیزائن کی ساری تفصیلات تقسیم کنندہ کو  دینا ضروری ہے اور مشارکے کی صورت میں ان مصنوعات کی تفصیلات کی فراہمی پر بھی اصرار کیا جاتاہے جو چین میں فروخت بھی نہیں ہوتیں۔ صدرٹرمپ نے World Trade Organization (WTO)کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ WTOامریکہ کی تباہی کا عالمی معاہدہ ہے۔
مارچ2019 میں انھوں نےچین کے خلاف تجارتی جنگ یاTrade Warکا کا طبل بجادیا اور املاکِ دانش کی چوری کا الزام لگاکر امریکی صدر نے چینی مصنوعات کی درآمدپر 50 ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کردئے۔امریکہ نے فولاد اور المونیم کو نشانہ بنایا جس پر بالترتیب  25 اور 10 فیصد ڈیوٹی لگادی گئی۔ اس اعلان سے چین کو نقصان پہنچنے سے پہلےنیویارک کا بازار حصص  صرف چند گھنٹوں میں 700 پوائنٹ نیچے گرکیا اور چشم زدن میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈاکر ڈوب گئے۔ بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن، ایپل،  سمیت ان  تمام اداروں کے حصص زمین پر آرہے  جو چین سے کاروبار کرتے ہیں۔
دوہفتے بعد چین نے امریکہ سے خریدے جانیوالی زرعی پیداوار، سبزی، پھل، جانوروں کے گوشت اور شراب پر بھاری محصولات عائد کرکے نہلے پہ دہلا جمادیا۔ اعلان کے تحت اب امریکہ سے آنے والے سور کےگوشت پر 25 فیصد، گائے کے گوشت پر 20فیصد، پھل، مچھلی، سبزی اور غذاائی اجناس پر 15 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کردی گئی۔چینیوں کے جوابی قدم سے دیہی امریکہ میں صف ماتم بچھ گئی جو صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا سیاسی قلعہ ہے۔
بیجنگ کے جوابی وار سے تجارتی جنگ Trade Warمیں شدت آگئی جسکا امریکی تاجروں کو خوف تھا۔ امریکی درآمد کنندگان کا کہنا تھا کہ محصولات میں اضافے کے بعد بھی چینی  مصنوعات مقامی اشیا سےسستی ہیں۔ ٹیکس کی شکل میں امریکی حکومت کی آمدنی تو بڑھی لیکن یہ عوام کی جیب پر ڈاکے کے سواا ور کچھ نہ تھا۔جنگ کے آغاز سے ہی چین کا پلہ بھاری تھاچنانچہ جلد ہی بات چیت کا پانی ڈال کرآگ کو ٹھنڈا کردیا گیا۔
اسی دوران ہانگ کانگ میں ایک قانونی مسودے پر ہنگامے شروع ہوگئے جس کے مطابق ہانگ کانگ میں گرفتار قیدیوں کوچین کے مطالبے پر بیجنگ کے حوالے کیا جاسکے گا۔ زبردست مظاہرے کی بنا پر ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے بل پر بحث روک دی لیکن ہنگامے جاری رہے۔ اس دوران ہانگ کانگ کی چین سے مکمل آزادی کے نعرے گونجے اور کئی مقامات پر صدر ٹرمپ کی تصویرٰیں اٹھائے مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر امریکی پرچم لہرادئے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر چین کی عوامی اسمبلی نے سیکیورٹی بل منظور کرکےہانگ کانگ کو براہ راست بیجنگ کے زیر انتظام کرلیا۔ حالانکہ 1997میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو اس ضمانت کے بعد ہی چین کے حوالے کیا تھاکہ اس کی آزاد حیثیت برقرار رہیگی۔اسی بنا پر یہ اسپیشل ایڈمنسٹریٹیو  ریجن قرارپای اوراسکے لئے ONE COUNTRY TWO SYSTEMکی اصطلاح وضع کی گئی۔یعنی ہانگ کی شہری آزادی اور عدلیہ برقرار رہیگی۔ چین کے اس فیصلے نے امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید گہرا کردیا۔
صدر ٹرمپ کرونا وائرس کے پھیلاو کا الزام بھی چین پر لگارہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ مرض پھوٹ پڑنے کے کافی دن بعد چین  نے دنیا کو اسکی سنگینی سے مطلع کیا۔ اگر بیجنگ اس معاملے شفاف رویہ اختیار کرتا تو چین سے باہر اسکے نقصانات کو کم کیا جاسکتا تھا۔
انتخابات کے قریب آتے آتے چین کے بارے میں صدر ٹرمپ کا لہجہ سخت ہوتا جارہا ہے، دوسری طرف جوبائیدن   صدر ٹرمپ کو 'صدر ژی کا دوست' قراردیکر انھیں عار دلا رہے ہیں اور اشتعال کے نتیجے میں چین کے حوالے سےصدر ٹرمپ لہجہ مزید سخت ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ پابندیاں مزید سخت کردی ہیں جسکی وجہ سے تہران کیلئے کرونا وائرس سے نبٹنا مشکل ہورہا ہے۔ ایران سے تعاون ختم کرنے کیلئے دلی پر بھی شدید دباو ہے۔
ایران امریکہ کشیدگی کا بنیادی کردار اسرائیل ہے۔ امریکی سیاست پر نظررکھنے والے اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست خارج ازامکان نہیں بلکہ اسرائیل کے صحافتی حلقوں میں یہ افواہ گرم ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے وزیرنیتن یاہو کو جو بائیڈن سے تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ صدر ٹرمپ کی ممکنہ شکست کو بھانپتے ہوئے، اسرائیل نے ایران کیخلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل محکمہ سراگرغرسانی کے ایک سابق عہدیدار اور  یورپی یونین کے ایک انٹیلی جنس افسرنے نام افشا نہ کرنے کی شرط پر قابل اعتماد صحافیوں کو بتایا کہ امریکی انتخابات سے پہلے ایران کیخلاف بڑی اسرائیلی مہم کا خطرہ بڑھتاجارہا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ امریکی انتخابات سے پہلے صدر ٹرمپ کی سیاسی وسفارتی پشت پناہی میں کاروائی کرڈالی جائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایران کی دفاعی تنصیبات ' مشکوک' حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ 22جون کو میزائل تیار کرنے کی ایک فیکٹری میں دھماکہ، 2 جولائی کو اصفہان کے شہر نطنز مں واقع یورینیم افزودگی مرکز پر حملہ، جسکے دودن بعد خلیج فارس کے ساحلی شہر اور تیل و گیس کے ٹرمینل بو شہر پر میزائیل گرنے سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نطنز پر حملے سے ایران کی جوہری صلاحیت کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ اسی کے ساتھ ایران کے مختلف علاقوں میں پراسرار آتشزدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دو ہفتہ پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکینازی نے ایران میں ہونے والے واقعات پر ایک مبہم سا بیان دیا کہ 'ہم ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کی تفصیلات جاری کرنا ممکن نہیں' جناب اشکنازی اسرائیلی فوج کے جنرل چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ ان کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے  اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک افسر نے کہا کہ کہ ان کارروائیوں کا مقصد ایرانیوں کو چکر اکر رکھنا ہے۔
اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ اگر جو بائیڈن برسراقتدار آگئے تو وہ JCPOAکی توثیق کردینگے اور جوہری تنصیبات کے معائنے تک ایران کے خلاف پابندیاں معطل ہوجائینگی جو امریکہ کے علاوہ تمام کے تمام دستخط کنندگان کا موقف ہے۔
دوسری طرف دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر ایران اور چین کے درمیان قربت بڑھ رہی ہے۔ کھربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ چین ساری دنیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کررہا ہے، دوسری طرف امریکی پابندیوں نے ایران کو سفارتی و تجارتی تنہائی میں مبتلا کردیا ہے۔ یعنی اس طرف ہے گرم خوں اور انکو عاشق کی تلاش، چنانچہ دونوں ملک قریب آگئے۔کچھ عرصہ پہلے تہران نے بیجنگ سے معاشی اور سیکیورٹی شراکت داری کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے جسکی مدت 25 سال ہے۔ اب تک اس معاہدے کی تصیلات جاری نہیں ہوئیں لیکن کہا جارہا ہے کہ مشترکہ منصوبوں پر ایران اپنےحصے کے اخراجات چین کو تیل کی رعائتی قیمت پر فروخت کی شکل میں اداکریگا۔ یعنی جہاں چین کو سستا ایندھن میسر ہوگا وہیں ایران کو تیل کا ایک مستقل خریدار مل جائیگا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کے اشارے پر ایران نے چاہ بہار پروجیکٹ سے ہندوستان کو علیحدہ کردینے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ منصوبہ ہئیت، حکمت اور وسعت کے اعتبار سےاسے سی پیک CPEC شمالی کہا جاسکتا ہے جسکا بنیادی ہدف ایران کو افغانستان اور اس سے آگے  وسط ایشیا تک رسائی دینا ہے۔اسکے لئے خیلج اومان کی ایرانی بندرگاہ چابہار کی ترقی اور اسکے بعد وہاں سے زاہدان اور اسکے آگے اٖفغانستان تک سڑک اور ریلوے ٹریک بچھانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ایران سے افغانستان تک سڑک کا کام ہندوستان نے مکمل کرلیا ہے اور اب چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان تک 628 کلومیڑ ریل کی پٹری ڈالنے کا مرحلہ درپیش ہے جسکے لئے ہندوستان نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی کے مطابق یہ منصوبہ مارچ  2022 میں مکمل ہونا لیکن اب تک ہندوستان نے کام کیلئے کوئی رقم جاری نہیں کی۔ ایرانیوں کا کہنا ہے تہران اب یہ کام اپنے وسائل سے کریگا۔ خیال ہے کہ اب  چاہ بہار سے افغانستان تک ریل و روڈ پروجیکٹ چین کے Belt and Road Initiativeیا B&Rکا حصہ بن جائیگا۔
چاہ بہار زاہدان ریلوے کے بعد ہندوستان کو فرزاد بی گیس کے ترقیاتی منصوبے سے بھی الگ کیا جارہا ہے۔خلیج فارس میں فرزاد بی گیس کا میدان 2012میں دریافت ہوا تھا۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے گیس میدان پارس شمالی کے مشرق میں  واقع فرزاد میں موجود گیس ذخیرے کا تخمینہ 217 ہزار ارب مکعب فٹ ہے۔2013سے پیداوار کا آغا ز ہوا اور ان کنوؤں سے 1.1ارب مکعب فٹ گیس روزانہ  نکالی جارہی ہے۔ہندوستان کی ONGC و دیش لمیٹیڈ (OVL)نے میدان کی ترقی ،نئی تنصیبات اور ترقیاتی کنوؤں کی کھدائی کیلئے 6ارب ڈالر لگانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک OVLنے اس منصوبے پر صرف 10کروڑ ڈالر خرچ کئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایران کی قومی تیل کمپنی NIOCکے سربراہ مسعود کرباسیان  نے کہا کہ  ایران فرزاد بی میدان کی ترقی کیلئے پرعزم ہے اور انکی کمپنی اب اپنے وسائل سے کام کریگی۔ مغربی سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ عنقریب  چین کی CNPC ہندوستانی OVLکی جگہ لے لے گی۔
 چاہ بہار ریلوے سے ہندوستان کی علیحدگی کا اعلان بھی ایسے ہے شگفتہ سفارتی انداز میں کیا گیا تھا۔ علمائے سیاست کے خیال میں چچا سام کے دباو پر ہندوستان نے چاہ بہار ریلوے اور فرزاد گیس منصوبے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس خیال سے کہیں آبگینوں کی ٹھیس نہ لگ جائے دہلی نے دامن جھاڑ دینے کے بجائےمالی پریشانیوں کابہانہ بناکر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایرانی بھی سفارتکاری میں خاصے مجھے ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے ہندوستان سے خود ہی معذرت کرلی۔یاں یوں کہئے کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔
بیجنگ اور تہران کے بڑھتے ہوئے قرب سے امریکہ بہادر خاصے پریشان ہیں۔ افواہ گرم ہے کہ واشنگٹن نے تہران کو ایک سندیسہ بھجوایا ہے جس میں جوہری تنازعے سمیت تمام معاملات پر غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ مہرومحبت کے اشاروں سے چین بھی محروم نہیں۔ ناکام تجارتی مذاکرات اور ہانگ کانگ کے حوالے سے متنازع قانون سازی پر آتشیں بیانات کے ساتھ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں اورکرونا وائرس کے باعث وطن واپس بلائے گئے 100 سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کوگزشتہ ہفتے چین واپس بھیج دیا گیا اور اگلے چند ہفتوں میں باقی اہلکاروں کی واپسی متوقع ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 جولائی 2020
ہفت روزہ دعوت دہلی 24 جولائی
2020