Thursday, July 23, 2020

ایران چین قربت ، اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور چچا سام کے مثبت اشارے


ایران چین قربت ، اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور چچا سام کے مثبت اشارے
حضرت راحت اندوری کہتےہیں
سرحدوں پر بہت تناو ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناو ہے کیا
یہ شعر پاک ہند روائتی رقابت کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ نااہلی و ناکامی چھپانے کیلئے 'کچل دو' اور اور 'نشان عبرت بنادو' دلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کا مجرب نسخہ ہے۔ تاہم انتخاب جیتنے کیلئے نفرت و قوم پرستی کی آگ کو ہوا دینا برصغیر تک محدود  نہیں بلکہ دنیابھر کے بیرحم سیاسی رہنما دھمکیوں اور جھوٹے قومی افتخار کا علم بلند کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔آجکل امریکہ انتخابات کی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ اس بار کرونا کی وبا نے سیاستدانوں کو باہمی الزام تراشی کی نئی جہت عطا کر دی ہے لیکن روائتی ہتھکنڈوں کا استعمال بھی جاری ہے۔
برصغیر کے رہنماوں کی طرح امریکہ کو گھر کی دہلیز پر دشمن میسر نہیں اسلئے بیچاروں کو سات سمندر پار چاند ماری کرنی پڑتی ہے۔ امریکہ کے دشمن بھی ایک سے زیادہ ہیں چنانچہ ایک چومکھی معرکہ درپیش ہے۔ چومکھی اسلئے بھی کہ امریکہ نے چار ملکوں یعنی روس، چین، شمالی کوریا اور ایران کوسرکاری طور پر اپنا دشمن نامزد کررکھاہے۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے امریکہ چین تعلقات بظاہر خوشگوار تھے، شمالی کوریا کو صدر اوباما نے نظر انداز کررکھا تھا، ایران سے جوہری معاہدے کے بعد باہمی تعلقات معمول کی طرف بڑھتے نظر آرہے تھے۔ صرف روس سے کشدیدگی نمایاں تھی۔کریمیاپر کریملن کے قبضے اور یوکرین میں مداخلت کی بنا پر امریکہ کیساتھ نیٹو اور یورپی یونین سے بھی روس کے تعلقات میں تناو بڑا واضح تھا۔
ایران کے بارے میں 2016 کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کا رویہ خاصہ تلخ تھا۔ ایران سے امریکہ کو  براہ راست کوئی ڈر نہیں اور ان تحٖفظات کی وجہ ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو ممکنہ خطرات ہیں۔سچ پوچھیں تو یہ خدشہ و امکان نہیں بلکہ داخلی سیاست کے تیشے سےتراشہ مفروضہ ہے۔اسرائیل کی مکمل و غیر مشروط حمائت صدر ٹرمپ کے منشور کا سب سے اہم نکتہ تھا۔ اسرائیل کی حمائت اور اسکے تحفظ کو صدر ٹرمپ اپنا اخلاقی و مذہی فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اپنے خطابات اور سیاسی مباحثوں میں انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کیلئے شدید خطرہ قراردیاتھا۔ انکا خیال ہے کہ 'ایرانی ملاوں' نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر اپنا جوہری پروگرام جاری رکھاہوا ہے۔ اقوام متحدہ سربراہی اجلاس میں بھی انھوں نے ایران جوہری معاہدے کو امریکہ کیلئے شرمناک قراردیا۔
ایران جوہری معاہدے کے نام سےمشہور میں اس دستاویز کا سرکاری نام Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOA ہے ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان اور جرمنی و یورپی یونین پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی نے دوسال کے طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ایران کو پابندیاں ہٹانے کے عوض یورینیم کی افزودگی کو ایک خاص مقام تک  منجمد کرنے پر راضی کرلیا اور 14 جولائی 2015 کو معاہدے کے متن پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے کے تحت تمام دستخط کنندہ ہر چھ ماہ بعد عالمی جوہری توانائی کمیشن یا IAECکی اطمینان بخش جانچ پڑتال کے بعد معاہدے کی توثیق کرتے ہیں۔ دستخط کے بعد سے 2018تک ایرانی تنصیبات کا 8 بار تفصیلی معائنہ ہوچکا ہے اور IAECنے ہر بار اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے اخلاص کی تعریف کی چنانچہ کسی بھی فریق کو معاہدے کی توثیق میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
اس معاہدے کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی۔ اسوقت تک ڈانلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے تھے۔انھوں نے  معاہدے کو امریکہ اور اسرائیل کیلئے سخت نقصان دہ قراردیا۔ جناب ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ حکومت سنبھالتے ہی وہ امریکہ کو اس معاہدے سے علیحدہ کرکے ایران پر شدید ترین پابندیاں عائد کردینگے۔
اپنے انتخابی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئےصدر ٹرمپ نے8 مئی 2018کوقوم سے اپنے خطاب میں معاہدے کی توثیق سے انکار کردیا جسے قانونی اصطلاح میں Decertificationکہتے ہیں۔ قانونی اعتبار سے عدم توثیق تنسیخ نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے اس بات کا اظہار ہے کہ ایران معاہدے پر اسکی روح کے مطابق عمل نہیں کررہا لہٰذا امریکہ تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ یہ پابندیاں اسوقت تک برقرار رہینگی جب تک  ایران کے طرز عمل اور اقدامات سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ معاہدے پر عمدرآمد میں مخلص ہے۔
چین سے صدر ٹرمپ کو شکوہ تھا کہ بیجنگ نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قدر کم رکھی ہوئی ہے جسکی وجہ سے  اسکی برآمدی مصنوعات کی قیمت بہت کم ہے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہماری صنعتی  تباہی کا بنیادی سبب چین کی جارحانہ پالیسی ہے۔ کم قیمت مصنوعات کے علاوہ صدر ٹرمپ نے چین پر امریکی املاک دانش کی چوری کا بھی الزام لگایا۔ انکا کہنا تھا کہ بیجنگ نے ایسے قوانین بنارکھے ہیں جسکے تحت وہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے ڈیزائن کی ساری تفصیلات تقسیم کنندہ کو  دینا ضروری ہے اور مشارکے کی صورت میں ان مصنوعات کی تفصیلات کی فراہمی پر بھی اصرار کیا جاتاہے جو چین میں فروخت بھی نہیں ہوتیں۔ صدرٹرمپ نے World Trade Organization (WTO)کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ WTOامریکہ کی تباہی کا عالمی معاہدہ ہے۔
مارچ2019 میں انھوں نےچین کے خلاف تجارتی جنگ یاTrade Warکا کا طبل بجادیا اور املاکِ دانش کی چوری کا الزام لگاکر امریکی صدر نے چینی مصنوعات کی درآمدپر 50 ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کردئے۔امریکہ نے فولاد اور المونیم کو نشانہ بنایا جس پر بالترتیب  25 اور 10 فیصد ڈیوٹی لگادی گئی۔ اس اعلان سے چین کو نقصان پہنچنے سے پہلےنیویارک کا بازار حصص  صرف چند گھنٹوں میں 700 پوائنٹ نیچے گرکیا اور چشم زدن میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈاکر ڈوب گئے۔ بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن، ایپل،  سمیت ان  تمام اداروں کے حصص زمین پر آرہے  جو چین سے کاروبار کرتے ہیں۔
دوہفتے بعد چین نے امریکہ سے خریدے جانیوالی زرعی پیداوار، سبزی، پھل، جانوروں کے گوشت اور شراب پر بھاری محصولات عائد کرکے نہلے پہ دہلا جمادیا۔ اعلان کے تحت اب امریکہ سے آنے والے سور کےگوشت پر 25 فیصد، گائے کے گوشت پر 20فیصد، پھل، مچھلی، سبزی اور غذاائی اجناس پر 15 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کردی گئی۔چینیوں کے جوابی قدم سے دیہی امریکہ میں صف ماتم بچھ گئی جو صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا سیاسی قلعہ ہے۔
بیجنگ کے جوابی وار سے تجارتی جنگ Trade Warمیں شدت آگئی جسکا امریکی تاجروں کو خوف تھا۔ امریکی درآمد کنندگان کا کہنا تھا کہ محصولات میں اضافے کے بعد بھی چینی  مصنوعات مقامی اشیا سےسستی ہیں۔ ٹیکس کی شکل میں امریکی حکومت کی آمدنی تو بڑھی لیکن یہ عوام کی جیب پر ڈاکے کے سواا ور کچھ نہ تھا۔جنگ کے آغاز سے ہی چین کا پلہ بھاری تھاچنانچہ جلد ہی بات چیت کا پانی ڈال کرآگ کو ٹھنڈا کردیا گیا۔
اسی دوران ہانگ کانگ میں ایک قانونی مسودے پر ہنگامے شروع ہوگئے جس کے مطابق ہانگ کانگ میں گرفتار قیدیوں کوچین کے مطالبے پر بیجنگ کے حوالے کیا جاسکے گا۔ زبردست مظاہرے کی بنا پر ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے بل پر بحث روک دی لیکن ہنگامے جاری رہے۔ اس دوران ہانگ کانگ کی چین سے مکمل آزادی کے نعرے گونجے اور کئی مقامات پر صدر ٹرمپ کی تصویرٰیں اٹھائے مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر امریکی پرچم لہرادئے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر چین کی عوامی اسمبلی نے سیکیورٹی بل منظور کرکےہانگ کانگ کو براہ راست بیجنگ کے زیر انتظام کرلیا۔ حالانکہ 1997میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو اس ضمانت کے بعد ہی چین کے حوالے کیا تھاکہ اس کی آزاد حیثیت برقرار رہیگی۔اسی بنا پر یہ اسپیشل ایڈمنسٹریٹیو  ریجن قرارپای اوراسکے لئے ONE COUNTRY TWO SYSTEMکی اصطلاح وضع کی گئی۔یعنی ہانگ کی شہری آزادی اور عدلیہ برقرار رہیگی۔ چین کے اس فیصلے نے امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید گہرا کردیا۔
صدر ٹرمپ کرونا وائرس کے پھیلاو کا الزام بھی چین پر لگارہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ مرض پھوٹ پڑنے کے کافی دن بعد چین  نے دنیا کو اسکی سنگینی سے مطلع کیا۔ اگر بیجنگ اس معاملے شفاف رویہ اختیار کرتا تو چین سے باہر اسکے نقصانات کو کم کیا جاسکتا تھا۔
انتخابات کے قریب آتے آتے چین کے بارے میں صدر ٹرمپ کا لہجہ سخت ہوتا جارہا ہے، دوسری طرف جوبائیدن   صدر ٹرمپ کو 'صدر ژی کا دوست' قراردیکر انھیں عار دلا رہے ہیں اور اشتعال کے نتیجے میں چین کے حوالے سےصدر ٹرمپ لہجہ مزید سخت ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ پابندیاں مزید سخت کردی ہیں جسکی وجہ سے تہران کیلئے کرونا وائرس سے نبٹنا مشکل ہورہا ہے۔ ایران سے تعاون ختم کرنے کیلئے دلی پر بھی شدید دباو ہے۔
ایران امریکہ کشیدگی کا بنیادی کردار اسرائیل ہے۔ امریکی سیاست پر نظررکھنے والے اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست خارج ازامکان نہیں بلکہ اسرائیل کے صحافتی حلقوں میں یہ افواہ گرم ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے وزیرنیتن یاہو کو جو بائیڈن سے تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ صدر ٹرمپ کی ممکنہ شکست کو بھانپتے ہوئے، اسرائیل نے ایران کیخلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل محکمہ سراگرغرسانی کے ایک سابق عہدیدار اور  یورپی یونین کے ایک انٹیلی جنس افسرنے نام افشا نہ کرنے کی شرط پر قابل اعتماد صحافیوں کو بتایا کہ امریکی انتخابات سے پہلے ایران کیخلاف بڑی اسرائیلی مہم کا خطرہ بڑھتاجارہا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ امریکی انتخابات سے پہلے صدر ٹرمپ کی سیاسی وسفارتی پشت پناہی میں کاروائی کرڈالی جائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایران کی دفاعی تنصیبات ' مشکوک' حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ 22جون کو میزائل تیار کرنے کی ایک فیکٹری میں دھماکہ، 2 جولائی کو اصفہان کے شہر نطنز مں واقع یورینیم افزودگی مرکز پر حملہ، جسکے دودن بعد خلیج فارس کے ساحلی شہر اور تیل و گیس کے ٹرمینل بو شہر پر میزائیل گرنے سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نطنز پر حملے سے ایران کی جوہری صلاحیت کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ اسی کے ساتھ ایران کے مختلف علاقوں میں پراسرار آتشزدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دو ہفتہ پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکینازی نے ایران میں ہونے والے واقعات پر ایک مبہم سا بیان دیا کہ 'ہم ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کی تفصیلات جاری کرنا ممکن نہیں' جناب اشکنازی اسرائیلی فوج کے جنرل چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ ان کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے  اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک افسر نے کہا کہ کہ ان کارروائیوں کا مقصد ایرانیوں کو چکر اکر رکھنا ہے۔
اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ اگر جو بائیڈن برسراقتدار آگئے تو وہ JCPOAکی توثیق کردینگے اور جوہری تنصیبات کے معائنے تک ایران کے خلاف پابندیاں معطل ہوجائینگی جو امریکہ کے علاوہ تمام کے تمام دستخط کنندگان کا موقف ہے۔
دوسری طرف دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر ایران اور چین کے درمیان قربت بڑھ رہی ہے۔ کھربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ چین ساری دنیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کررہا ہے، دوسری طرف امریکی پابندیوں نے ایران کو سفارتی و تجارتی تنہائی میں مبتلا کردیا ہے۔ یعنی اس طرف ہے گرم خوں اور انکو عاشق کی تلاش، چنانچہ دونوں ملک قریب آگئے۔کچھ عرصہ پہلے تہران نے بیجنگ سے معاشی اور سیکیورٹی شراکت داری کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے جسکی مدت 25 سال ہے۔ اب تک اس معاہدے کی تصیلات جاری نہیں ہوئیں لیکن کہا جارہا ہے کہ مشترکہ منصوبوں پر ایران اپنےحصے کے اخراجات چین کو تیل کی رعائتی قیمت پر فروخت کی شکل میں اداکریگا۔ یعنی جہاں چین کو سستا ایندھن میسر ہوگا وہیں ایران کو تیل کا ایک مستقل خریدار مل جائیگا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کے اشارے پر ایران نے چاہ بہار پروجیکٹ سے ہندوستان کو علیحدہ کردینے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ منصوبہ ہئیت، حکمت اور وسعت کے اعتبار سےاسے سی پیک CPEC شمالی کہا جاسکتا ہے جسکا بنیادی ہدف ایران کو افغانستان اور اس سے آگے  وسط ایشیا تک رسائی دینا ہے۔اسکے لئے خیلج اومان کی ایرانی بندرگاہ چابہار کی ترقی اور اسکے بعد وہاں سے زاہدان اور اسکے آگے اٖفغانستان تک سڑک اور ریلوے ٹریک بچھانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ایران سے افغانستان تک سڑک کا کام ہندوستان نے مکمل کرلیا ہے اور اب چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان تک 628 کلومیڑ ریل کی پٹری ڈالنے کا مرحلہ درپیش ہے جسکے لئے ہندوستان نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی کے مطابق یہ منصوبہ مارچ  2022 میں مکمل ہونا لیکن اب تک ہندوستان نے کام کیلئے کوئی رقم جاری نہیں کی۔ ایرانیوں کا کہنا ہے تہران اب یہ کام اپنے وسائل سے کریگا۔ خیال ہے کہ اب  چاہ بہار سے افغانستان تک ریل و روڈ پروجیکٹ چین کے Belt and Road Initiativeیا B&Rکا حصہ بن جائیگا۔
چاہ بہار زاہدان ریلوے کے بعد ہندوستان کو فرزاد بی گیس کے ترقیاتی منصوبے سے بھی الگ کیا جارہا ہے۔خلیج فارس میں فرزاد بی گیس کا میدان 2012میں دریافت ہوا تھا۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے گیس میدان پارس شمالی کے مشرق میں  واقع فرزاد میں موجود گیس ذخیرے کا تخمینہ 217 ہزار ارب مکعب فٹ ہے۔2013سے پیداوار کا آغا ز ہوا اور ان کنوؤں سے 1.1ارب مکعب فٹ گیس روزانہ  نکالی جارہی ہے۔ہندوستان کی ONGC و دیش لمیٹیڈ (OVL)نے میدان کی ترقی ،نئی تنصیبات اور ترقیاتی کنوؤں کی کھدائی کیلئے 6ارب ڈالر لگانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک OVLنے اس منصوبے پر صرف 10کروڑ ڈالر خرچ کئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایران کی قومی تیل کمپنی NIOCکے سربراہ مسعود کرباسیان  نے کہا کہ  ایران فرزاد بی میدان کی ترقی کیلئے پرعزم ہے اور انکی کمپنی اب اپنے وسائل سے کام کریگی۔ مغربی سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ عنقریب  چین کی CNPC ہندوستانی OVLکی جگہ لے لے گی۔
 چاہ بہار ریلوے سے ہندوستان کی علیحدگی کا اعلان بھی ایسے ہے شگفتہ سفارتی انداز میں کیا گیا تھا۔ علمائے سیاست کے خیال میں چچا سام کے دباو پر ہندوستان نے چاہ بہار ریلوے اور فرزاد گیس منصوبے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس خیال سے کہیں آبگینوں کی ٹھیس نہ لگ جائے دہلی نے دامن جھاڑ دینے کے بجائےمالی پریشانیوں کابہانہ بناکر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایرانی بھی سفارتکاری میں خاصے مجھے ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے ہندوستان سے خود ہی معذرت کرلی۔یاں یوں کہئے کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔
بیجنگ اور تہران کے بڑھتے ہوئے قرب سے امریکہ بہادر خاصے پریشان ہیں۔ افواہ گرم ہے کہ واشنگٹن نے تہران کو ایک سندیسہ بھجوایا ہے جس میں جوہری تنازعے سمیت تمام معاملات پر غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ مہرومحبت کے اشاروں سے چین بھی محروم نہیں۔ ناکام تجارتی مذاکرات اور ہانگ کانگ کے حوالے سے متنازع قانون سازی پر آتشیں بیانات کے ساتھ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں اورکرونا وائرس کے باعث وطن واپس بلائے گئے 100 سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کوگزشتہ ہفتے چین واپس بھیج دیا گیا اور اگلے چند ہفتوں میں باقی اہلکاروں کی واپسی متوقع ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 جولائی 2020
ہفت روزہ دعوت دہلی 24 جولائی
2020

No comments:

Post a Comment