تیل و
گیس کے میدان میں چین کی پیشقدمی
کرونا
وائرس کے نتیجے میں تیل و گیس کی صنعت شدید مالی بحران کا شکارہے۔ نفع تو دورکی بات کئی جگہ تیل و گیس کی فروخت سے پیداواری لاگت
بھی وصول نہیں ہوپارہی۔ معاملہ صرف چھوٹی کمپنیوں تک محدود نہیں، شیل، بی پی،
ایکسون موبل اورشیورون جیسی کمپنیاں بھی اپنے اثاثے بیچ کرروزمرہ کے اخراجات پورے
کرہی ہیں۔
نقدی
سے مالا مال چین اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہم نے خلیج
فارس میں ایران کی فرزاد گیس فیلڈ سے ہندوستان کی بیدخلی اور چین کی دبنگ انٹری کی
خبر دی تھی
آج
بلومبرگ Bloombergکے مطابق چین کی قومی تیل کمپنی CNPC بی پی bpسے ڈیڑھ ارب ڈالر کے عوض عُمان کی مشہور زمانہ
خزان ۔ المکارم گیس فیلڈ کے 10 فیصد حصص
خرید رہی ہے۔
خزان
گیس میدان (Block 61)دارالحکومت مسقط سے 280 کلومیٹر جنوب مغرب
کی طرف الظاہرہ صوبے میں ہے۔صوبے کی مغربی سرحدیں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے متصل ہیں۔ یہ فیلڈ 2000 میں bpنے
دریافت کی تھی۔
خزان کا گیس میدان غیر روائتی (Unconventional)کہلاتا ہے کہ گیس
کو ذخیرہ کرنے والی چٹانیں بہت سخت اور
انکے مسام کنجوس کی مٹھی کی طرح بند ہیں۔
مسامات کے مابین رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان میں موجود گیس سطح کی طرف سفر پر آمادہ
نہیں ہوتی۔ اسکا حل یاروں نے یہ نکالاکہ شدید دباو ڈال کر مسامات کی درمیانی
دیواروں کو منہدم کردیا جائے۔انہدام کے بعد مسامات میں باریک ریت، گوار وغیرہ کی
تہہ بچھادی جاتی ہے تاکہ تیل وگیس کے بہاو
میں آسانی ہو۔ اس قسم کی چٹانوں میں پائے جانیوالے ذخائر tight reservoirکہلاتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کے اس
عمل کیلئے پانی کا دباو استعمال کیاجاتا ہے اسلئے اسے Hydraulic Fracturingیا frackingکہتے ہیں۔
غیر
ضروری لیکچر پر معذرت
ماہرین
ارضیات کے مطابق خزان میں مدفون گیس کے خزانے
کا حجم ایک لاکھ ارب مکعب فٹ یا 100 trillion cubic feet ہے۔ ان کنووں سے ایک ارب
20کروڑ مکعب فٹ گیس یومیہ (1.2 bcfd) نکالی جارہی ہے۔
آغاز پر اس مشارکے میں BPکا حصہ 60 فیصدتھا جبکہ 40 فیصد ملکیت عُمان آئل (OOCEP)کے پاس تھی۔2018 میں ملائیشیا کی قومی تیل کمپنی پیٹروناس نےعُمان
آئل سے دس فیصد حصے خرید لئے۔اگر یہ سودا ہوگیا تو اب یہاں bp پچاس فیصد، عُمان آئل 30اور ملائی و چینی اداروں کی ملکیت
دس دس فیصد ہوجائیگی۔
چین گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت یکسوئی کیساتھ ایک ناقابل
تسخیراقتصادی قوت بننے کی کوشش میں مصروف ہے اورا سکی خارجہ پالیسی کا محور بھی معاشیات
ہے۔یہی وجہ ہے صدر ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانئے کا چینی جواب بہت ٹھنڈا، جچا تلا ور متواز ن ہوتا ہے۔ چینیوں کی
سفارتی بردباری کا یہ عالم ہے کہ لداخ میں ہندوستان کی ٹھیک ٹھاک گوشمالی کے بعد شیخی
اور دھمکی کے بجائے چینی وزرت خارجہ ہندوستان
سے تمام متنازعہ امور کو بات چیت کے ذریعے
حل کرنے میں دلچسپی ظاہر کررہی ہے۔ کاش کہ چینی اپنے مظلوم یغور شہریوں کے لئے بھی
اسی معاملہ فہمی، شفقت اور بردباری کامظاہرہ کریں۔ سراج الحق اور عمران خان کو اس
سلسلے میں مشترکہ کوششیں کرنی چاہئے۔ بیجنگ میں ان دونوں حضرات کیلئے نرم گوشہ
پایا جاتا ہے
No comments:
Post a Comment