Thursday, July 16, 2020

کرونا کا اقبال ۔۔ مقبولیت کازوال


کرونا کا اقبال ۔۔ مقبولیت کازوال
امریکہ میں کرونا وائرس یا COVID-19کی وبا خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ مئی کے مہینے بحر اوقیانوس کے ساحل پر نیویارک، نیوجرسی، پنسلوانیہ، دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی  اور ورجینیا کی ریاستیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ اسی دوران مغرب میں کیلی فورنیا اور واشنگٹن کو اس نامراد مرض نے اپنا ہدف بنالیا۔ اتفاق سے یہ تمام ریاستیں حزب اختلاف یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کاگڑھ ہیں۔ ان ریاستوں کے تمام بڑے شہروں کے روسائے شہر (Mayors)بھی صدر ٹرمپ کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔اس دوران وفاق اور ریاستی و شہری حکومتوں کے درمیان کشیدگی بہت کھل کر سامنے آئی۔ صدر ٹرمپ کرنا وائرس کے پھیلاو کا الزام ڈیموکریٹک پارٹی کی بدانتظامی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی کامی (کمیونسٹ) پالیسیوں پر لگاتے رہے۔ ہمارے خیال میں تو ڈیموکریٹس کو بائیں بازو کا کہنا ایسا ہی ہے جیسےبھارت کو سیکیولر ریاست سمجھنا۔
جون کے آغاز سے وبا قابومیں آتی نظر آئی چنانچہ مہینے کے آخری ہفتے میں لاک ڈاون نرم کرنے اور کاروبار زندگی کے دوباہ شروع ہونے کا بتدریج آغاز ہوا۔ دوسری سرگرمیوں کے ساتھ میکدوں کے دروازے کھول دئے گئے اور اسی کے ساتھ تشنہ لب  جام وسبو کیلئے دیوانہ وار دوڑ پڑے۔ اس دوران شراب خانوں کے باہر تک رندوں کے ہجوم نظر آئے۔ پینے، پلانے اور پی کر بہکتے ہوئے تن دوری (Social Distancing)کا کس کم بخت کو ہوش تھا۔ شوق جام و سبو کے ساتھ منچلوں نے ساحل سمندر پر بھی جھمگھٹے لگادئے۔ اس تفریح نے جہاں دوستوں کو ہنسنے بولنے کا موقع فراہم کیا وہیں کرونا وائرس بھی تیزی لیکن خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ یعنی مرزاغالب کی فاقہ مستی کی طرح امریکیوں کی بلانوشی اور غسل آبی و آفتابی نے رنگ دکھاناشروع کردیا۔
جولائی کے پہلے ہفتے سے امریکہ کی جنوبی ریاستوں ٹیکسس، فلوریڈا، لوزیانہ اور ایریزوناکے ہسپتالوں میں مریضوں کی آمد بڑھ گئی۔اتفاق سے ان تمام ریاستوں میں صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی برسراقتدار ہے، تاہم اکثربڑے شہروں کے میئر ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیں، چنانچہ ریاستی اور شہری حکومتوں کے درمیان چپقلش صاف نظر آرہی ہے۔ ریپبلکن پارٹی ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن منعقد کرنا چاہتی تھی جسکی گورنر نے منظوری دیدی لیکن شہر کے سیاہ فام میئر نے مرکزی سماعت گاہ کو  عارضی ہسپتال بنانے کا اعلان کردیا۔ NRGکے نام سے مشہور یہ وہی سماعت گاہ ہے جہاں گزشتہ سال ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی نے صدر ٹرمپ کے ہمراہ بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا۔
اتوار 12 جولائی کو صرف فلورڈا میں 15 ہزار نئے مریض سامنے آئے۔ ایریزونا کے مردہ خانوں میں جگہ نہ رہی اور لاشیں رکھنے کیلئے خوراک ڈھونے والے منجمد یا Freezing Truckکرائے پر حاصل کئے گئے۔ٹیکسس اور لوزیانہ کے ہسپتالوں میں جگہ تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے ان ریاستوں میں لاک ٖڈاون کو دوبارہ سخت کردینے کی بات شروع ہوگئ ہے۔ شراب خانوں اور ریستورانوں میں بیٹھ کر پینے اور کھانےکی سہولت ختم کردی گئی ہے۔ کئی جگہ ساحل پر پولیس کے ذریعے تن دوری کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ماسک کو بھی بہت سےشہروں میں لازم کردیا گیا ہے۔
کرونا کی وباکے ساتھ ہی 3نومبر کو ملک میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں اور سیاست کا اثراس موذی مرض سے بچاو  کی کوششوں پر نظر آرہاہے۔ صدر ٹرمپ پُر اعتماد تھے کہ بہتر اقتصادی صورتحال، بازارحصص کی اعلیٰ سطح اور 3 فیصد سے بھی کم بے روزگاری کی بنا پر انکے لئے دوبارہ انتخاب جیتنا زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ ملکی معیشت کو انھوں نے اپنی انتخابی حکمت عملی کی بنیاد بنایا تھا لیکن کرونا سے سار ی دنیا کی طرح امریکی معیشت بھی شدید دباو میں ہے۔ بیروزگاری کا تناسب 13 فیصد ہے۔ سیانوں کا خیال ہے کہ کرونا کی وباپر قابو پانے کے بعد بھی معیشت کی مکمل بحالی میں کم ازکم دوسال لگیں گے اور اگلے سال کے اختتام تک بیروزگاری کی شرح کے 10 فیصد سے کم ہونے کے امکان بہت کم ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19اتناخطرناک اور مہلک نہیں جتنا ڈاکٹر حضرات کہہ رہے ہیں۔ انکےخیال میں ڈیموکریٹک پارٹی اور بیماریوں کے کنٹرول کے قومی ادارے یا CDCنے اسے ایک ہوا بنادیا ہے جسکی وجہ سے امریکیوں میں غیر ضروری خوف و ہراس ہے۔ امریکی صدر شبہہ ظاہر کررہے ہیں کہ کرونا کا ہنگامہ کھڑا کرکے انکے مخالفین ملکی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جسے انھوں نے چار سال کی محنت شاقہ سے بام عروج پر پہنچایا ہے۔ وہ  CDCکے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاوچی پر بھی 'بہت سی غلطیاں' کرنے کا الزام لگاچکے ہیں
اب امریکی صدر کا اصرار ہے کہ اگست میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکول کھولدئے جائیں۔گزشتہ روز سی این این پر گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرتعلیم بیٹسی ڈیواس نے کہا کہ اب ہفتے میں پانچوں دن کلاسیں شروع کرنے کا وقت آگیاہے۔ فاضل وزیر کاکہنا تھا کہ بچوں کا اسکول آنا بالکل محفوظ ہے لہذا آن لائن کے بجائے طالب علموں کو کمرہ کلاس میں بیٹھ کر سبق لینا چاہئے۔ محترمہ ڈیوس کے مطابق سائنس دانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ بچوں کو یہ وائرس نہیں لگتا، اس لیے اسکول بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر بند رہنے والے اسکولوں کی وفاقی مدد معطل کردی جائیگی۔ دوسری طرف سی ڈی سی کو اسکولوں کے کھلنے پر شدید تحفظات ہیں۔ ٖڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ  احتیاطی تدابیر کے بغیر اسکولو ں کوکھول دینا سخت خطرناک ہوسکتا ہے۔ماسک کی پابندی تو زیادہ مشکل نہیں لیکن تن دوری کے اہتمام اتنا آسان نہیں اور ہر کلاس کیلئے کم ازکم 3 کمروں کی ضرورت پڑیگی۔یعنی عمارت میں دوتہائی توسیع کے بغیر اسکولوں کو کھولنا ممکن نہیں۔ صحت کے ماہرین کو شدید تشویش اساتذہ کی جانب سے ہے۔امریکہ میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 4 لاکھ کی عمر 60 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اکثر سینئر اساتذہ ذیابطیس، سانس کے عارضے یا بلند فشار خون  میں مبتلا ہیں اور اس وبا کا شکار ہو سکتے ہیں۔والدین کی بڑی تعداد بھی اسکول کھولنے کے حق میں نہیں۔ 13 جولائی سے ریاست مشیگن  کے شہر ڈیٹرائٹ میں جب اسکول کے گرما سیشن کا آغاز ہوا تو سینکڑوں والدین نے اسکے خلاف مظاہرہ کیا اور اسکول بسوں کے آگے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اسکے جواب میں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے اسکول کھولنے کے حق میں مظاہرہ کیا۔
صدر ٹرمپ کے سخت روئے سے انسداد کرونا کی کوششیں متاثر ہورہی ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے تک وہ ماسک لگانے پر اپنے حریف جو بائیڈن کا مذاق اڑاتے رہے بلکہ یہ بھی فرماگئے کہ بہت سے مخالفین انھیں چڑانے کیلئے ماسک استعمال کرتے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت صدر کے روئے کو پسند نہیں کرتی۔ حال میں لئے جانے والے ایک جائزے سے اندازہ ہوتا کہ ملک کے 62 فیصد لوگوں کے خیال میں کرنا وائرس کے خلاف کوششوں میں صدر ٹرمپ کا رویہ غیر سنجیدہ نظر آرہا ہے۔
اب جبکہ انتخابات میں صرف 4 ماہ باقی ہیں،ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار پر بھی گرما گرم بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ CDCکے افسران ووٹنگ کے دوران کرونا کے پھیلاو کا خطرہ ظاہر کررہے ہیں۔ انکاکہنا ہے ذاتی طور پر حاضر ہو کر ووٹ ڈالنے کے بجائے اسکا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں آن لائن اور بذیعہ ڈاک ووٹنگ کے طریقے تجویز کئے گئے ہیں۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر ووٹروں کا پولنگ اسٹیشن پر آناضروری ہو تو ووٹنگ کا دورانیہ بڑھاکر ہجوم کو کم سے کم کرنے کے طریقے اختیار کر نے کی ضرورت ہے۔
امریکہ میں ووٹنگ کا طریقہ کار طئے کرنا ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔اس بنا پر معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ریاست کولوریڈو نے پرائمری انتخابات میں 99 فیصد ووٹروں نے بذیعہ ڈاک یا پوسٹل بیلٹ استعمال کئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر اقلیتی ووٹروں کو ہراساں کئے جانے کی شکایات بہت عام ہیں اور پوسٹل بیلٹ سے اس شکائت کا ازالہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں قبل از وقت پولنگ کا طریقہ رائج ہے یعنی پولنگ کی تاریخ سے دوہفتہ پہلے ہی بہت سے پولنگ اسٹیشن کھول دئے جاتے ہیں تاکہ پولنگ کو روز ہجوم نہ ہو۔ ایک تجویز ہے کہ اس بار قبل از وقت پولنگ کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔
صدر ٹرمپ بذریعہ ڈاک ووٹنگ کے سخت خلاف ہیں۔ انکا خیال ہے کہ یہ طریقہ محفوظ نہیں اور  بڑے پیمانے پر جعلی ووٹنگ ہوسکتی ہے۔بہت سے شہریوں کو خدشہ ہے کہ بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے میں انکی شناخت اور ذاتی نوعیت کی معلومات افشا ہوسکتی ہیں۔
اسی کے ساتھ کرونا وائرس کی وبا نے امیدواروں کیلئے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ان حالات میں روایتی جلسے یا انتخابی ریلیاں ممکن نہیں اور 15 کروڑ ووٹروں سے رابطے کا سب سے موثر  ذریعہ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، ریڈیو اور ٹیلی وژن ہیں،جن پر خطیر رقم خرچ ہورہی ہے۔ 2016 کی انتخابی مہم پر مجموعی طور پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے اور اس بار شائد اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ رقم درکار ہو۔ صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن ووٹ سے پہلے نوٹ جمع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انتخابی چندہ جمع کرنے کی مہم میں فی الحال جوبائیڈن کو امریکی صدر پر ایک کروڑ ڈالر کی برتری حاصل ہے۔ سوشل میڈیا میں صدر ٹرمپ صرف ٹویٹر کو استعمال کررہے ہیں جو بالکل مفت ہے اسکے علاوہ وہ محدود پیمانے پر عوامی جلسے بھی کررہے ہیں۔دوسری طرف جو بائیڈن فیس بک اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارم پر خطیر رقم خرچ کررہے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب عام انتخابات میں ڈالے گئے پاپولر ووٹوں کے بجائے ریاستوں کے الیکٹرل ووٹوں سے ہوتا ہے، اسلئے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں اور اس بارکرونا وائرس نے بے یقینی کو دو چند کردیاہے۔ ماہرین طب کے خیال میں موسمِ خزاں میں کرونا وائرس کی ایک نئی لہر  خارج از امکان نہیں۔ نیا حملہ رائے عامہ کی صورت گری کس نہج پر کریگا اسکے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے کہ اسکی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔
اسوقت تک کی صورتحال جو بائیڈن کے حق میں نظر آرہی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں چار ریاستیں صدر ٹرمپ کی کامیابی کا باعث بنی تھیں۔صدر کو مشیگن میں 0.03، پنسلوانیہ میں 0.7، فلوریڈا میں 1.2 اور وسکونسن میں 0.77 فیصد ووٹوں کی برتری پر ان ریاستوں سے مجموعی طور پر 73 الیکٹرل ووٹ ملے تھے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان تمام ریاستوں میں اس بار جو بائیڈن کو برتری حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار سینیٹر ہیلری کلنٹن سیاہ فام ووٹروں کو گھر سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکیں  اور 2012 کے ریپبلکن امیدوار مٹ رامنی سے کم ووٹ لینے کے باوجود صدرٹرمپ کو ان ریاستوں میں اپنی مخالف پر برتری حاصل ہوگئی۔ اس بار سیاہ فاموں میں خاصہ جوش و خروش ہے جسکی وجہ سے ٹیکسس جیسے ریپبلکن کے قلعے میں بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
سیاہ فاموں کے علاوہ غیر ملکی تارکین وطن کے ووٹ بھی اہمیت کے حامل ہیں لیکن تارکینِ وطن ان انتخابات کے نتائج پر کس حد تک اثر انداز ہوں گے اس کا دار و مدار کئی عوامل پر ہو گا۔ امریکہ کے غیر جانبدار مرکز دانش (Think Tank)پیو Pewتحقیقی مرکز کے مطابق غیر امریکی  نژاد ووٹروں کی دوتہائی کے قریب تعداد کیلی فورنیا، نیویارک، فلوریڈا، ٹیکسس اور نیوجرسی میں آباد ہے۔ ٹیکسس اور فلوریڈا کے سوا باقی تین ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں اسلئے ان ریاستوں میں تارکین وطن کے ووٹ شائد فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکیں لیکن فلوریڈا کے 25 لاکھ غیر ملکی نژاد ووٹر تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسس کے 18 لاکھ تارکین وطن اگر صدارتی انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے تب بھی  کانگریس اور سینیٹ کی نشستوں پر ریبپکن امیدواروں کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ غیر ملکی تارکین وطن کے بارے میں صدر ٹرمپ کا رویہ توہین آمیز ہے اورگزشتہ چار سالوں کے دوران امیگریشن سے متعلق انکے فیصلوں اور اقدامات پر تارکین وطن کو خاصی  تشویش ہے چنانچہ ماہرین توقع کررہے ہیں کہ تارکین وطن بلاک کی صورت میں ریپبلکن پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔
سیاسی ماہرین کے خیال میں اس بار مشیگن اور وسکونسن سے جو بائیڈن کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو فلوریڈا اور پنسلوانیہ میں سے کسی ایک ریاست میں بھی کامیابی قصر مرمریں کی کنجی انکے قدموں میں ڈال دیگی۔
معزز قارئین، ماہرین کی رائے سر آنکھوں پر لیکن یہ تجزیہ رائے عامہ کے جائزوں اور اس مفروضے پر مبنی ہے کہ 2020 کے نتائج 2016 کے مطابق ہونگے۔ شماریات اور تجزیاتی ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد  رائے عامہ کے جائزے خاصے معتبر ہیں لیکن یہ بہر حال رائے عامہ کا جائزہ ہے اور پھر ابھی انتخابات میں چار مہینے باقی ہیں یعنی پلوں کے نیچے سے ابھی بہت سارا پانی بہنا ہے اسلئے نتائج کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ انشااللہ اس موضوع پر آنے والے دنوں میں مزید گفتگو ہوگی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 جولائی 2020
ہفت روزہ دعوت دہلی 17 جولائی
2020

No comments:

Post a Comment