خڑکمر واقعہ ۔۔ مفاہمت و بہتری کے آثار
خبر گرم ہے کہ حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)
رہنماؤں کے خلاف خڑ کمر (دۃکمرخو) مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بدقسمتی سے
قومی اہمیت کے اکثر معاملات میں عمران حکومت کا رویہ صاف
چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا ہے اور یہاں بھی گو مگو کی کچھ
ایسی ہی صورت نظر آرہی ہے۔ مزے کی بات کہ اتنے حساس مقدمے کے حوالے سے پاکستانی میڈیا
پر تو خاموشی ہے لیکن صدائے امریکہ (وائس آف امریکہ)، بی بی سی اور
ریڈیو جرمنی پر خبریں نشر ہورہی ہیں۔
مقدمہ
واپس لینے کی خبر مارچ میں شایع ہوئی تھی
جب دہشت گردی عدالت کے ایک اہلکار نے مبینہ طور پر انکشاف کیا کہ حکومت یہ مقدمہ
واپس لینا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں سرکاری وکیل (پراسیکیوٹر) نے بنوں کی انسداد دہشت گردی عدالت کودرخواست جمع کرادی ہے۔ یہ تو احباب کو معلوم ہی ہوگا کہ
مقدمے کی سماعت ایبٹ آباد میں ہورہی ہے۔چونکہ معاملہ بے حد حساس ہے اسلئے فاضل
افسر نے اس اطلاع کے اجرا سے پہلے اپنی شناخت خفیہ رکھنےکی شرط عائد کی تھی جس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اس خبر کی تشہیر نہیں چاہتی۔
جب
صدائے امریکہ نے پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر سے اس بابت سوال کیا تو انھوں نے اس بات
کی تصدیق کی کہ قید کے دوران سیکیورٹی
حکام نے مقدمہ واپس لینے کا عندیہ دیا تھا لیکن
جناب علی وزیریا انکے وکیل کو سرکاری طورپر کوئی اطلاع نہیں دی گئی ۔
یہ
واقعہ گزشتہ سال 26 مئی کوجنوبی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں پیش آیاتھا۔ سیکیورٹی
حکام کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنماوں
علی وزیر اور محسن داوڑ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خڑ کمر کی چوکی پر حملہ کیا ۔
فوج نے اپنے تحفظ میں گولی چلائی اور اس تصادم میں ایک فوجی اہلکار سمیت 15 افرادجاں بحق ہوگئے۔سرکاری
اعلان کے مطابق فائرنگ سے علی وزیر زخمی
ہوگئے تھے جنھیں فوج نے گرفتارکر لیا جبکہ
محسن داوڑ جائے واردات سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران پی ٹی ایم کے آٹھ دوسرے کارکن
بھی گرفتار کئے گئے۔ 30 مئی کو محسن داوڑ
نے بنوں کی ایک عدالت میں گرفتاری دیدی ۔
واقعہ
کے بارے میں پی ٹی ایم کا موقف ہے کہ انکے
قائدین ایک قافلے کی شکل میں دھرنا دینے جارہے تھے کہ چوکی پر انھیں روک لیا گیا
اور فوج نے بلاتنبیہ نہتے و پرامن مظاہرین پر فائرنگ کردی۔
بعد میں
پشاور ہائی کورٹ نے محسن داوڑ، علی وزیر اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کی ضمانت پر رہا کردیا تھا
۔گزشتہ کئی ماہ سے اور پی ٹی ایم کے
رہنماوں کے درمیان قریبی روابط تھے۔حکومت نے وزیرِ دفاع پرویز خٹک کو اپنا مذکرات
کار مقرر کیا ہے۔
تنازعات
کا بات چیت کے ذریعے حل ہوجانا یقیناً ایک اچھی خبر ہے اور ضرورت اس بات کی ہے اس
خیر سگالی کو غلط فہمیوں کے مستقل بنیادپر
ازالے کیلئےاستعمال کیا جائے۔ ہمارا قبائلی علاقہ ایک عرصے سے بدامنی کا شکارہے۔
اپریشن کے دوران پاک فضائیہ کی بمباری سے قبائلیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان
پہنچاہے۔ انکے گھربار، مویشی اور بازار تباہ ہوگئے ہیں جنکی جلد از جلد تعمیر نو
ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی تسلیم کرلینے کی ضرورت ہے کہ فوجی آپریشن کسی بھی مسئلے
کا حل نہیں۔ ملک کے پشتون اور قبائلی کئی
دہائیوں سے آپریشن کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ملک بھر کے ناکوں پر پٹھان نو جوانوں اور پردہ دار خواتین سے تلاشی کے نام پر
بدسلوکی کی شکائت عام ہے۔
قبائلی
علاقوں کا انتظام منتخب نمائندوں اور عمائدو مشران کےحوالے کرکے فوج کو واپس بلالینا
وقت کا تقاضہ ہے۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب غیر ملکی جارحیت اور آزمائش کے دوران کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ پوری قوم مسلح افواج
کی پشت پر کھڑی ہو۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ فوج سے وہ کام نہ لیا جائے جو پولیس،
شہری انتظامیہ، سیاسی قیادت اور عدلیہ کے کرنے کے ہیں۔
No comments:
Post a Comment