ترک جمہوریت پر شبخون کی چوتھی سالگرہ
15
جولائی کو ترک ملت جمہوریت پر حالیہ شب خون کی چوتھی سالگرہ منارہی ہے۔ اس موقع
پر 4 سال پہلے امت میں شائع ہونے والے
ہمارے ایک مضمون سے اقتباس
فوجی بغاوت کا حالیہ منصوبہ بہت ہی احتیاط اور کامل رازداری
سے بنایا گیا تھا۔انقلاب کیلئے چاربنیادی اہداف ترتیب دئے گئے تھےجسکے تحت:
صدر، وزیراعظم اور مسلح افواج کے سپہ سالار کا خاتمہ
آبناے باسفورس اور ڈارڈینیلس کے پلوں کی بندش
انقرہ اور استنبول ائرپورٹس پر قبضہ اور
سرکاری ٹیلی ویژن پر انقلاب کا اعلان کیا جانا تھا
نصف شب کو پارلیمنٹ
سے متصل وزیراعظم یلدرم کے دفتر پر بمباری سے کاروائی کا آغاز ہوا لیکن وزیراعظم
اسوقت دفتر سے باہر تھے۔ اپاچی اور گن شپ ہیلی کاپٹر کی ایک ٹکڑی جنوبی ترکی کے اس
ہوٹل پر حملہ آور ہوئی جہاں صدر اردوان اپنے اہل خانہ کے ساتھ قیام پزیر تھے۔
چھاپہ مار سپاہی رسیوں کی مدد سے ہوٹل میں اتر بھی گئے لیکن ترک صدر اس سے چند منٹ
پہلے ہی وہاں سے نکل چکے تھے۔ باغی ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوسی اکر
کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ ایک دستے نے ٹیلی ویژن پر قبضہ کرکے انقلاب
کا اعلان کردیا جسکے نتیجے میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے میڈیا نے ERDO-GONEکی طنزیہ سرخی لگادی۔
یہی باغیوں کی سب
سے بڑی غلطی تھی کہ اس اعلان سے صورتحال واضح ہوگئی اور صدر اردوان نے سوشل میڈیا
پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے فوجی بغاوت کے خلاف عوام کومزاحمت کا پیغام دیا۔ انھوں
نے گرجدار لہجے میں کہا کہ 'ترکو استنبول ائر پورٹ پہنچو میں آرہا ہوں' صدر کا
اعلان سنتے ہی شہریوں کے غول کے غول سڑکوں پر نکل آئے۔ اس موقع پر مساجد کے
لاوڈاسپیکرز سے صدر اردوان کا پیغام بار بار نشر کیا گیا اور عوام سے سڑکوں پر آنے
کی اپیل کی گئی اور چند ہی گھنٹوں میں سارا ترکی سڑکوں پر تھا۔ طئے شدہ چار میں سے دو کلیدی اہداف کے حصول میں
ناکامی، صدر اردوان کی سوشل میڈیا پر تقریر اور سڑکوں پر عوام کے ہجوم سے باغی
سراسیمہ ہوگئے اور استنبول ائر پورٹ پر ایندھن بھرنے والے ٹرکوں کو نذر آتش کرکے
دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ گن شپ ہیلی کاپٹرز نے انقر ہ اور استنبول کے معصوم شہریوں
کو نشانہ بنایا۔اسکے ساتھ ہی F16 طیاروں نے آبنائے
باسفورس پر نچلی پرواز کرکے دہشت کا بازار گرم کیا۔ٹیلی ویژن پرباربار یہ خبر نشر کی جاتی رہی کہ صدر اردوان
ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر پاکستان کے ایک بہت بڑے اینکر نے یہ افواہ اڑادی
کہ جناب اردوان نے سیاسی پناہ کیلئے وزیراعظم نوازشریف سے درخواست کی ہے حالانکہ اس
وقت ترک صدر اپنے خصوصی طیارے میں استنبول کی طرف محو پرواز تھے۔ اس دوران وزیراعظم
یلدرم فوج کے ہیڈکوارٹر پہنچ گئے اور نائب وزیراعظم محمد سمسک عوام کے ایک بڑے
جلوس کی قیادت کرتے ہوئے صدر کا استقبال کرنے استنبول ائرپورٹ جا پہنچے۔اسوقت جبکہ
ائرپورٹ باغیوں کے نرغے میں تھا۔ باغیوں کے F16 اسکوڈرن نے استنبول کی فضائی حدود کو اپنے حصار
میں لیا ہوا تھا اور اپاچی ہیلی کاپٹر رن وے گولیاں برسا رہے تھے صدر اردوان کی
استنبول کی جانب پرواز ایک انتہائی جرات مندانہ فیصلہ تھا جس نے عوام کے حوصلوں کو
آسمان تک پہنچا دیا اور نہتے لوگو ں نے
مسلح سپاہیوں سے اسلحہ چھین لیا۔ نوجوان ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور چوراہوں پر
دھرنا ڈال کر فوج کی پیش قدمی روک دی۔نائب وزیراعظم کی قیادت میں پہنچنے والے جلوس
نے استنبول کے اتاترک ائر پورٹ سے باغی فوجیوں کا مار بھگا یا اور صدر اردوان کا
طیارہ بحفاظت وہاں اتر گیا۔ ترکی کی تاریخ فوجی انقلاب سے بھری پڑی ہے اور عوامی
مینڈیٹ پر شبخون ہمیشہ سیکیولرازم کے تحفظ کے نام پر مارا گیا جسے بے خداعدلیہ کا
تعاون حاصل رہا۔ اس موقع پر شبخون کی مختصر سی تاریخ قارئیں کی دلچسپی کا باعث
ہوگی:
1960 میں جنرل جمال گرسل نے وزیراعظم عدنان میندیس کا تختہ
الٹا جسکے بعد وزیر اعظم کو انکے ساتھیوں سمیت پھانسی دیدی گئی۔
1971 میں جنرل ممدوح تغلق نے وزیراعظم سلیمان ڈیمرل کی حکومت
کا تختہ الٹ دیا۔ ڈیمرل صاحب پر الزام تھا کہ وہ مدارس پر پابندی کو ختم کرنا
چاہتے تھے۔ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی گئی کہ وہ عدنان مندریس کی فکر سے متاثر
ہیں۔
1980 میں ترک نیوی کے سربراہ کو انقلاب کا شوق چرایا اور
ایڈمرل بلند الوسو سے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ
ایڈمرل صاحب نے تو محض پتلی تماشہ دکھایا تھا۔ اصل سرغنہ جنرل کنعان ایورن تھے۔
1997میں ایک 'نرم فوجی انقلاب' برپا ہوا اور فوجی نے
سیکیولر میڈیا، شکست خوردہ ریپبلکن پارٹی اور عدلیہ کی 'فرمائش' پر وزیراعظم نجم
الدین اربکان کی حکومت کا اس الزام میں تختہ الٹ دیا 'کہ اکبر نام لیتا ے خدا کا
اس زمانے میں'
حالیہ
بغاوت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ چند افسران کی کاروائی تھی اور اس میں فوج
کی اعلیٰ قیادت ملوث نہ تھی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن 1960 کا پہلا
فوجی انقلاب بھی 'مٹھی' بھر سپاہی لائے تھے۔ وزیراعظم میندریس کو پھانسی بھی ان
'نامعلوم' سپاہیوں نے دی۔ اس گھناونے جرم کے بعد جنرل جمال گرسل نے اقتدار سنبھال
لیا۔ جنرل صاحب نے عدنان میندریس کی پھانسی کی 'شدید مذمت' کی اور سابق وزیراعظم
کو انکے ساتھیوں سمیت پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ استنبول میں دفن کردیاگیا۔ اسی
طرح 1980 کا انقلاب بھی نیوی کے سربراہ لائے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا اسکے
پیچھے جنرل کنعان ایورن کا ہاتھ تھا۔
صدر
اردوان اور انکے ساتھی اس شرارت کا الزام معروف اسکالر
، مبلغ اور امام فتح اللہ گولن پر لگارہے
ہیں۔ 75 سالہ گولن گزشتہ 16 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ گولن سعید الزماں المعروف
بدیع الزماں نورسی کے شاگرد ہیں۔کردستان کے علاقے نورس میں جنم لینے والےسعید
الزماں نورسی کو ترکی کا ابولاعلیٰ مودودی سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ 25 سالوں سے گولن
صاحب کی توجہ تعلیم اور سماجی خدمات کی طرف ہے، انھوں نے جماعتِ خدمت کے نام سے
ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے جسکا ترکی نام Hizmetہے۔ یہ ادارہ جماعت کے نام سے مشہور ہے۔سارے ترکی میں
ہزاروں اسکول جماعت سے وابستہ ہیں اسکے علاوہ جماعت یا گولن تحریک نے یتیم خانے
اور ہنر کدے قائم کر رکھے ہیں جہاں معذوروں کو فنی تعلیم دے کر اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں قائم پاک ترک اسکول اور پاک ترک کالج جماعت ہی سے وابستہ ہیں۔ امریکہ
میں Harmonyاسکولز کے نام سے
جماعت کے سینکڑوں اسکول کام کر رہے ہیں۔ان اسکولوں میں معیاری تعلیم بالکل مفت یا
انتہائی کم فیسوں پر دی جاتی ہے۔ امریکہ کے ہر بڑے شہر میں ترک ثقافتی مراکز قائم
ہیں جہاں سے مقامی مسلمان استفادہ کرتے ہیں۔ فتح اللہ گولن پروفیسر نجم الدین
اربکان کے ساتھی تھے اور جب وزیراعظم اردوان نے انصاف و ترقی پارٹی قائم کی تو
گولن صاحب اردوان کا دست و بازو بن گئے۔ گولن اور اردوان کے درمیان اختلافات اسوقت
سامنے آئے جب 2013 میں جماعت نے اردوان پر مالی کرپشن اور اقربا پروری کے الزام
لگاکر انکے خلاف عوامی مظاہرے کئے۔ سیکیولر طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کئی
ہفتوں تک حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے۔ اردوان کے ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ان
مظاہروں کیلئے جماعت نے مالی مدد فراہم کی۔ پے درپئے شکست کے بعد گزشتہ چند سالوں
سے ترک سیکیولر قوتیں سیاسی میدان سے بظاہر پیچھے ہٹ گئی ہیں اور وہ اسلامی ذہن کے
لوگوں کو اردوان کے مقابلے کیلئے سامنے لارہی ہیں جسکی بہت عمدہ مثال 2014 کے
صدارتی انتخابات تھے جن میں براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے حزب اختلاف او آئی سی
کے سابق سکریٹری جنرل ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو کو سامنے لائی۔ اکمل الدین
صاحب ایک موقر اسلامی اسکالر اور نامیاتی کیمیاکے ماہر ہیں۔ سائنسی علوم کی ترقی
میں مسلمانوں کے کردار پر انکے لیکچرز بہت دلچسپی سے سنے جاتے ہیں۔اب جناب فتح
اللہ گولن نے اردوان حکومت کے خاتمے کا علم اٹھالیا ہے اورکشیدگی کا یہ عالمکہ
گولن صاحب اردوان حکومت کے خاتمے کیلئے فوج اور عدلیہ کے اسلام دشمن عناصر کے ساتھ
مل کر غیر جمہوری اقدامات پر اتر آئے ہیں
جبکہ مشتعل اردوان نے گولن تحریک کے کارکنوں کی گرفتاری اور اسکےخیراتی اداروں،
عوامی لائبریریوں اور مدارس کو بند کرنے کے احکامات جاری کردئے ہیں۔ ایک اطلاع کے
مطابق پاکستان میں ترکی کے سفیر نے حکومت سے پاک ترک اسکولوں کو بند کرنے کا
مطالبہ کیاہے۔ صدر اردوان نے فتح اللہ گولن کی حوالگی یا کم ازکم امریکہ بدری کیلئے
اپنے امریکی ہم منصب سے کئی بار گفتگو کی ہے۔ ترک وزارت تعلیم نے امریکی ریاست
ٹیکسس کے محکمہ تعلیم کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکسس کےHarmonyاسکولوں میں انتہا
پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے لہٰذا ان اداروں کو تالہ لگادیا جائے۔ ایسا ہی مطالبہ
ترک ثقافتی مراکز کے حوالے سے بھی کیا جارہا ہے۔ مزے کی بات کہ کئی مراکز کا
افتتاح خود جناب اردوان نے کیا تھا اور انکے نام کی تختیاں آج بھی وہاں لگی ہیں۔
بدترین آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود اسلامی تحریکوں نے اختلافی مسائل پر اعتدال و
برداشت کے گر نہیں سیکھے۔ ایسے ہی فروعی اختلاف نے مصر میں اخوان اور سلفیوں کو
ایکدوسرے کے خلاف صف آرا کیا اور یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ سلفی تحریک نے
اخوانیوں کے خلاف قصابِ قاہرہ جنرل السیسی کا ساتھ دیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اسوقت
ترکی میں ہے۔ اگر گولن اور اردوان نے اپنے اختلافات کو ختم کرنے کیلئے بات چیت، اخلاص
اور برداشت کا مظاہرہ نہ کیا تو ساٹھ سال قبل عدنان میندریس اور انکے پاکباز
ساتھیوں نے اپنے مقدس لہو سے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی جس عظیم الشان تحریک کی بنیاد
رکھی تھی اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے اور وہ بھی اس مرحلے پر کہ جب
کامیابی تحریک کے قدم چوم رہی ہے۔کاش ترک رہنماامریکہ کی ریپبلکن پارٹی سے سبق
سیکھ لیں کہ جسکی پوری قیادت ڈونالد ٹرمپ کی نامزدگی پر مطمعن نہیں لیکن وہ محض اسلئے
ٹرمپ کی امامت پر راضی ہیں کہ برے سے برا ریپبلکن بھی ڈیموکریٹ سے بہتر ہے۔
No comments:
Post a Comment