عبدالستار ایدھی
آج مولانا عبدالستار ایدھی کی چوتھی برسی ہے۔ اس موقع پر ہم وہ
پوسٹ آپکی خدمت میں پیش کررہے ہیں جو انکی وفات
پر لکھی گئی:
عبدالستار
ایدھی دنیا سے کوچ کرگئے۔ ایدھی صاحب کو جمعرات کی شام مصنوعی تنفس پر رکھا گیا
تھا لیکن دوسروں کی خدمت کرنے والے جسم سے یہ احسان برداشت نہ ہوسکا اور یہ خادم
انسانیت صرف چھ گھنٹے بعد دار فانی سے کوچ کرگیا۔ دنیا میں خدمت خلق کا کام کرنے
والوں کی کمی نہیں لیکن جو چیز ایدھی کو ساری دنیا سے ممتاز کرتی ہے وہ خدمت خلق
کے کام میں انکا انہماک ہے۔ وہ خود ہی ایمبیولینس چلاتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچتے
وہاں سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے جبکہ جاں بحق ہوجانے والوں کی لاشیں انکے لواحقین کے گھر لے کر جاتے۔ لاوارث لاشوں کو اپنے ہاتھ سے غسل
دیتے۔ خواتین کی میتوں کو انکی اہلیہ غسل دیتیں اور لاشوں کی تدفین تک ایدھی صاحب
قبر کے سرہانے کھڑے رہتے۔ خدمت خلق ہی انکا اوڑھنا بچھونا تھا۔ میں یقین سے نہیں
کہہ سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ مرحوم کا کوئی ذاتی مکان یا جائداد نہ تھی اور وہ
کھارادر کے بانٹوا ہسپتال ہی میں رہا کرتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل
ایدھی صاحب کو نوبل انعام دینے کیلئے مہم بھی چلائی گئی۔ میرے خیال میں اسکی ضرورت
نہ تھی کہ ایدھی کا مقام اس سے بہت بلند ہے۔ یہ تو وہ انعام ہے جو ڈرون حملوں میں
ہزاروں بیگناہوں کو قتل کرنے والے بارک اوباما کو عطا ہوا۔ قصابِ صابرہ و شتیلا
منیخم بیگن جسکا حقدار قرارپایا۔ یہ وہ تمغہ ہے جو وطن فروشی کے صلے میں انوارالسادت
کے گلے میں ڈالا گیا۔ ایسا فضول اور مہمل انعام ایدھی صاحب کیلئے توقیر کا نہیں
توہین و تذلیل کا باعث بنتا کہ یہ خادم انسانیت اس سے کہیں اعلیٰ اور ارفع مقام پر
فائز ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام آباد کے زیرتعمیر ائرپورٹ کو ایدھی کے نام سے
موسوم کردیا جائے یہ سارے اہل پاکستان کیلئے عزت و افتخار کا باعث ہوگا۔
ہمیں ایدھی
صاحب کا انتخابی کارکن ہونے کا شرف رہا ہے۔ یہ غالبا 1974 یا 75 کی بات تھی۔ سینیٹ
کی تشکیل کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی نے سینیٹر بننے کا فیصلہ کیا اور انکی
قومی اسمبلی کی نشست خالی ہوگئی۔ یہ میٹھادر و کھارادرپر مشتمل کراچی کا حلقہ نمبر
7 کہلاتا تھا۔ عبدالستار ایدھی صاحب نےمحلے کے نوجوانوں کے اصرار پر ضمنی انتخاب
لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مقابلے میں پیپلز پارٹی کے جسٹس نورالعارفین اور جمیعت علمائے
پاکستان کے محمد حنیف حاجی طیب تھے۔ ہم لوگوں نے ایدھی صاحب کی مہم بہت خلوص اور
محنت سے چلائی لیکن جیتنا تو درکنار انکی ضمانت بھی ضبط ہوگئی کہ بازارِ سیاست میں
دیانت و خدمت کی کوئی مانگ نہیں۔ستار ایدھی اس سے پہلے 1970کے عام انتخابات میں
بھی اپنی ضمانت ضبط کراچکے تھے۔
ایدھی صاحب اب
اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں جو چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے اجر دیتا ہے اور بڑے
بڑے گناہ معاف کردیتا ہے۔دعا ہے کہ ا للہ تعالی اپنے اس فقیرسے نرمی کا معاملہ
فرمائے۔ انکی لغزشوں سے صرف نظر فرمائے ۔لاوارث لاشوں کو عزت و احترام سے دفنانے
والے کی قبر کو فراخی عطا ہو یہ یہ جنتوں کے باغوں میں سے ایک باغ بن جائے۔ یہ ایک
اچھے انسان کی موت ہے اور دنیا میں اچھے انسانوں کی پہلے ہی بہت کمی ہے۔
No comments:
Post a Comment