Sunday, March 31, 2019

ترکی کے بلدیاتی انتخابات


ترکی کے بلدیاتی انتخابات
 ترکی کے بلدیاتی انتخابات  میں  صدر طیب رجب اردوان  نے اپنی برتری  تو قائم رکھی لیکن  انقرہ میں شکست سے  رنگ میں کچھ بھنگ سا پڑگیا ہے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران   ترقی و انصاف پارٹی یا AKPنے  44.42فیصد اور انکی قریب  ترین  حریف  اتاترک کی CHPنے  30.07 فیصد ووٹ لئے۔ اگر اتحادیوں کے ووٹ جوڑ لئے جائیں  تو 51.67فیصد ترکوں نے حکمراں  عوامی اتحاد کے حق میں رائے دی اور 37.53فیصد  ووٹروں نے حزب اختلاف کے جمہوری اتحاد پر اعتماد کا اظہار کیا۔  نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی ترجیح قومی انتخابات سے ذرا مختلف ہوتی ہے اور لوگ   بلدیاتی پرچہِ انتخاب )بیلٹ پیپر)پر ٹھپہ لگاتے  وقت  نظریات، قانون سازی اور پالیسی کی تشکیل سے زیادہ گلی محلے کے مسائل  کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں جوش و خروش دیدنی تھا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 84فیصد سے زیادہ رہا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ترکی کی معیشت شدید دباو میں ہے۔ بیرونی قرض بڑھنے اور ترک لیرا کے زوال کی بنا پر ملک کو شدید مہنگائی کا سامنا ہے اور  وزگار کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ۔ نوجوان ترک ایردوان کا دست بازو ہیں اور یہی طبقہ  بیروزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔  حزب اختلاف   کے سربراہ  کمال کوچدارولو   Kemal Kılıçdaroğluنے ترک معیشت کو انتخابی مہم کی بنیاد بنایا ۔ ترک تاریخ کی یہ پہلی  مہم تھی  جس میں CHP  کے جلسوں میں  'حمدِ اتاترک 'اور  سیکیولر ازم کے فیوض و برکات کا کوئی ذکر نہیں سنا گیا اور نہ ہی اردوان کی ملائیت  ہدف  تنقید بنی بلکہ حزب اختلاف کا سارا زور معیشت پر تھا ۔ کمال کوچدارولو اور انکے اتحادی حزب  خیر (Good Party)کی محترمہ  مرال کثر  Meral Akşener اپنی  تقریروں  میں اردوان کو ناکام ارسطو قراردیتے رہے جنھوں نے اپنے داماد کے ساتھ مل کر  ترک معیشت کابیڑا غرق کررکھاہے۔ صدر ایردوان کے داماد بیرات  البیراک Berat Albayrak ترکی کے وزیرخزانہ ہیں۔
 حزب اختلاف  نے ملک کے 6 بڑے شہروں یعنی دارالحکومت  انقرہ،  استنبول، ازمیر، برسا،اناطالیہ  اور ادانہ کو ہدف بنایا۔ حکومت مخالف جمہوری اتحاد نے انقرہ سے  ایردوان کی 25 سالہ برتری کا خاتمہ کردیا ساتھ ہی  اناطالیہ اور ادانا بھی لے اڑے۔ا سی کے ساتھ  سیکیولر CHPنےازمیر پر اپنی روائتی  برتری برقرار رکھی جبکہ استنبول میں گھمسان کا رن پڑا۔ یہاں   غیر سرکاری نتائج کے مطابق    ایردوان کے  امیدوار بن علی یلدرم  4773 ووٹوں کی  برتری سے  حزب اختلاف کے اکرم  امام اوغلو کو شکست دینے میں کامیاب  ہوگئے لیکن  یہ فرق  0.056 فیصد سے بھی کم ہے۔ امام اوغلو نے دوبارہ گنتی  کا مطالبہ کیاہے۔ استنبول AKPکا گڑھ ہے اور یہاں  ڈالے جانیوالے  82 لاکھ ووٹوں میں  5000سے  بھی کم  ووٹوں کی برتری کا خود صد ایردوان نے  بھی نوٹس لیا ہے۔
نتائج کے مطابق  کرد علاقوں،  جنوب ترکی،  بحرروم کے  ساحل اور  خلیج یونان  سے متصل علاقوں میں جناب ایردوان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات کا   خوش آئند پہلو یہ ہے کہ  کرد علاقوں میں  علیحدگی پسندوں کی جانب سے  بائیکاٹ  اور دہشت گرد وں کی دھمکیوں کے باوجود جوش وخروش کے ساتھ انتہائی پرامن  انتخابات ہوئے اور کردوں کی   پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی HDPنے برتری حاصل کی۔
انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترک عوام نے انکی پارٹی پر اپنے اعتماد کی تجدید کے ساتھ معاشی معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جوآنے والے دنوں میں انکی اولین ترجیح  ہوگی۔دوسری طرف  چند بڑے شہروں میں کامیابی کے باوجود حزب اختلاف کیلئے نتائج انکی توقعات  کے مطابق نہیں۔ رائے عامہ کے تمام جائزے جمہوری اتحاد کو حکمران عوامی اتحاد سے ایک آدھ  پوائنٹ آگے بتارہے تھے لیکن  حزب اختلاف کےمجموعی ووٹ 38 فیصد بھی کم رہے۔


Thursday, March 28, 2019

اساتذہ سے ایسا سلوک؟؟؟


اساتذہ سے ایسا سلوک؟؟؟
تیمور ہماری تاریخ کا ایک سفاک ترین  بادشاہ گزراہے جو فتح پانے کے بعد دشمن کے سروں کے مینار تعمیر کرتا تھا۔ کسی ایک شہر پر حملے کے دوران اسکا بہنوئی ہلاک ہوگیا تو اسکے انتقام میں اس نے انسانوں کے ساتھ شہر کے جانوروں  گائے  بھیڑ بکری ، مرغیوں اور کتے بلیوں کو بھی زندہ جلوادایا۔ لیکن  اسکی ہدایت تھی کہ اساتذہ اور انکے اہل خانہ کا ہاتھ نہ لگانا بلکہ جو لوگ کسی استاد کے گھر  پناہ لے لیں انھیں بھی  امان ہے۔
آج سندھ  میں اساتذہ سے جو سلوک ہوا اسے دیکھ کر شرم آتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ انکے مطالبات   غیر منصفانہ ہوں یا رویہ درست نہ ہو لیکن  ان پر ہاتھ اٹھانے کا کوئی جواز نہیں۔ سندھ کے وزیرتعلیم ایک شریف سید زادے ہیں۔ لیاری جیسے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کیلئے پرعزم ہیں۔ وہ شائد پاکستا ن کے واحد وزیر ہیں جو بے پناہ وسائل کے ہوتے ہوئے  بھی اپنی اکلوتی بیٹی کو حصول تعلیم کیلئےسرکاری اسکول بھیجتے ہیں۔ ہمیں جناب سردارعلیشاہ سے اسکی توقع نہیں تھی۔ شاہ صاحب  بکمال ِ مہربانی ہم  جیسے غریب زادوں سے بھی بہت عزت و احترام سے بات کرتے ہیں اسی بنا پر یہ کہنے کی ہمت کررہا ہوں کہ 'شاہ صاحب ہمارا دل  یہ تصویر دیکھ کر اسلئے اور بھی مغموم ہے کہ یہ سب آپ جیسے دیا نتدار اور علم دوست وزیرتعلیم کے دور میں ہورہا ہے۔ آپ تو خاندانی اعتبار سے ان سے وابستہ ہیں جنھیں  آپکے رب نے معلم بناکر مبعوث کیا تھا'




ترکی کے بلدیاتی انتخابات

اسوقت ترکی کے 48 صوبوں کی بلدیات میں AKPکی حکومتیں ہیں جبکہ 16صوبوں کی بلدیات حزب اختلاف کے قابو میں ہیں۔
ترکی میں 31 مارچ کو بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں جب ملک کے 81 صوبوں  میں 30 میٹرروپولیٹن میئر 1351 مونسپل میئر اور 22ہزار کونسلرز کے انتخابات  ہونگے۔ ان انتخابات میں  حکمراں  AKPسمیت   تمام سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ اصل مقابلہ طیب اردوان کی قیادت میں بننے والے  عوامی اتحاداور  قومی اتحاد کے درمیان ہے جسکے قائدکمال کوچدارولو Kemal Kılıçdaroğluہیں۔ عوامی اتحاد میں حکمران AKPاور قوم پرست مادروطن پارٹی  کے علاوہ 3 چھوٹی جماعتیں شامل ہے جبکہ قومی اتحاد پیپلز ریپبلکن پارٹی (CHP)، IYIپارٹی، سعادت پارٹی اور 12 چھوٹی جماعتوں پر مشتمل ہے۔اسکی کے ساتھ  کرد قوم پرست جماعتیں عوامی جمہوری پارٹی  (HDP) اورامن و جمہوریت پارٹی (DBP) مخصوص علاقوںمیں قسمت آزامائی کررہی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پابندیوں کی بنا پر ترک لیرا دباو میں ہے ۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح بڑھی ہےاور مہنگائی سے  لوگ خاصے پریشان ہیں۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مقابلہ خاصہ سخت ہے اور حزب اختلاف کے قومی اتحاد کو ہلکی سی برتری حاصل ہے۔بلدیات  رجب طیب اردوان  کی اصل قوت  کے اور انکی جماعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت  رکھتی ہیں۔ ترک صدر نے بلدیاتی سیاست ہی سے تبدیلی کا آغاز کیا تھا۔اسوقت ترکی کے 48 صوبوں کی بلدیات میں AKPکی حکومتیں ہیں جبکہ 16صوبوں کی بلدیات حزب اختلاف کے قابو میں ہیں۔  ترک سیاستدان یہ سمجھ چکے ہیں کہ قومی اقتدار کا راستہ بلدیاتی ایوانوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ اسی بنا  حزب اختلاف ان انتخابات کو بے انتہا اہمیت  دے رہی ہے۔
 Some 57 million people are eligible to vote in the March 31 local elections [Umut Uras/Al Jazeera]

اسرائیلی انتخابات اور صدر ٹرمپ


اسرائیلی انتخابات اور صدر ٹرمپ
اسرائیل میں عام انتخابات 9اپریل کو ہورہے ہیں۔ یہاں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر درجنوں جماعتیں ہیں۔ عام طورسے کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی چنانچہ مخلوط حکومت اسرائیلی سیاست کا طرہ امتیاز ہے۔ چناو 5 نومبر کو ہونے تھے لیکن وزیراعظم بنجامن نیتھن یاہو المعروف بی بی نے پارلیمان تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا۔ گزشتہ انتخابات میں وزیراعظم بی بی کی لیکڈ پارٹی 120 رکنی کنیسہ (Knesset)یا پارلیمنٹ میں 30 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر تھی اور اس نے 5 مذہبی، قوم پرست اور فرقہ ورانہ جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی۔ موصوف 2009 سے ملک کے وزیراعظم ہیں۔
آئندہ انتخابات میں بی بی کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم اور انکی اہلیہ کے خلاف رشوت خوری اور چوری کے سنگین الزامات ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کے خلاف فرد جرم شعبہ انصاف کو بھجوادی ہے۔ انکے مخالفین ووٹروں سے  کہہ رہے ہیں کہ بی بی کو ووٹ دیکر وقت ضایع نہ کرو کہ انکو باقی زندگی اب جیل میں گزارنی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ قبل ازوقت انتخاب کے نتیجے میں  اگر بی بی کو عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل ہوگیا تو مقدمے کے آغاز سے پہلےلیکڈ پارٹی آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو مجرمانہ سرگرمیوں سمیت تمام مقدمات سے مکمل استثنیٰ فراہم کردیگی۔ اس بار انکے دو بڑے مخالف یعنی اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل بینی گینٹز (Benny Gantz)کی بلند حوصلہ یا Hahosen Leisrael Party اور ممتاز صحافی یار لیپڈ (Yair Lapid)کی مستقبل پارٹی ( (Yesh Atid Partyنے سفید و نیلا اتحاد (Blue and White)قائم کرلیا ہے۔ نیلا اور سفید اسرائیلی پرچم کا رنگ ہے۔ جیسے پاکستان میں سبز ہلالی سے مراد ہمارا قومی پرچم ہے ایسے ہی اسرائیلی پرچم کو سفید و نیلا کہتے ہیں۔ اسرائیلی عربوں کی تنظیم الحرکۃ العربیہ للتغیر اور القائمۃ المشترکہ نے بھی عندیہ دیا ہے کہ ضرورت پڑی تو وہ حکومت سازی کیلئے سفید و نیلے اتحاد کا ساتھ دینگے۔ خیال ہے کہ ان دو جماعتوں کی مجموعی نشستیں 12 کے قریب ہونگی جو 120 کے ایوا ن میں ایک موثر پارلیمانی قوت بن سکتی ہے۔
بی بی معیشت اور معاشرت کے اعتبار سے بہت آزاد خیال ہیں لیکن فلسطینیوں کے معاملے میں انکا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے اسی لئے انھوں نے ان جماعتوں کو شریک اقتدار کیا ہے جنکا خیال ہے کہ غزہ، بیت المقدس اور شرق اردن میں آباد فلسطینیوں کو مصر، شام، لبنان اور اردن کی طرف دھکیل دینا چاہئے۔گزشتہ چند برسوں سے فلسطینیوں کے معاملے میں بی بی کا رویہ بہت سخت ہوگیا ہے جسکے رد عمل میں غرب اردن اور غزہ سے باہر آباد عرب نژاد اسرائیلی شہری بھی جنکی اکثریت مسیحیوں پر مشتمل ہےسخت مشتعل ہیں۔ اسرائیل کے عرب شہری عام طور سے انتخابی سرگرمیوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے  لیکن اس بار بیت المقدس اور بیت الحم میں آباد عرب عیسائیوں میں زبردست جوش و خروش پایا جاتاہے۔
رائے عامہ کے جائزوں میں کہا جارہا ہے کہ سفید و نیلے اتحاد کو 36 اور وزیراعظم کی لیکڈ پارٹی کو 30 نشستیں ملنے کی توقع ہے اس صورت میں جنرل بینی گینٹز عربوں ، لیبر پارٹی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالینگے اور نئی حکومت بی بی کے خلاف تحقیقات کا شکنجہ سخت کرکے انکے سیاسی مستقبل کو تاریک کرسکتی ہے۔
بی بی دنیا کے دوسرے مسلم مخالفین کی طرح سیکیولر و لبرل ہیں۔ آزاد معیشت انکا نعرہ ہے جو درحقیقت بے رحم سرمایہ دارانہ نظام پر ایک ملائم نقاب ہے۔ یعنی سرمایہ کاروں و سرمایہ داروں پر کوئی پابندی نہیں، نہ کم سے کم اجرت نہ مزدوروں سے زیادہ کام کرانے پر کوئی قدغن۔ ماحول و صحت سے متعلق قوانین بھی نہ ہونے کے برابر۔ یہی وجہ ہے کہ GDPاور دوسرے اقتصادی اشاریوں کے اعتبار سے تو معیشت کا رخ آسمان کی طرف ہے لیکن بقول سراج الحق غریبوں کو وہ بھی میسر نہیں جو امیر اپنے کتوں کے آگے ڈالتے ہیں۔ مزدور دشمن پالیسیوں کی بنا پر ملک کا غریب طبقہ بھی ان سے سخت ناراض ہے۔مزدوریونینوں کی جانب سے شدید مزاحمت، غریب طبقے کی مخالفت اور سب سے بڑھ کر کرپشن کے سنگین الزامات کی بنا پر وزیراعظم کی انتخابی مہم سخت مشکل میں  ہے۔ انکے انتحابی جلسوں میں چور چور کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے بی بی نے معیشت، تعلیم۔ عمدہ طرز حکمرانی کے بجائے قومی وقار ، ملکی دفاع اور سب سے بڑھ کر ایران کے جوہری پروگرام کو ہدف بنالیا ہے۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ انکی یہ نئی حکمت عملی کامیاب نظرآرہی ہے۔ بی بی صدر ٹرمپ اور دامادِ اول جیرردکشنر کے قریبی دوست ہی اورامریکی صدر انتخابات میں غیر جانبداری و عدم مداخلت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نیتھن یاہو کی کھل کر حمائت کررہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی بیجا حمائت اخلاقی اعتبار سے تو غلط ہے ہی لیکن وہ اپنے دوست کو تقویت دینے کیلئے جو اقدامات کررہے ہیں اس سے علاقے میں پہلے سے موجود کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ رہی اور سارامشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔
اسرائیل کے انتخابات کے ساتھ ہی 2020 کے امریکی انتخابات کا میدان بھی گرم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ چنانچہ امریکی صدر کے جارحانہ اقدامات سے جہاں نیتھن یاہو کی انتخابی مہم کو تقویت مل رہی ہے وہیں  صدرٹرمپ امریکہ میں اسرائیلی لابی کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ گزشتہ برس انھوں نےبیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے خود کو یہودی ریاست کا مخلص پشتیبان ثابت کیا اور اب گولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ تسلیم کرنے کیلئے صدارتی فرمان جاری کردیا۔
سطح سمندر سے 9 ہزار 2 سو فٹ بلند 1800 مربع کلومیٹر یہ سطح  مرتفع ہضبۃالجولان یا Golan Heightsکہلاتا  ہے۔ آتشیں چٹانوں پر مشتمل اس سطح مرتفع کے جنوب میں دریائے یرموک رواں دواں ہے جو شام اور اردن کیلئے آبنوشی کا ذریعہ جبکہ مغرب میں بحیرہ طبریہ واقع ہے جو دنیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی نہر ہے۔ عبرانی کہانیوں کے مطابق قرب قیامت کے آغاز پر یاجوج ماجوج بحیرہ طبریہ کا سارا پانی پی کر اسے خشک کردینگے۔ بحیرہ طبریہ اسرائیل کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
گولان کے دو تہائی حصے پر 1967کی  جنگ میں اسرائیل  نے قبضہ کرلیا تھا ۔ 1981 میں  مقبوضہ گولان کواسرائیل میں ضم کرلیا گیا تاہم امریکہ اور  اقوام متحدہ نے اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کیا اور عالمی نقشوں میں گولان اب بھی شام کا حصہ ہے۔ اس  ضمن میں سلامتی کونسل  کی قرراداد 242 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ گولان شام کا حصہ ہے۔ دفاعی اعتبار سے یہ بلند مقام اسرائیل کیلئے بے حد اہم  ہے کہ یہاں سے  اردن، لبنان اور شام پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کے حامی ایک  عرصے سے  تحریک چلارہے تھے کہ گولان کو اسرائیل کاحصہ تسلیم کرلیا جائے۔گزشتہ ماہ  ریپبلکن پارٹی کے تین  سینٹرز نے امریکی سینیٹ میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی جس میں گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیالیکن اس قرارداد پر رائے شماری نہیں ہوئی۔ 11 مارچ کو قدامت پسند سینیٹر اور صدر ٹرمپ کے پرجوش اتحادی  مسٹر لنڈسے گراہم نے اسرائیلی وزیراعظم اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر کے ہمراہ گولان کا دورہ کیا جہاں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔سینیٹر لنڈسے نے کہا کہ ایک محفوظ و خوشحال اسرائیل امریکہ کے مفاد میں ہے اور دہشت گرد حملوں سے بچاو کیلئے گولان کو اسرائیل کا  حصہ تسلیم کرنا ضروری ہے۔
 اسی کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کا ہوا بھی بڑی کامیابی سے کھڑا کیا جارہا ہے۔ اسرائیل میں ایران کے ایٹمی ہتھیار اور انکے دورمار میزائل کے بارے شدید خوف پایا جاتا ہے۔ اس فوبیا کو بی بی ا ور صدر ٹرمپ خوب ہوادے ر ہے ہیں۔ اسرائیلیوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے اپنی ہر تقریر میں بی بی ایرانی جوہری پروگرام کو اسرائیل کیلئے سخت خطرہ قرار دیتے ہیںْ وہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ اگر دنیا نے اسے ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا تو اسرائیل خود کاروائی کریگا۔ نیتھن یاہو کی مہم کا نتیجہ ہے کہ دائیں، بائیں، سیکیولر و مذہبی تقسیم سے بالا تر ہوکر ساری اسرائیلی قوم ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں شدید جذبات رکھتی ہے۔
ایران کے جوہری ہتھیار اور شام و لبنان میں ایرانی اثرونفوز پر مشتمل ایجنڈا لیکر امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے گزشتہ ہفتے اسرائیل، لبنان اور کوئت کا دورہ کیا۔نیتھں یاہو سے ملاقات کیلئے وہ بیت المقدس تشریف لائے اور دیوارگریہ کے سامنے بہت ہی رقت آمیز انداز میں اسرائیلی کی خوشحالی اور ایران کی تباہی و بربادی کی دعا کی۔ اس موقع پر انھوں نے فرمایا کہ اللہ نے اسرائیل کا تحفظ ناقابل تسخیر بنانے کیلئے صدر ٹرمپ کو امریکی صدربنایا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام پر امریکہ اورنیتھن یاہو کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بی بی کی 'بے مثال' معاملہ فہمی کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ پولینڈ میں امریکہ اور اسرائیل کے اتحادیوں کی چوٹی کانفرنس بی بی کی بصیرت کا نتیجہ تھی جب دنیا کی تمام جمہوریتیں ایران کی جارحیت کے آگے بند باندھنے کیلئے مشترکہ لائحہِ عمل پر متفق ہوگئیں۔ انکے خیال میں یہ 'مبارک ' اتفاق نیتھن یاہو کے تدبر کا کمال تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ بی بی کی قیادت میں شام سمیت مشرق وسطیٰ سے ایران کی مداخلت کا خاتمہ کردیا جائیگا۔مائک پومپیو کی پوری گفتگو بی بی کی انتخابی مہم کی تقریر تھی۔
اسرائیل کے بعد جناب پومپیو لبنان آئےجہاں حزب اللہ انکا بنیادی ہدف تھی۔ حزب اللہ امریکہ کیلئے دہشت گردتو ہے لیکن اسے اپنے عوام کی بھرپور حمائت حاصل ہے۔ لبنان کے حالیہ انتخابات میں حزب اللہ اور اسکی اتحادی حرکۃ الامل (امید کی کرن) لبنانی قومی اسمبلی کا سب سے بڑا پارلیمانی گروپ ہے جسکے پاس 128 کے ایوان میں 30 نشستیں ہیں۔ اسپیکر نبی بیری کا تعلق بھی امل سے ہے۔29 نشستوں کے ساتھ لبنانی صدر میشال عون کی مسیحی جماعت التیارالوطنی الحر اور 9 آزاد ارکان بھی حزب کے حامی ہیں۔ گویا لبنانی پارلیمان میں حزب اللہ اور اسکے اتحادیوں کے پاس 52 نشستیں ہیں۔ اسکے مقابلے میں وزیراعظم سعد الحریری کی جماعت تیار المستقبل کا پارلیمانی حجم صرف 20 ہے۔
اپنے لبنانی ہم منصب جبران باصل سے ملاقات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں جناب پومپیو نے مروجہ سفارتی رکھ رکھاو کو پس پشت ڈالتے ہوئے صاٖف صاف کہا کہ لبنان کو اپنی آزادی اور حزب اللہ میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ حزب اللہ کو سیاسی طور پر تنہا کرنے اوردیوار سے لگانے کیلئے اسکے ارکان کو کابینہ سے نکالنا ضروری ہے۔ سعد الحریری کی کابینہ میں وزارت صحت اور کھیل و نوجوانو ں کے امور کی وزارتوں کے علاوہ پارلیمانی امور کے وزیرمملکت کا تعلق بھی حزب اللہ سے ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے احسان جتلاتے ہوئے جناب باسل کو  باور کرایا کہ امریکہ لبنان کو 80 کروڑ ڈالر کی مدد دیتا ہے ذرا بتائیں کہ حزب اللہ نے لبنان کو کیا دیا جسے ایران 70 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کرتا ہے۔ جناب پومپیو نے کہا کہ حزب اللہ اور ایران نے لبنان اور شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے اور امن کیلئے حزب اللہ کا خاتمہ ضروری ہے۔جواب میں نرم لیکن پر اعتماد لہجے میں لبنانی وزیرخارجہ نے اپنےامریکی ہم منصب کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ دہشت گرد نہیں۔ اسے لبنانی عوام کی حمائت حاصل ہے اور ایک منتخب جماعت کو دہشت گرد کہنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ وزیرخارجہ جبران باصل کے ساتھ مسیحی جماعت کے پارلیمانی قائد علین عون نے بھی حزب اللہ کے بارے میں امریکہ کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے واشنگٹن کو حزب اللہ کے بارے میں رائے قائم کرنے کا اختیار ہے لیکن اسے لبنانی عوام نے نمائندگی کا مینڈیٹ دیا ہے جسکا احترام جمہوری قوتوں کے لئے ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کے خلاف امریکہ کی کاروائی سے لبنانی عوام متاثر ہورہے ہیں۔ انھوں نے زور دیکر کہا کہ ہم حزب اللہ کے اتحادی ہیں اور سکے خلاف کاروائی کسی صورت قابل قبول نہیں۔لبنانی رہنماوں کے اس پرعزم لہجے پرامریکی وزیرخارجہ کو حیرت ہوئی اور وہ کسی حد تک خجل نظر آئے۔ اشک شوئی کیلئے جناب پومپیو نے لبنان کی مالی حمائت جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔
صدر ٹرمپ کی خصوصی دعوت پر بی بی 25 مارچ کو واشنگٹن تشریف لائے۔ نیتھن یاہو کے اس دورےکا بنیادی مقصد اسرائیلی مفاد کے لئےکام کرنے والی امریکن اسرائیل پبلک افئرز کمیٹی (AIPAC)کی سالانہ کانفرنس میٓں کلیدی خطاب تھا۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے یورپی ممالک کے کئی وزرا اور جرنیل آئے ہوئے تھے۔ دلچسپ و حیرت انگیز بات کہ  برنی سینڈرز سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کے کئی  خواہشمندوں نے اس سال AIPACکانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا جس کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں صدر ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسی کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی تحفظات ہیں۔ ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ایرنی مداخلت کے نام پر یمن میں خلیجی ممالک کے آپریشن کی اندھا دھند حمائت کررہے ہیں جسکی وجہ سے یمنی عوام شدید مشکلات میں ہیں اور وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی سینیٹ بھاری اکثریت سے قرارداد بھی منظور کرچکی ہے۔ اسی طرح برنی سینڈرز کا خیال ہے کہ حزب اللہ  کو لبنانی حکومت سے نکالنے پر زور نہ صرف  غیر جمہوری ہے بلکہ اسکے نتیجے میں لبنان شدید سیاسی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔
جیسے ہی اسرائیلی وزیراعظم امریکہ آئے تل ابیب کے شمال مغرب میں راکٹوں کے حملے میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 6 افرادزخٓمی ہوگئے۔ حماس نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے لیکن بی بی نے بلاتحقیق غزہ پر شدید بمباری کا حکم دیدیا۔ اسرائیلی وزہراعظم کے ساتھ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے حماس کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے غزہ پر بمباری کی مکمل حمائت کی۔ بی بی نے جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اپنی بہادر فوج کی قیادت کرنے کیلئے میں اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس جارہا ہوں۔بی بی کی موجودگی مٰیں صدر ٹرمپ نے اس صدارتی فرمان پر دستخط کئے جسکے تحت گولان کا اٹوٹ انگ تسلیم کرلیا اور جس قلم سے انھوں نے فرمان پر دستخط کئے اسے اسرائیلی عوام کے نام کردیا۔
اسرائیلی حزب اختلاف کو نیتھن یاہو کیلئے امریکی حمائت پر سخت تشویش ہے۔ صدر ٹرمپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ صرف بی بی ہی شام و لبنان میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا سدِ باب کرسکتے ہیں اور یہ معاملہ  اسرائیلیوں کے لئےبے حد حساس ہے۔ سییٹر لنڈے گراہم کے دورہ گولان، امریکی وزیرخارجہ کی بیروت میں دوٹوک گفتگو اور اب غزہ پر وحشیانہ بمباری  سے اسرائیل میں ایک جنگی جنون پیدا ہوگیا ہے جسکی وجہ سے میڈیا پر کرپشن کی داستانیں غیر اہم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ایران، حزب اللہ  اور حماس کے بارے میں بی بی کے نفرت انگیز بیانئے کے کاٹ کیلئے سفیدو نیلا اتحاد بھی اپنی توپوں کا رخ ایرا ن کی طرف کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر نیتھن یاہو ایران و حماس کا ہوا کھڑاکرکے عوام کی توجہ کرپشن اور بدعنونی سے ہٹانےمیں اسی طرح کامیاب رہے  تو انتخابات میں انکی کامیابی یقینی ہے۔اسرائیل میں انتخابی فضاکو یکسر بدلنے میں صدر ٹرمپ نےاہم کردار اداکرکے دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست۔  
ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل کراچی 29 مارچ 2019