Friday, March 1, 2019

ہلمند میں امریکی فوج کے کیمپ پر طالبان کاحملہ



ہلمند میں امریکی فوج کے کیمپ پر طالبان کاحملہ
قطر میں جاری مذاکرات کے ساتھ طالبان کی عسکری سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس سے پہلے طالبان مذاکرات کاروں نے کہا تھا کہ انکا طالبان کے فیلڈ کمانڈروں سے کوئی رابطہ نہیں اور آپریشن کی نگرانی امیرالمومنین  ملا ہبت  اللہ براہ راست کررہے ہیں۔ طالبان کے قریبی حلقوں کو کہنا ہے کہ ملا وں کو امریکہ پر اعتماد نہیں اور وہ  ذہنی طور پر اس بات کیلئے تیار ہیں کہ امریکہ اقوام متحدہ کی جانب سے عائد جانیوالی پابندی کو بنیاد بناکر کسی بھی وقت مذاکرات میں مصروف  نمائندوں کو گرفتار کرسکتا ہے۔ اسی خدشے کی بنا پر  طالبان نے آپریشن اور مذاکرات کو بالکل علیحدہ رکھا ہوا ہے۔
آج  افغانستان میں امریکہ کے ایک بڑے فوجی کیمپ  پر حملہ کرکے طالبان نے افغان فوج کے 25 سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔پاکستان سے متصل ولائت (صوبے)ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ میں نیٹو کا ایک بہت بڑاکیمپ ہے جسے شورابک  کیمپ  کہتے ہیں ۔ یہ کیمپ ابتدا میں برطانوی فوج نے قائم کیا تھا اسوقت اسکا نام Bastion Campتھا لیکن برطانوی فوج کی واپسی پر اسکا انتظام امریکی فوج نے سنبھال لیا اور اب اسکا نام  شورابک کیمپ ہے۔ جمعہ کونماذ فجر کے بعد طالبان نے کیمپ پر دھاوا بول دیا۔
اس ناگہانی حملے میں دفاع پر تعینات 25 افغان فوجی ہلاک  اور کئی درجن شدید زخمی ہوگئے۔ افغان فوج اور طالبان کے تصادم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیمپ میں تعینات امریکی فوجی بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ تادم تحریر لڑائی جاری ہے اور کابل انتظامیہ نے امریکی فضائیہ سے مدد طلب کی ہے لیکن امریکہ ملاوں سے جھگڑا کرکے امن مذاکرات  کا مستقبل داو پر لگانے کو تیار نہیں۔امریکیوں کی اس روش کی وجہ سے غیر تجربہ کار اور منشیات کی لت میں مبتلا  افغان فوجیوں کو تن تنہا  طالبان کا مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے مطابق گزشتہ چال سال کے دوران طالبان سے تصادم میں 45000 افغان فوجی مارے جاچکے ہیں۔
قطر میں طالبان کے نمائندے سہیل شاہین نے کہا تھا کہ  امریکیوں کی واپسی پر افغان فوج  اور طالبان کو ایک کردیا جائیگا۔ اس تجویز پر اشرف غنی سخت چراغ پا ہیں ۔ انھیں ڈر ہے کہ  اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان بات طئے پاگئی تو معاھدے پر دستخط ہوتے ہی افغان فوجی طالبان سے جا ملیں گے ۔ اس صورت میں  ڈاکٹر صاحبان اور انکے ساتھیوں کیلئے  خود کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنے یا ملک سے فرار ہونے کے سوا ور کوئی چارہ نہیں  ہوگا۔


No comments:

Post a Comment