امریکی کانگریس کا تاریخ ساز فیصلہ
سانحہ 9/11 کے بعد سے اسلام اور مسلمان امریکی میڈیا پر منفی پروپیگنڈے
کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اسلامی ثقافت خاص طور سے داڑھی اور پردے کے خلاف نفرت
انگیز مہم جاری ہے اور اکثر جگہ مسلمانو ں خاص سے طور نوجوان خواتین کو جسمانی و
ذہنی تشدد کا سامنا ہے۔ تاہم اس مہم کا اچھا پہلو یہ ہے کہ امریکی مسلمان اس مہم
پر نہ تو مشتعل ہیں اور نہ دلگرفتہ و مضمحل بلکہ اس موقع کو دعوت اور اپنے سیاسی
ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے بہت بہتر انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ قرآن کے
انگریزی اور ہسپانوی نسخوں کی بڑی پیمانے پر تقسیم، دعوتی اجتماعات کے علاوہ
شاہراہوں پر مختصر پیغامات والے خوبصورت بل بورڈ سے تصادم اور خوف (Islamophobia) کے ماحول میں گفتگو اور مکالمے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔
صبر و حکمت کی اس مہم کے مثبت نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
دعوت و خدمت کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی امریکی مسلمانوں
نے خاصی پیشرفت کی ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں مسلمانوں نے سیاہ فام امریکیوں، ہسپانویوں اور دوسری رنگدار
اقلیتوں سے مل کر انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور کئی مقامات پر انھیں کامیابی
نصیب ہوئی جس میں سب سے چشم کشا نتیجہ کیلی فورنیا کے حلقہ 48 کا تھا جہاں سے پاکستان اور مسلم مخالف ڈانا
رہراباکر کو شکست ہوگئی۔ ڈانا رہراباکر پہلی بار 1989 میں رکنِ کانگریس منتخب ہوئے
تھےاور گزشتہ 20 سال سے اس نشست پر جیتتے چلے آئیں ہیں۔ موصوف نے بلوچستان کی
آزادی کی قرارداد بھی کانگریس میں پیش کی تھی جو ناکام رہی۔
چند مخالفین کو شکست سے دوچار کرنے کے ساتھ ہی دو جوانسال
مسلم خواتین امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہوگئیں۔ ان میں سے ایک صومالی پناہ گزین
الحان عمر اور دوسری فلسطینی نژاد رشیدہ طالب ہیں۔ ان دونوں خواتین نے ریکارڈ ووٹ
حاصل کئے۔الحان عمر2016 کے انتخابات میں امریکی ریاست مینی سوٹا (Minnesota)کی ریاستی اسمبلی کی
رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس بار یہاں سے مسلم رکن کانگریس جناب کیتھ ایلیسن (Keith Ellison) نے ریاستی اٹارنی
جنرل کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ انکی خالی نشست پر الحان عمر نے کاغذات نامزدگی
داخل کرادئے اور78 فیصد ووٹ لیکر الحان نے
یہ سیٹ اپنے نام کرلی۔ اسی کے ساتھ کیتھ ایلیسن بھی ریاست کے اٹارنی جنرل منتخب
ہوگئے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مسلمان کسی بھی امریکی ریاست کا اٹارنی جنرل منتخب
ہوا ہے۔دوشری طرف مشی گن (Michigan)سے محترمہ رشیدہ طالب بھاری اکثریت سے جیت گئیں۔ انڈیانا سے
مسلم رکن کانگریس آندرے کارسن نے بھی اپنی نشست برقرار رکھی۔
تنگ نظر
و متعصب قوتوں نے امریکی کانگریس میں مسلم خواتین کا داخلہ دل سے
تسلیم نہیں کیا اوریہ دونوں مسلم
مخالف لابی کے نشانے پر ہیں لیکن دباو کے باوجود نقطہ نظر کے اظہار اور سیاسی ایجنڈے پر ان دونوں
خواتین کا طرز عمل بھی خاصہ جارحانہ ہے۔سب سے پہلے الحان کے اسکارف کا مسئلہ زیربحث
آیا۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے یہ روائت ہے کہ کانگریس کے گنبد کے نیچے واقع ایوان
نمائندگان اور سینیٹ کے ہال میں سر نہیں ڈھانکا جاتا۔ اسکاتعلق مذہب یا معاشرت سے
نہیں بلکہ ایوانِ قانون سازی کا احترام ہے
جیسے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہوئے ٹوپی اتار دی جاتی ہے ۔ اس پابندی سے یہودیوں
کی مذہبی ٹوپی کپا (Kippah)کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔
الحان
عمرجب حلف اٹھانے آئیں تو اسکارف سے سر ڈھانکے دندناتی ہوئی ایوان میں داخل
ہوگئیں۔ انکا انداز اتنا جارحانہ تھا کہ کسی نے انکو روکنے کی جرات نہیں کی اور
سابق اسپیکر پال رائن نے الحان کو dress codeسے زبانی استثنیٰ جاری کردیا۔ حلف برداری کے
بعد جب الحان باہر آئیں تو حسب توقع صحافیوں نے ان پر یلغار کردی اور اسکارف
موضوعِ بحث تھا۔ الحان نے بہت اعتماد سے کہا کہ اسکارف میرے لباس کا حصہ ہے
جسے اتارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ کانگریس کا dress codeڈیڑھ سو سال پرانا ہے تو الحان نے کہا قانون
ساز کی حیثیت سے اس غیرفطری قانون میں تبدیلی میری اولین ذمہ داری ہے۔
اسکارف
کے بعد دوسرا تنازعہ اسوقت کھڑا ہوا جب پہلی بار منتخب ہونے والے ارکانِ کانگریس
کو اسرائیل کے مطالعاتی دورے کی پیشکش کی گئی۔ رشیدہ طالب نے سوال اٹھادیا کہ ٹیکس
دہندگان کی رقم کسی ایک ملک کے دورے کیلئے کیوں استعمال ہورہی ہے۔ انھوں نے دورے میں غزہ اور غربِ اردن کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ الحان عمر کا کہنا
تھا کہ افریقہ کے مطالعاتی دورے کا بھی اہتمام کیا جائے۔ان دونوں ارکان نے اسرائیل
کے دورے پر جانے سے انکار کردیا۔
الحان اور رشیدہ کے اس روئے کی امریکی قدامت پسندوں نے شدید
مذمت کی ایوان نمائندگان کے قائدِحزب
اختلاف اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما کیون میکارٹھی (Kevin McCarthy) نے
کہا کہ اگر الحان عمر اور رشیدہ طالب نے اسرائیل کے خلاف اپنا رویہ تبدیل
نہ کیا تو انھیں سزا بھگتنی پڑیگی۔کچھ منچلوں نے پھبتی کسی کہ اگر پردہ و برقعہ
اسی طرح برداشت کیا جاتا رہا تو بہت جلد امریکی کانگریس ایرانی مجلس (پارلیمینٹ)
بن کر رہ جائیگی جہاں خواتین ارکان سیاہ چادریں اوڑھ کر آتی ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں
مسلمانوں، ہسپانیویوں اور سیاہ فام امریکیوں کی غیر معمولی شرکت کا نتیجہ
ہے کہ نئی کانگریس معاشرتی اعتبار سے بے حد متنوع ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں اتنی
خواتین کبھی منتخب نہیں ہوئیں جتنی اس بار ایوان میں آئی ہیں۔ سیاہ فام اور
ہسپانیویوں کے علاوہ پہلی بار قدیم انڈین خواتین نے بھی کامیابی حاصل کی۔ معاشرتی و سیاسی تنوع کے ساتھ کانگر یس پر ترقی
پسند طبقے کے اثرات بھی بہت واضح ہیں جنکی قیادت صدارتی انتخابات کیلئے ڈیموکریٹک
پارٹی کی ٹکٹ کے خواہشمند سینیٹر برنی سینڈرز کررہے ہیں۔ اسکے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی
کیلئے میدان میں اتری سینیٹر ایلزبیتھ وارن اور سینیٹر کملا ہیرس بھی بائیں بازو
کی طرف مائل ہیں۔ الحان عمر اور رشیدہ طالب دونوں کا جھکا و بائیں بازو کی طرف ہے
اسلئے انھیں پارٹی کے ترقی پسندوں کی آشیر واد حاسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید ترین
مخالفت کے باوجود الحان کو کانگریس کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کا رکن نامزد
کردیاگیا۔
الحان
عمر پہلے دن سے ترغیب کاروں یا Lobbyists کے
اثرورسوخ پر شدید تنقید کررہی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ کانگریس پر ترغیب کاروں کے
اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ قانون سازی کے دوران عوام کے منتخب نمائندے امریکی امنگوں
کے بجائے مخصوص مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، چند ہفتہ پہلے امریکی سیاست پر یہودی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں الحان عمر نے کہ
It’s all about the Benjamin Baby!!
امریکہ میں 100 ڈالر کے نوٹ پر سیاسی رہنما اور ریاست
پنسلوانیہ کے سابق صدر (گورنر) بنجامن فرینکلن (Benjamin
Franklin)کی تصویر ہوتی ہے اسی بنا پر it’s all about Benajminامریکہ میں پیسے کے
کمال کا استعارہ ہے۔ گویا امریکی ایوانِ
نمائندگان کی یہ جوانسال رکن کہنا چاہ رہی
تھیں کہ امریکہ کے دولت مند یہودی ترغیب کاری پر بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں جسکی وجہ سے یہاں
اسرائیل کے اثرات بہت گہرے ہیں۔
اس بات پر حسبِ توقع ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ کانگریس کی
اسپیکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما
نینسی پلوسی نے اس تبصرے کو صیہونی دشمن (anti-sematic) قراردیتے ہوئے الحان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ ہر جانب سے مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور
بیچاری نے گھبرا کر 'یہودی دوستوں' سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ' مجھ سے الفاظ کے
چناو میں غلطی ہوئی ہے جس پر میں یہودی احباب سے معذرت خواہ ہوں لیکن
امریکی سیاست پر ترغیب کاروں کے اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا'
الحان کی معذرت قابل قبول نہیں سمجھی گئی اور ایک جلسہِ
عام سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے الحان
کے 'نفرت انگیر' تبصرے پر معذرت کو مسترد کردیا۔انھوں نے مسلم رکنِ کانگریس کے
خلاف سخت تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا۔ قدامت پسند اخبارات میں الحان
عمر کے استعفےٰ کی بات شروع ہوگئ۔ نینسی پلوسی نے الحان کی معذرت قبول کرکے بات
ختم کردی لیکن اسپیکر پر شدید دباو تھا کہ
الحان عمر کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کی رکنیت ختم کردی جائے۔ دوسری طرف الحان بھی چپ بیٹھنے
والی نہ تھیں۔ انھوں نے اپنے ابتدائی بیان پر معذرت تو کرلی لیکن دودن بعد وضاحت
کرتے ہوئے کہا کہ ترغیب کار یہاں پیسے کے بل پر سیاسی اثرورسوخ حاصل کرتے ہیں اور
امریکہ میں کسی دوسرے ملک (اسرائیل) سے وفاداری کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی۔
یہ کہہ کر الحان نے دکھتی رگ کوچھیڑ دیا بلکہ بھڑ کے چھٹے
میں ہاتھ ٖڈالدیا۔ مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کے سربراہ ایلیٹ اینجل) (Eliot Enge آپے سے باہر ہوگئے اور فرمایا
' الحان کا یہ بیان انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ ہے۔ میں انھیں بیان واپس لینے اور معذرت کی ہدائت کرتا ہوں۔
الحان کو چاہئے کہ وہ اپنی گفتگو پالیسی امور تک محدودرکھیں اور ان حملوں سے پرہیز
کریں جسکی خارجہ امور کی کمیٹی اور امریکی
کانگریس میں کوئی جگہ نہیں' الحان نے معذرت
سے صاف انکار کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ وہ ایلیٹ اینجل اور تمام سینئر رہنماوں کاکا
احترام کرتی ہیں لیکن وہ اپنے موقف کا اظہارجاری رکھیں گی کہ یہ انکے مینڈیٹ کا
تقاضہ ہے۔ الحان نے کہا کہ انھیں دھمکیوں کے بجائے دلیل سے قائل کیا جائے۔ الحان
کے اس باغیانہ روئے پر اسرائیلی، ہندوستانی
اور قادیانی (احمدیہ کاکس) لابی
آستینیں چڑھا کر الحان کو کانگریس سے نکلوانے کیلئے پر عزم ہوگئیں اور الحان کے
خلاف ایک مذمتی قرارداد لانے کا اعلان کردیا گیا۔
الحان کے خلاف مہم اس قدر شدید تھی کہ مذمتی قرارداد کی بھاری
اکثریت سے منظور ی نوشتہ دیوار نظر آرہی تھی۔ اس دورا ن الحان کو زچ کرنے کیلئے تضحیک آمیز کارٹون شایع ہوئےجس میں اسے داعش و القاعدہ
کی دہشت گرد قراردیا گیا۔ اسے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ مسلمانوں کے خلاف مہم
میں بھی شدت آئی اور اسکارف کے خلاف توہین
آمیز کارٹونو ں کی بھرمار ہوگئی۔
تاہم یہ جارحانہ مہم امریکی کانگریس کے سلیم الفطرت لوگوں کو پسند نہ آئی اور سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا
کہ اسرائیل سے متعلق امریکہ کی پالیسی پر
تنقید کو یہود دشمنی نہیں قراردیا جاسکتا۔ الحان اسرائیل کے حوالے سے متلق امریکہ کی پالیسی کو ملک کیلئے مناسب نہیں
سمجھتیں اور اس میں ترمیم کی خواہشمند ہیں۔ اپنے خیالات کے مرملا اظہار کا انھیں انکے حلقے کے لوگوں نے مینڈیٹ دیا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما سینیٹر ایلزبیتھ اور سینٹر کملا ہیرس نے بھی اس قرارداد
کی مذمت کی۔ کانگریس میں ڈیموکرٹیک پارٹی کی خواتین ارکان نے الحان کی حمائت
کااعلان کردیا۔ ان ارکان کاکہنا تھا تھا کہ الحان کی مذمت سے امریکی کانگریس کے
مسلم مخالف ہونے کا تاثر ابھرے گا۔
یہ دباو اتنا بڑھا کہ کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی نے اعتراف
کیا کہ پارٹی کے اندر اس قرارداد کے خلاف مزاحمت خاصی سخت ہے چنانچہ اس پر رائے شماری غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کی
جارہی ہے۔ قرارداد کے مجوز ایلیٹ اینجل نے بھی
شاخ زیتون لہراتے ہوئے کہا کہ الحان عمر کو مجلس قائمہ یا
کانگریس سے نکالنا اس قرارداد کامقصد نہیں۔ وہ الحان کی ذہانت اور حوصلے سے بہت متاثر ہیں تاہم وہ چاہتے ہیں کہ جوانسال قانون ساز اپنے
روئے کو امریکی اقدار سے ہم آہنگ کرلیں۔
قرارداد کے التوا پر سینیٹر برنی سینڈرز اور انکے ساتھی مطمئن
نہ ہوئے۔ انھیں ڈر تھا کہ اسوقت زبردست مہم کے نتیجے میں قدامت پسند طبقہ ٹھنڈا
پڑگیا ہے لیکن میدانِ سیاست میں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ 2020 انتخابات کا سال ہے
اور سیاسی کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الحان کے مخالف مناسب موقع پر رائے شماری
کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔چنانچہ ایک متبادل قرارداد لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
7 مارچ کو ایک نئی قرارداد پیش کی گئی جس میں نفرت، تعصب و عدم
برداشت کی ہر شکل اور قسم کی شدید مذمت کی گئی، قرارداد ییں کہا گیا کہ یہودی
مخالف (Anti-Semitic) اور اسلام دشمن متعصبانہ
جذبات کی امریکی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ قرارداد 23 کے مقابلے میں 407
ووٹوں نے منظور کرلی گئی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے کسی بھی رکن نے مخالفت نہیں کی
بلکہ ریپبلکن پارٹی کےارکان کی اکثریت نے بھی اسکی حمائت میں ہاتھ کھڑے کئے۔
امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کے خلاف
نفرت و تعصب اور anti-Semiticجذبات کی ایک ساتھ مذمت
کی گئی۔ منظوری کے بعد کانگریس کے تینوں مسلم ارکان الحان عمر، رشید طالب
اور جناب آندرے کارسن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ ہماری تاریخ کا پہلا موقع ہے جب امریکی کانگریس نے مسلم مخالف
تعصب اور نفرت کی مذمت کی ہے۔اسے امریکی جمہویت کی تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے
کہا کہ ہم Anti-Semitismسمیت ہر قسم کے تعصب،
نسل پرستی اور نام نہاد سفید فام بالا ستی یا white supremacy کی یکساں مذمت کرتے ہیں۔آج جبکہ انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے تمام
تعصبات کی ایک آواز مذمت کرکے کانگریس نے نفرت کا شکار لوگوں کے زخم پر مرہم رکھنے کی کوشش ہے جو بلاشبہ ایک تاریخی قدم ہے۔
کانگریس کی جانب سے تمام تعصبات کی یکساں مذمت صدر ٹرمپ کو
پسند نہ آئی اور اخباری نمایندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ (قررارداد
منظور کرکے) ڈیموکریٹک پارٹی نے خود کو یہودی و اسرائیل دشمن ثابت کردیا ہے۔صدر کا
بیان غضب سے زیادہ انکی مایوسی کا اظہار ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پرانتخاب لڑا
تھا اور اب انکے دورِ حکومت میں یہ تاریخی قراردادمنظوررہوئی ہے جسکی خود انکی
پارٹی کے 197 میں صرف 23 ارکان نے مخالفت کی۔نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کردو۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2019
No comments:
Post a Comment