Tuesday, March 26, 2019

مزدوروں کے منہہ سے نوالہ چھینننے کا نیا منصوبہ


مزدوروں کے منہہ سے نوالہ چھینننے کا نیا منصوبہ
ریاست و حکومت تو ماں کی طرح بےگھروں اور بے سہارا لوگوں پر سائبان بنی رحمت و شفقت بانٹتی ہے لیکن  کراچی کے مئیر صاحب سپریم کورٹ کے متعصب ججوں   اور وفاقی حکومت سے ساز باز کرکے   چڑیل کی طرح عوام کا کلیجہ چبارہے ہیں۔مکان  و دوکان  حتیٰ کہ کراچی کی  ایک قدیم ترین مسجد گرانے اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کرکے بھی مئیر صاحب کا کلیجہ ٹھنڈا  نہ ہوا۔  اب لی مارکیٹ، بہاالدین شاہ مارکیٹ،  مدینہ مارکیٹ، تاج محل اور  جوبلی کلاتھ مارکیٹ کے 1955 دوکانداروں کو نوٹس جاری کردئے گئے ہیں۔اگر یہ دوکانیں منہدم ہوئیں تو 8000 گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائینگے۔
اس  معاملے میں  عدالت کے روئیے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کو کراچی کی اصلی حالت میں بحالی پر اصرار ہے۔ اسکا تو مطلب  ہوا کہ کراچی میں آباد تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو بے دخل کرنا ہوگا شائد یہی وجہ ہے کہ تین رکنی بنچ کے  رکن جسٹس منیب اختر نے آج مقدمے کی سماعت سے معذرت کرلی جسکے بعد بنچ کے سربراہ  جسٹس گلزار احمد نے  قاضی القضاۃ کو نیا بنچ بنانے کی درخواست کی ہے۔
یہ دوکانیں کئی دہائیوں  سے یہاں قائم ہیں اور ان لوگوں نے بھاری  دام دیکر دوکانیں خریدی ہیں۔  اس فرعونی قدم  کی منطق یہ بتائی جارہی ہے کہ ان دوکانوں کی  ابتدائی فروخت ہی غیر قانونی تھی۔
کیا ظلم ہے کہ بنی گالہ کی تجاوزات  کو تو معمولی سے ادائیگی کے بعد قانونی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے لیکن غریبوں کے گھروندے اور روزگار کے مواقع زمیں بوس کئے جارہے ہیں۔کپتان کے  محل کی طرح  غریبوں کی  مل کیمحلان دوکانوں کو  قانونی شکل کیوں نہیں دی جاسکتی؟ گزشتہ دنوں سندھ  حکومت  نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے مکان گرانے کے عدالتی حکم کو ماننے سے انکار کردیاتھا۔ امید ہے سندھ حکومت  ایک بارپھر ان غریبوں کی دادرسی کریگی۔



No comments:

Post a Comment