قطر امن مذاکرات ۔۔۔ نہ فیصلہ کن اور نہ مایوس کن
قطر میں جاری طالبان اور امریکہ کےدرمیان 16 دن جاری
رہنے والی بات چیت کسی فیصلہ کن نتیجے پر
پہنچے بغیر ختم ہوگئی ہے۔ ملاقات کے بعد طالبان
کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا "no
breakthrough" but "no breakdown either"۔ یقیناًہمارےاحباب
کے کان میری طرف سے مولویوں اور باریش حضرات کی بے جا
حمائت سن سن کر پک چکے ہیں لیکن
ایک بار پھر وہی مرحلہ درپیش ہے۔ میٹھے پشتو لہجے میں انگریزی کے اس مختصر سےجملے کے ذریعے طالبان کے ترجمان نےامیدو
رجا کی جو کیفیت بیان کی ہے اسکی تعریف نہ کرنابد دیانتی ہوگی۔ شائد دریا کو کوزے
میں بند کرنا اسے ہی کہتے ہیں۔
بات چیت کے حالیہ مرحلے کے اختتام پر ایک طویل ٹویٹ میں
امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ' طویل ملاقات کے اس مرحلے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیش
رفت ہوئی ہے۔یہ بات تو طئے ہے کہ امریکہ اور طالبان دونوں جنگ کے خاتمے اور امن کے
قیام کیلئے پرعزم ہیں اور بات چیت کے دوران مختلف امور پر شدید اختلاف کے باوجود
ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں'
دونوں جانب سے امیدافزا اعلان اپنی جگہ لیکن یہ بات طئے ہے کہ قیام امن کیلئے مثبت پیش قدمی کے
باوجود مذاکرات کا یہ مرحلہ بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ تاہم موجودہ مرحلے کی سب سے
بڑی کامیابی دونوں فریقوں کی جانب سے
ایجنڈے پر اتفاق ہے جو کچھ اسطرح تھا:
1.
بعد از امن انسداد دہشت گردی کے موثر و قابل اعتماد
اقدامات
2.
افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا
3.
افغان گروہوں کے درمیان بات چیت
4.
جنگ بندی
جناب زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایجنڈے کے پہلے دو نکات پر
معاہدے کیلئے مسودے پر اتفاق ہوچکا ہے ۔
گویا امریکہ
افغانستان سے نکلنے پر تیار ہے اور پسپا ہوتی فوج کو واپسی کا محفوظ راستہ دینے کیلئے طالبان جو یقین دہانیاں کرارہے ہیں
اس پر امریکی وزارت دفاع المعروف Pentagonمطمئن ہے۔ اب اصل تنازعہ نئے بندوبست میں کابل سرکار کے
کردار پر ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان اشرف غنی سے مل کر انھیں یہ ضمانت دیں کہ
امریکی فوج کی واپسی کے بعد کابل انتظامیہ کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی
جائیگی۔
طالبان امن و انصاف کی ضمانت دینے کو تو تیار ہیں لیکن وہ
کابل حکومت کو امریکی کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اورا سکے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔
امریکی سفارتی ذرایع کاکہنا ہے کہ طالبان کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ اشرف
غنی یا انکا کوئی نمائندہ امن مذاکرات کے دوران امریکی وفد کا حصہ بن جائے لیکن وہ
کابل حکومت سے براہ راست گفتگو نہیں
کرینگے۔
ملاقات کےبے نتیجہ ختم ہونے پر اشرف غنی حکومت نے اطمینان
کا سانس لیا اور صدارتی ترجمان نے اپنے ایک ٹویٹ میں 'اسلامی جمہوریہ افغانستان'
اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت جلد شروع ہونے کی امید ظاہر کی۔
بات چیت جاری رکھنے کی خواہش کے اظہار کے باوجود
اگلی ملاقات کی تاریخ اور مقام کا اعلان
نہیں کیا گیا۔ خیال ہے کہ زلمے خلیل زاد وطن واپس آکر صدر ٹرمپ اور اپنے Bossمائک پومپیو کو
بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کرینگے جسکے
بعد امریکہ اپنے آئندہ لائحہِ عمل کا اعلان کریگا۔صدر ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی کے
قدامت پسندوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جو افغانستا ن سے امریکی فوج کے
انخلا کو اپنی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ انھیں لوگوں کے دباو پر صدر ٹرمپ نے شام
میں 200 فوجیوں پر مشتمل ایک علامتی
موجودگی برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن
افغانستان کے مولویوں کیلئے اپنے دیس پر غیر ملکیوں کی کوئی علامت یا حقیر
سی نشانی بھی قابل قبول نہیں۔ طالبان نے
اگلی ملاقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن وہ ح اپنی بدن بولی (body language)سے ایسا کہتے نظر آئے
کہ 'ہم امن تو چاہتے ہیں لیکن معاہدہ اپنی
شرائط پر کرینگے آپ اپنے Boss سے بات کرلیں' خیال ہے کہ اگلے مرحلے میں امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو خود بھی مذاکرات میں شرکت کیلئے قطر جائینگے۔
No comments:
Post a Comment