Sunday, March 24, 2019

میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے


امریکہ نے داعش کے خلاف فتحِ مبیں کا اعلان کردیا ہے۔ اس حوالے سے ہمارا 5ساڑھے چار سال قبل شائع ہونے والا ایک مضمون شائد احباب کو دلچسپ محسوس ہو
امریکہ کے ایک سیاسی و عسکری مبصر کینتھ او کیف  Kenneth O’Keefeنے انکشاف کیا  ہے کہ داعش کی پنیری سی آئی اے کی نرسری میں اگائی گئی ہے۔ مسٹر اوکیف نے بالی ووڈ اورہالی ووڈ کے حوالے سے امریکہ کے عسکری فلسفے پر بڑے لطیف انداز میں گفتگو کی ہے۔ پینتالیس سالہ کینتھ کا کہناہے کہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ دنیا میں فلمسازی کے دو بڑے مراکز ہیں۔ امریکی تہذیب کی جارحانہ پیشقدمی کے اثرات بالی ووڈ کی فلموں پر  مغربی  دھنوں اور ہالی ووڈ اسٹائل رقص کی صورت میں نظر آتےہیں لیکن ان دونوں مراکز پر تخلیق کی جانیوالی کہانیوں میں اب بھی بڑا واضح  فرق ہے۔ انکے جائزے کے مطابق ہر ہندوستانی فلم ڈھائی سے ساڑھے تین گھنٹے میں مہرو محبت کے کلمات، مارکٹائی، گیت و رقص، ظالم سماج کا ماتم ، بزرگوں کی نصیحت، رقیب کی بڑھکوں اور مزاحیہ کلمات کے تڑکوں کے بعد وصال کے حسین لمحات یا ابدی فراق کے ہیبتناک مناظر کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے برعکس ہالی ووڈ کی فلموں میں کہانی کے اختتام پر تشنگی کا عنصر شامل کردیا جاتا ہے جسکی بناپر اسی کہانی پر فلم کے بہت سے اضافی  ایڈیشن جاری کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے مثلاً EXORCIST کے بعد EXORCIST 1,2,3جاری کی گئی۔ سلوراسٹالون کی مشہور زمانہ راکی کے پانچ ایڈیشن کے بعد ریمبو 1,2,3,4کا سلسلہ شروع ہوااور ریمبو کے اختتام پر راکی ریمبو کے امتزاج نے ایک نئی سیریز کو جنم دیا۔ مسٹر اوکیف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اپنی عسکری پالیسی بھی اسی انداز میں تشکیل دیتا ہے یعنی فوجی مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے ایک نیا ہدف تراش کر کشور کشائی  کا سلسلہ جاری رکھاجاتا ہے۔ مثلاً1991میں کوئتی عوام کو آزادی دلانے کے نام پر امریکہ نے عراق پر فوج کشی کی۔ تباہ کن بمباری کے نتیجے میں صدر صدام کی جانب سے کوئی قابل ذکر مزاحمت دیکھنے کو نہ ملی اور بلا کسی بھاری جانی نقصان امریکی فوجیں بغداد کے مضافات تک جاپہنچیں لیکن صدام حکومت کے خاتمے کے بجائے امریکی فوج کو واپسی کے احکامات جاری کردئے گئے جسکے بارہ سال بعد عراق پر دوبارہ حملہ کیا گیا۔ انکا کہنا ہے کہ داعش دراصل القاعدہ کا تسلسل ہے۔ مسٹر کینتھ یا کین اوکیف بہت ہی باغ و بہار لیکن باغیانہ طبیعت کے مالک ہیں۔ فلسطینی نژاد کین 2003کے حملے سے پہلے امریکی میرین کے ایک افسر کی حیثیت سے عراق میں  تعینات تھے جہاں انھوں نے امریکی حملے کی شدید مخالفت کی، دنیا بھر سے اپنے دوستوں کو بغداد بلایا اورشہری تنصیبات پر انسانی ڈھال بناکر کھڑا کردیا تاکہ امریکی فضائیہ حملہ نہ کرسکے۔ اس باغیانہ روئے  پر انھیں فوج سے نکال دیا گیا۔انھوں نے  بطور احتجاج اپنی امریکی شہریت ختم کرنے کی درخواست دیدی جسے مسترد کردیا گیا۔ ردعمل کے طور پر کین نےہیگ (ہالینڈ) کے امریکی سفارتخانے کے باہر اپنا امریکی پاسپورٹ نذر آتش کردیا۔ تاہم کین کی  اس حرکت پر "افسوس" کا اظہار کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ نے انھیں نئے پاسپورٹ کی درخواست بھجوادی۔ گویا انکی امریکی شہریت برقرار رہی۔ امریکی عدالت نے بھی قومی پاسپورٹ کی توہین کو ریاست کے خلاف جرم کے بجائےامریکی حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار قراردے کر معاملہ داخل دفتر کردیا۔کین اوکیف ترکی سے غزہ جانیوالے چھ بحری جہاز کے اس چھوٹے سے قافلے میں شامل تھے جسے استقلالِ غزہ بیڑے کا نام دیا گیا تھا۔ بیڑے پر اسرائیلی حملے کی کین نے شدید مزاحمت کی اور نہتے ہونے کے باوجود دو اسرائیلی فوجیوں سے اسلحہ چھین لیا۔ اس جرات پر کین کو اسرائیلی فوج نے سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔چند دن قبل روسی ٹیلیویژن پر اپنے ایک انٹرویو میں کین اوکیف نے انکشاف کیا ہے کہ داعش (الدولت الاسلامیہ فی العراق والشّام) یا اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سوریہ (ISIS) امریکی سی آئی اے نے تشکیل دی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اسے صدر بشارالاسد کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ شامی فوج جدید اسلحے سے لیس اور انتہائی تربیت یافتہ ہے جسے ایران اور روس کی بھرپور حمائت حاصل ہے جبکہ لبنانی حز ب اللہ بھی اسکی پشت پر ہے اور اس منظم فوج کا مقابلہ عوامی مظاہروں اور محدود چھاپہ مار کاروائیوں سے ممکن نہیں۔ کین اوکیف نے الزام لگایا ہے کہ  ترکی و خلیجی ممالک نے اسلحے کی خریداری اور بھرتی کیلئے وسائل فراہم کئے ہیں۔ داعش کے سپاہیوں کو اردن کے فوجی اڈوں پر بھاری اسلحے یعنی بکتر بند گاڑیوں، توپخانوں اور ٹینکوں کے استعمال کی تربیت دی گئی کہ یہ جنگجو چھاپہ مار جنگ کے ماہر ہیں اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کا انھیں کوئی تجربہ نہیں۔ ایک امریکی صحافی ایرن کلائن نے انکشاف کیا ہے کہ داعش کے منتخب جنگجووں کو ایلپاسو El Passoکے امریکی فوجی اڈے پر ٹینک چلانے اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی مشق کرائی گئی۔ ایلپاسو امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع ہے جو اپنے گرم موسم اور ریت کے طوفانوں کی بنا پر عراق سے مماثلت رکھتا ہے۔ کین کا کہنا ہے کہ ابلاغ عامہ کے نمائندوں سے گفتگو، حساس و ہیجان انگیز تصویر کشی، انٹرنیٹ و یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر تشہیر کیلئے بھی داعش کے کارکنوں کو خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ داعش کے ہاتھوں مارے جانیوالے امریکی و برطانوی صحافی اسی مقصد کیلئے وہاں بھیجے گئے ہوں جنھیں بعد میں قتل کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کسی غیر جابندار ذریعہ سے مسٹر اوکیف کے ان خدشات و انکشافات کی تصدیق یا تردید ممکن نہیں۔ لیکن داعش کا اچانک ظہور اور عراق و شام میں انکی برق رفتار پیشقدمی نادیدہ سرپرستی کا پتہ دیتی ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، تاریکی میں استعمال ہونے والے عینک، گن شپ ہیلی کاپٹر اور دوسرے قیمتی اسلحے کیلئے خطیر رقم کی فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ISIS  کے مالی وسائل کا تخمینہ دوارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ آخر داعش کو یہ وسائل کون فراہم کررہا ہے۔ کینتھ اوکیف کا کہنا ہے کہ امریکہ نے داعش کی تشکیل و تربیت اور اسلحے کی فروخت کی مد میں اربوں ڈالر کمائے اور اب اسکے خاتمے کی مہم واشنگٹن اور اسکے حواریوں کیلئے اضافی آمدنی کا سبب بنے گی۔ داعش کا فتنہ اپنی جگہ لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی بڑی طاقتوں کی اصل دلچسپی تیل کے میدانوں سے ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ داعش بہانہ اور کردستان اور دیرہ زور (شام) میں زمین سے ابلتے تیل کے چشمے اصل نشانہ ہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکی بمباری سے بچنے کیلئے داعش کے سپاہی عراقی سرحد عبور کرکے  سعودی عرب میں داخل ہوجائیں یا (بقول اوکیف) کرادئے جائیں۔ امریکہ سلیٹی چٹانوں سے حاصل ہونے والے تیل کیلئے منڈی تلاش کررہا ہے  لیکن چچا سام کے محل وقوع کی بنا پر باربرداری کے بھاری اخراجات پرکشش قیمت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ خاکم بدہن اگر سعودی  پیداوار میں خلل واقع ہوگیا تو پھر ایشیا کیلئے امریکی تیل سونے کی قیمت پر بھی قابل قبول ہوگا۔

روزنامہ امت کراچی ۱۹ ستمبر ۲۰۱۴

No comments:

Post a Comment