پیر بگھے شاہ یا پیرِ مغاں
خبر
گرم ہے کہ ائرپورٹس پر پارکنگ
کی سہولت فراہم کرنے والے پیر بگھے شاہ کو لاہور ائرپورٹ کے قریب شراب کی دوکان کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق پیرصاحب
کی اس دوکا ن کے ساتھ لاہور میں شراب
کی فروخت کے مراکز کی تعداد 5 ہوجائیگی۔
معلوم نہیں کہ پیر ِ مغاں کا یہ آستانہ آراستہ و پیراستہ میکدہ
ہوگا کہ جہاں بیٹھ کر پینے، ساقی سے چھیڑ چھاڑ اور بہک جانے کی
سہولت بھی ہوگی یا فاسٹ فوڈکے drive-thruکی طرح بوتل لے کر وہاں کھسک جانا پڑیگا۔
خبر کے
مطابق شاہ جی کی اس بزم ِ نازونیاز سے صرف غیر مسلم مستفید ہوسکیں
گے اور شرابِ طہور کے امیدواروں کو دختر
انگور سے دست درازی کی اجازت نہیں ہوگی۔ کیا لاہور اور اسکے مضافات میں آبادشراب کے شوقین غیر مسلموں کی تعداد اتنی ہے کہ یہاں پانچ دکانوں کی ضرورت ہو؟؟ میرا تو خیال ہے
کہ ہمارے مسیحی اور ہندو بھائیوں کی غالب اکثریت
سخت کوش محنت کشوں
پر مشتمل ہے جنکے لئے مہنگائی کے حالیہ طوفان میں اپنے بیوی بچوں کیلئے نانِ
شبینہ خریدنا مشکل ہورہا ہے جبکہ نوشی پیٹ بھروں کا شوق ہے۔ ابھی ایک دن
پہلے ہی قومی اسمبلی کی مجلسِ قائمہ
برائے قانون میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش
کمار نے امتناع شراب کا بل پیش کرتے ہوئے
کہا تھا شراب ہندو مذہب میں بھی حرام ہے اور غیر مسلموں کے نام پر شراب
کی فروخت ہمارے مذہب کی توہین ہے۔ مسیحی رکن قومی اسمبلی شنیلہ روتھ
نے فرمایا کہ انکا مذہب بھی شراب
نوشی کی اجازت نہیں دینا۔ محترمہ روتھ صاحبہ نے بہت درمندی سے کہا کہ شراب کا
پرمٹ بوٹا مسیح لیتا ہے اور پیتا محمد بوٹا ہے۔ اس بل کی تحریک انصاف اور پیپلز
پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کے خواجہ سعد رفیق
اور رانا ثنااللہ نے بھی مخالفت کی اوررمیش
بیچارے کو خوب ڈانٹ پلائی گئی۔ بشیر رورک صاحب نے خوف دلایا کہ اگر یہ بل
منظور ہوگیا تو دنیا میں بڑی بدنامی ہوگی۔ ہمیں معلوم نہیں
کہ بشیر ورک صاحب کاتعلق کس پارٹی
سے ہے۔قانون سازوں کی یہ گفتگو سن کر لگ رہا ہے کہ پیر بگھے شاہ کو یہ دوکان سجانے کی اجازت نئے پاکستان کے ملائم پہلو (soft
image) کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔
No comments:
Post a Comment