کیلی فورنیا میں سزائے موت پر پابندی
آبادی کے لحاظ سے
امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کیلی فورنیا کے
گورنرنے ایک خصوصی فرمان کے ذریعے سزائے
موت پر پابندی لگادی ہے۔ ڈیموکریٹک
پارٹی سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ گیون نیوسم
(Gavin Newsom)نے کہا اس تصور سے ہی انکی نیند اڑی جارہی کہ کہیں کوئی بے
گناہ پھانسی نہ چڑھ جائے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ جب تک ہر قسم کے شک سے پاک نظامِ انصاف
قائم نہ ہوجائے سزائے موت کا اجرا سراسر ظلم ہے۔شک کی بنا پر کسی مجرم کا چھوٹ جانا اس بات سے بہتر
ہے کہ جلد بازی میں کوئی بے گناہ موت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔
خون کے بدلے خون یا قصاص
کو اللہ نے انسانی حیات کیلئے ضروری قرار دیا ہے لہٰذا س سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا لیکن قاتل کو بھی صرف اسی صورت میں پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے جب
انصاف کا شفاف نظام موجود ہو۔
پاکستان میں پولیس کے عام سپاہی سے لے کرعدالت
کے ججوں تک کسی کا دامن صاف نہیں۔ کچہریوں کے راہداریوں میں
پیشہ ور گواہ دندناتے پھرتے ہیں کثرتِ آمدورفت کی وجہ اسے ان جھوٹے گواہوں کی ججوں سے بھی
بے تکلفی ہے۔
سزائے موت صرف صادق و امین لوگوں کی گواہی یا اعتراف کی صورت
میں دی جاسکتی ہیں۔ طبی معائینہ، DNAاور فرانزک آڈٹ وغیرہ میں غلطی کی گنجائش موجووہے۔ فروری
میں کیلی فورنیا ہی میں قتل کے ایک مجرم کو39 سال بعد جیل سے رہا کیا گیاہے۔ اس
شخص کو DNAکی بنیاد پر سزا سنائی گئی تھی لیکن جب ریکارڈ کا جائزہ لیا
گیا تو معلوم ہوا کہ DNAٹیسٹ کے دوران خون کے
نمونے خلط ملط ہوگئے تھے۔وہ تو خیر رہی کہ اسے پھانسی نہیں دی گئی اسلئے رہا کردیا
گیا۔ زینب کے قاتل عمران کو DNAٹسٹ کی بنیاد پر ہی تختہِ دار پر لٹکایا گیا ہے معلوم نہیں
کہ عمران واقعی قاتل تھا یا بے ایمان پولیس سے اصل مجرموں کا بچانے کیلئے DNAمیں ہیراپھیری کرکے
اس نوجوان کو پھانسی پر چڑھادی۔
اس پس منظر میں کیلی فورنیا کے گورنر کی جانب سے سزائے موت
کی معطلی مبنی بر انصاف نظر آتی ہے۔ پاکستان میں بھی شفاف نظام انصاف
کے قیام تک سزائے موت پرپابندی ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment