گولان پر اسرائیل کے قبضے کو
امریکی سند کا اجرا
قدامت پسند
سینیٹر اور صدر ٹرمپ کے پرجوش اتحادی مسٹر
لنڈسے گراہم نے گولان کو اسرائیل کا حصہ
تسلیم کرنے پر زور دیا ہے۔ 1800 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ سطح مرتفع هضبة الجولان یا Golan Heightsکہلاتی ہے۔ اسکا بلند ترین مقام سطح سمندر سے 9ہزار 2 سو فٹ بلند ہے۔گولان کے دو تہائی حصے
پر 1967کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا ۔ 1981 میں مقبوضہ گولان کواسرائیل میں ضم کرلیا گیا تاہم
امریکہ اور اقوام متحدہ نے اسرائیلی اقدام
کو تسلیم نہیں کیا اور عالمی نقشوں میں گولان اب بھی شام کا حصہ ہے۔ اس ضمن میں سلامتی کونسل کی قرراداد 242 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ
گولان شام کا حصہ ہے۔ دفاعی اعتبار سے یہ بلند مقام اسرائیل کیلئے بے حد اہم ہے کہ یہاں سے اردن، لبنان اور شام پر نظر رکھی جاسکتی ہے
امریکہ
میں اسرائیل کے حامی ایک عرصے سے تحریک چلارہے ہیں کہ گولان کو اسرائیل کاحصہ
تسلیم کرلیا جائے۔ صدر ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد اس مطالبے میں شدت اگئی ہے۔ گزشتہ
ماہ ریپبلکن پارٹی کے تین سینٹرز نے امریکی سینیٹ میں ایک قرارداد بھی
پیش کی ہے جس میں گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، اب تک اس قرارداد پر
رائے شماری نہیں ہوئی۔
آج سینٹر
لنڈسے گراہم نے اسرائیلی وزیاعظم نیتھن یاہو اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر
کے ہمراہ مقبوضہ گولان کا دورہ کیا۔اس موقع پر انھوں نے
کہا کہ ایک محفوظ و خوشحال اسرائیل امریکہ کے مفاد میں ہے اور دہشت گرد حملوں سے
بچاو کیلئے گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم
کرنا ضروری ہے۔ ایسی کھلی ناانصافی ہی دنیا میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کے فروغ
کابنیادی سبب ہے۔ معلوم نہیں دنیا کو اس حقیقت کا ادراک کب ہوگاَََ؟؟؟ْ
No comments:
Post a Comment