سمندر میں تیل ۔ قبل از وقت شور شرابا
ہمارے
وزیراعظم صاحب پاکستانیوں کی خوشی اور خوشحالی کیلئے بیچین ہیں اور اسی بنا پر وہ سمندر میں تیل و گیس کی تلاش
کیلئے کھودے جانیوالے کنویں کیکڑانمبر 1
کے بارے میں پرجوش و پرامید نظر آرہے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جلد بازی انکےمنصب کے شایانِ شان نہیں۔ پرامید
ہوناتو اچھی بات ہے لیکن کھدائی کی تکمیل سے پہلے ہی ایشیا میں تیل و گیس کے سب سے
بڑے ذخیرے کے دریافت کی خوشخبری سنادینا ہمارے خیال میں کسی طور مناسب نہیں۔ اس
کنویں پر کامیابی کی امید صرف 12 فیصد ہے
اور اس پس منظر میں قبل از وقت کامیابی کے شادیانے بجادینا اس اعتبار سے انتہائی
خطرناک ہے کہ اگر خدانخواستہ متوقع نتائج حاصل نہ ہوسکے تو جہاں قوم کے حوصلے پست
ہونگے وہیں وزیراعظم پر سے قوم کا اعتماد ختم ہوجائیگا۔ جو احباب اس صنعت سے
وابستہ نہیں انکے لئے عرض ہے کہ تیل کے ذخیرے کی دریافت کیلئے چند باتیں اہم ہیں
·
اس جگہ
مسام دار چٹانیں جیسے چونے کا پتھر (Limestone)یا ریت (Sand)ضروری ہیں جن میں تیل یا گیس جمع رہے۔ تیل گیس
اور پانی زیر زمین چٹانوں کے مسامات میں اسی طرح جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج میں
پانی۔ یہ مسام دار چٹانیں ہی کیکڑا کا ہدف ہے۔
·
دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس مسام دار چٹان کے
اوپر ایک غیرمسام دار چٹان (Cap
rock) موجود ہو جو اس تیل و گیس کے
ذخیرےکو محفوظ رکھ سکے۔ اگر ذخیرے کے اوپر چٹانوں کی کوئی سخت پرت موجود نہ ہو یہ
تیل و گیس اوپر اور دائیں بائیں رس (Leak)جائیگی۔
·
تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس جگہ کی ساخت و بناوٹ
(structure)
ایسی ہو
کہ تیل و گیس ہر طرف سے سمٹ کر ذخیرے کی طرف آسکے۔
ان تینوں
نکات کا حتمی تعین اسی صورت ہوسکتا ہے جب ہدف تک
کامیابی سے کھدائی مکمل کرلی جائے اور محض کھدائی کافی نہیں بلکہ مسامات
کے تجزئے و پیمائش، ذخیرے میں موجود تیل و گیس کی مقدار کے تعین، اسکے دباو
اور غیر مسام دار چٹان کے تجزئے کیلئے تفصیلی
پیمائش و آزمائش (Logging & Testing)کے بعد ہی تیقن کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ اس
سے پہلے ہونے والے مشاہدات و نشانات سے کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن اسکی بنیاد پر امید قائم کرلینا مناسب نہیں۔
اس ضمن
میں آجکل Pressure Kicksکا بڑا شور ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ
زیرزمین تیل و گیس کے غیر معمولی دباو کا مظہر ہے۔ پریشر ککس کو سمجھنے کیلئے
احباب تصور کریں کہ چار پانچ ہزارمیٹر مٹی سے دبی چٹانوں میں مائعات (تیل ، پانی یا گیس) پھنسے ہوتے ہیں اور جب کھدائی کے دوران اوپر کی پرت ادھڑتی ہے تو یہ
مائع پوری قوت سے کنویں کے راستے اوپر کی طرف اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دباو کا
مقابلہ کرنے کیلئے پانی میں مختلف کیمیکل ملا کر نیچے پمپ کیا جاتا ہے جسے کیچڑ یا
Mudکہتے ہیں۔کیچڑ کی کمیت بڑھانے کیلئے اس میں وزن
دار کیمیکل جیسے بیرائٹ (Barite) ملایا
جاتا ہے جسکی وجہ سےکیچڑ بھاری ہوجاتا ہے۔ کیچڑ سے زیرزمین پڑنے والے دباو کو Hydrostatic Pressureکہتے ہیں جبکہ زیرزمین اوپر کی جانب دباو Formation Pressureکہلاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ Hydrostatic Pressureزیرزمین دباو سے اتنا زیادہ تو ہوکہ چٹانو ں میں پھنسا
مایع اوپر کی جانب سفر نہ کرسکے
لیکن اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ اسکے دباو سے
زیرزمین چٹانیں ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ زیرزمین دباو کے تخمینے میں بسا اوقات غلطی
ہوجاتی ہے جسکی وجہ سے Pressure Kicksکا سامنا کرنا پڑتاہے۔ کیکڑا1 میں بھی جس Pressure Kicksکی جو بات کی جارہی ہے وہ اسی قسم کی ایک چیز ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ
پانی کی Kickہو۔
ہماری اس تحریر کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں ۔ ساری
قوم عمران خان کی طرح پرامید و دعا گو ہے لیکن کنویں کی کھدائی ایک عام ٹیکنیکل معاملہ ہے اور جو لوگ یہ کام کررہے
ہیں وہ انتہائی تجربہ کار ہیں، انھیں معلوم ہے کہ کس مرحلے پر حاصل ہونے والی
معلومات حتمی ہیں جو وقت پر جاری کردی جائینگی۔غیرمصدقہ اطلاعات ومشاہدے کی بنیا
پر سنسنی خیز خبروں سے پاکستان کے بارے منفی تاثر پیدا ہورہا ہے اور
وزیراعظم کی جانب سے اس بے صبری کا اظہار
صنعتی حلقوں میں مذاق بنا ہوا ہے۔
الللہ بہتری کرے
ReplyDeleteموزمبیق میں جو تیل نکلا تھا وہاں کامیابی کی اُمید 5 فی صد تھی۔ بہرحال آپ ایک اور بلاگ لکھیں اور ہمیں۔ یہ سمجھائیں کہ اگر ذخائر دریافت ہوں جاتے ہیں تو انکو ملکی استعمال میں لانے پر کتنا وقت لگے گا۔
ReplyDelete