امریکہ طالبان مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں
جب سے
طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات شروع
ہوئے ہیں آج پہلی بار امریکی وزارت خارجہ نے صحافیوں کو واشنگٹن کے سرکاری موقف سے
آگاہ کیا۔ امریکی دارالحکومت میں اخباری
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزرات خارجہ کے ترجمان رابرٹ پیلاڈینو Robert Palladinoنے کہا کہ دونوں جانب
سے انتہائی بااختیار وفد مذاکرات میں حصہ
لے رہا ہے۔ امریکی وفد کی قیادت جناب زلمے خلیل زاد کررہے ہیں اور انکی معاونت کیلئے
امریکی دفتر خارجہ کے اہلکار بھی موجود ہیں جبکہ ملا
عبدالغنی برادر اخوند طالبان وفدکی قیادت کررہے ہیں۔ اس سے پہلے طالبان نے
اصرار کیا تھا کہ مذاکرات امریکہ اور طالبان
کے مابین نہیں بلکہ امارات اسلامی افغانستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA)کے درمیان ہورہے ہیں۔
امریکی ترجمان نے کہا
کہ گفتگو کا محور چار نکات ہیں:
·
بعد از امن انسداد
دہشت گردی کے موثر و قابل اعتماد اقدامات
·
افغان گروہوں کے
درمیان بات چیت
·
غیر ملکی فوج کا انخلا
·
جنگ بندی
یہ نکات جس انداز اور ترتیب سے پیش کئے گئے ہیں اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی حکومت طالبان کے موقف
کے قریب آتی جارہی ہے۔ اس سے پہلے امریکی فوری اور غیر مشروط جنگ بندی پر اصرار کررہے تھے
جسکے جواب میں ملاوں کا موقف بڑا دوٹوک تھا یعنی غیر ملکی فوج کی واپسی سے پہلے جنگ بندی کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب جنگ بندی بات چیت کا
آخری نکتہ ہے۔ اسی طرح طالبان کابل انتظامیہ سے بات چیت ہر کسی قیمت تیار نہیں۔ نئے ایجنڈے میں افغان حکومت کے بجائے 'افغانوں کے مابین ' یا Intra-Afghansبات چیت کہا گیا ہے
جس سے مراد اشرف غنی کے ساتھ گلبدین
حکمتیار کی حزب اسلامی، ہزارہ برادری،
حزبِ وحدت، دوسری سیاسی جماعتیں ،سابق صدر حامد کرزئی اور جنرل عبدالرشید دوستم
وغیرہ سب شامل ہیں۔
کامیابی
کی راہ میں اب سب سے بڑی رکاوٹ امریکی کانگریس کا قدامت پسند طبقہ ہے جسکے لئے
افغانستان سے غیر مشروط واپسی قابل قبول نہیں۔ اس سلسلے میں سینیٹ کے قائدِ ایوا ن مچ مک کونل کی ایک
قرارادر 23 کے مقابلے میں 68ووٹوں سے منظور ہوچکی ہے۔
ادھر امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ ضرورت تو وہ خود بھی مذاکرات میں شرکت کیلئے قطرجائینگے
ادھر امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ ضرورت تو وہ خود بھی مذاکرات میں شرکت کیلئے قطرجائینگے
No comments:
Post a Comment