حالیہ فضائی جھڑپ میں ایف 16 کے مبینہ استعمال پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔
کچھ احباب نے اس موضوع پر معلومات کی فرمائش ہے۔ ٖ2006میں جب F-16کا
سوداہورہا تھا میرا ایک کالم نوائے وقت
میں شائع ہواتھا۔ اسے احباب کیلئے دوبارہ پیش کررہاہوں۔ اسے پڑھتے وقت خیال رکھیں
کہ یہ 13 سال قبل لکھا گیا تھا۔
F-16مشتری
ہشیار باش!!
بش
انتظامیہ کی جانب سے 5.3ارب ڈالر کے
عوض 36 ایف 16 طیاروں کی فروخت پر امریکی کانگریس (پارلیمان) نے کوئی پاندی نہیں
لگائی۔ ضابطے کے مطابق کسی بھی قابل ذکر
بین الاقوامی سودے یا معاہدے کی صورت میں کانگریس60 دن کے اندر اس سودے پر اعتراض
کا حق رکھتی ہے۔تاہم اگر اس دوران پابندی کی کوئی تحریک پیش نہ ہو تو' خاموشی نیم
رضا' کے قاعدے کے تحت معاہدہ قانونی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ایف 16 کی خریداری پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تقریباً تمام
ہی حکمرانوں کا خواب ہے۔فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسکی کارکردگی بہت اچھی
رہی ہے اور فضائی ہتھیاروں کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فی زمانہ ایف 16 سے
اچھا کوئی طیارہ کوئی موجود نہیں۔
یہ جہاز جو بنیادی طور پر ایک لڑاکا طیارہ ہے تباہ کن میزائل اور بموں سمیت 15 ہزار ٹن وزن لے کر اڑ
سکتا ہے۔ ایف 16 خود تو ریڈار کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے لیکن زمین، سمندر یا فضا
میں نصب ریڈارسے خارج ہونے والی تابکار شعاعیں اس عقاب کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں
اور اس شعاعوں کا تعاقب کرتے ہویئ اسکے پروں سے نکلنے والے میزائل تاک تاک کر
ریڈار کو نشانہ بنالیتے ہیں۔گویا دشمن کے علاقے میں پہنچتے ہی یہ سب سے پہلے انکے
دفاعی نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔جسکے بعد اس میں ذخیرہ کیا گیاپندرہ ہزار ٹن بارود
آگ و آہن کی برسات کردیتا ہے۔
ایف 16 سے پاکستانی حکمرانوں کا عشق کوئی نیا نہیں۔ آپ کو
یاد ہوگا ضیاالحق مرحوم نے بھی ایف 16 کی خریداری کیلئے معاہدہ کیا تھا۔اوراسکے
بعد طیارہ ساز ادارے لاک ھیڈ مارٹنMartin Lockheedکو پرچیز آرڈر
کے ساتھ پیشکی ادائیگی بھی کردی گئی۔ لیکن امریکی کانگریس نے پاکستان کو اسلحے کی
فراہمی پر پابندی لگادی۔مزے کی بات کہ لاک
ہیڈ نے پابندی کے بعد رقم کی واپسی سے انکار کردیا۔ انکا موقف تھا کہ
جہازوں کی کھیپ تیار ہوچکی ہے لہٰذا رقم واپس نہیں ہوسکتی اور چونکہ پابندی حکومت
نے لگائی ہے اسلئے لاک ہیڈ اسکی ذمہ درا نہیں۔
دس بارہ سال بعد جب لاک ہیڈ کو ان طیاروں کا ایک دوسرا
خریدار مل گیا تو یہ رقم اس تکلف سے واپس ہوئی کہ اسکا ایک حصہ لاک ہیڈ نے گودام
کے کرائے اور سروس چارج کے نام پر رکھ لیا، کچھ رقم گندم اور سویابین کی شکل میں
واپس ہوئی اور ایک حقیر ساحصہ نقد عطا ہوا۔
سادہ سے میر صاحب کی طرح پاکستان ایک بار پھر اسی عطار کے
لونڈے سے دوا لے رہا ہے جسکی دوائیں کھاکر تیسری دنیا کے سارے ممالک کنگال ہوچکے
ہیں۔خیال تھا کہ اس بار بھی کانگریس فروخت پر پابندی لگادیگی۔خاص طور سے جب
پاکستان کا جوہری پروگرام واشنگٹن کیلئے سخت تشویش کا باعث ہے۔کانگریس کے اکثر
ارکان اس سودے پر سخت تشویش کا اظہار کررہے تھے لیکن مجلس قائمہ کے اجلاسوں میں
پاکستان کےخلاف تلخ گفتگو کے باوجود کانگریس میں اسکے خلاف کوئی تحریک نہیں پیش کی
گئی۔
کانگریس میں اسکے خلاف کوئی تحریک کیوں نہ آئی۔ سیاسی
مبصرین نے اسکے بارے میں مختلف تاویلیں پیش کیں ہیں۔ وزرات خارجہ کی ترجمان کا
خیال تھا کہ روشن خیال پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی تنہائی ختم ہوچکی
ہے اور قوموں کی برادری میں پاکستان نے ایک بلند مقام حاصل کرلیا ہے۔وزیراطلاعات محٓمد
علی درانی کے خیال میں یہ صدر مشرف کے تدبر اور دہشت گردی کے خلاف جنرل صاحب کے
قائدانہ کردارکا ثمر تھا۔ ہے۔ وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا تھا کہ
پاکستان کی خارجہ پالیسی عالمی رائے عامہ کی امنگوں سے ہم آہنگ ہوچکی ہے لہٰذا اب
امریکی کانگرہس کیلئے پاکستان کی مخالفت ممکن نہیں۔
دوسری طرف واشنگٹن کے سیاسی و عسکری ذرایع تصویر کا دوسرا
رخ پیش کررہے ہیں۔کانگریس کی مجلسِ قائمہ میں بش انتظامیہ نے اس سودے کی جو
تفصیلات بیان کی ہیں اس ے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طیارے محض تجارتی نشان اور نام کی
حد تک ہی ایف 16 ہونگے، پاکستان مخالف لابیوں کی تسلی و تشفی کیلئے بش انتطامیہ نے جو وضاحتیں
فراہم کی ہیں اسکے مطابق ان طیاروں میں Westinghouseے ریڈار نصب نہیں جو F-16کابنیادی جزو ہے۔یہ ریڈار دشمن کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے اور ان سے نکلنے والی
شعاعوں کے تعاقب میں میزئل داغنے کیلئے مشہور ہیں۔
ان طیاروں پر Dynamic Position
Devices (DPS)نصب ہونگے جسکی مدد سے ان طیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی
جاسکے گی۔ DPSسے جاری ہونے والے سگنل خلا میں موجود امریکی سیاروٓں کو
طیارے کے مقام سے باخبر رکھیں گے تاکہ یہ ناپسندیدہ ہاتھوں میں نہ جاسکیں۔
ان طیاروں کے استعمال کیلئے کڑی شرائط عائد کی گئی ہیں۔
جنکے مطابق انھیں محض دفاعی مقصد کیلئے استعمال کیا جائیگا اور صرف پاکستان کی
فضائی حدود میں پرواز کرنے کی اجازت ہوگی۔ ان طیاروں پر جوہری اسلحہ نصب نہیں کیا
جائیگا۔ان طیاروں کے ہر اسکوڈرن پر دو امریکی نگران تعینات رہینگےجنکے مشاہرہ اور
قیام و طعام پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ایک اندازے کے مطابق ان اٹھارہ
نگہبانوں پر 4 لاکھ ڈالر کے حساب سے 72 لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہونگے۔
امریکی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ضروری پیش بندیوں اور حفاظتی
اقدامات کے بعد ان طیاروں کا ناپسندیدہ استعمال تقریباً ناممکن ہوگا۔ ماہرین نے ان
اقدامات کو کسی بھی ممکنہ ناکامی سے مبرا قراردیا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ مجلس
قائمہ میں گرماگرم بحث کے باوجود اس سودے کی کانگریس کے ذریعے منسوخی کی کوئی کوشش
نہیں کی گئی۔ ان کڑی شرائط کی منظوری اور انھیں معاہدے کا حصہ بنانے کو بش
انتظامیہ بہت بڑی کامیابی قراردے رہی ہے۔امریکیوں کیلئے یہ آم کے آم اور گٹھلیوں
کے دام والا معاملہ ہے کہ اس سودے سے ایک خطیر حاصل ہورہی ہے۔ بہت سے حساس آلات کی
عدم تنصب سے اسکی پیداواری لاگت بھی کم ہوگی اور پھر سب سے بڑھ کر فروخت کے بعد یہ
براہ راست امریکہ بہادر کی زیرنگرانی رہینگے اور اس نگرانی کا جملہ خرچ منافع سمیت
پاکستان ادا کریگا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجوزہ سیلز ایگریمنٹ پر درج
تفصیلات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارا تجزیہ امریکی کانگریس کی مجلس قائمہ کی
روداد، امریکی قانون سازوں کے بیانات و اعتراضات اور بش انتظامیہ کئ جانب سے جواب
و جواب الجواب پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کے غیر جانبدار عسکری اور سفارتی ذرایع بھی اس
سودے کی ایسی ہی تفصیلات پیش کررہے ہیں۔
اگر معاہدہ واقعی ایسا ہی ہےتو پاکستان کیلئے یہ سراسر
نقصان کا سودا ہے کہ اسکے نتیجے میں حاصل ہونے والے جہاز پاکستانی فضائیہ کے ہوائی
اڈوں کی تزئین و آرائش ہی کیلئے استعمال ہوسکیں گے یا انھیںوزیرستان میں طالبان کے
خلاف استعمال کیا جاسکے گا۔ استعمال پر کڑی پابندیوں اور امریکی نگرانوں کی
موجودگی میں یہ ہتھیار امریکہ کی مرضی کے خلاف استعمال نہیں ہوسکے گا۔ قومی دفاع
اور اسکے فلسفے کے اعتبار سے پاکستان اور امریکہ کی ترجیحات میں اکثر امور پرکافی
فرق پایا جاتا ہے اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ جدید ترین طیاروں کا یہ بیڑہ عام
حالات میں سفید ہاتھی اور جنگ کی صورت میں پورس کے ہاتھی ثابت ہونگے۔
روزنامہ نوائے وقت راوالپنڈی 23 اگست
2006
No comments:
Post a Comment