الجزائر۔۔ تبدیلی کی نئی لہر
الجزائز میں کئی ہفتوں سے جاری ہنگامے آج شدت اختیار کرگئے جب سارے ملک میں لاکھوں افراد نے ضعیف بلکہ قبر میں پیر لٹکائے لیکن اقتدار سے چمٹے صدر عبد العزيز بوتفليقة کے
خلاف مظاہرہ کیا۔ تیل سے مالا مال سواچار
کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک لاکھوں اخوانیوں کے لہو سے منور و معطر ہے۔ تیل کی صنعت سے وابستہ احباب
کیلئے عرض ہے کہ الجزائر کی قومی تیل کمپنی
سوناطراك (Sonatrach)کی تعمیرو ترقی میں پاکستانی ماہرین نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آزادی اور نئے آئین کی تدوین کے بعد 12 جون 1990 کو
ہونے وا لے پہلے آزادانہ انتخابات میں
اخوانی فکر سے وابستہ نیشنل سالویشن فرنٹ (FIS)نے 54 فیصد ووٹ لے کر تمام کی تمام بلدیات میں حکومت بنالی۔
دنیا بھر کی تحریک اسلامی کی طرح FISبھی خدمت
خلق کے میدان میں بے حد سرگرم و منظم ہے۔
بلدیاتی اقتدار کو FISنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بہت ہی حکمت و تدبر سے
استعمال کیا اور اسکی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ جب نومبر 1991 میں عام
انتخابات کا اعلان ہوا تو فرنٹ کی
کامیابی یقینی نظر آرہی تھی جس سے امیروں کو سخت پریشانی تھی۔چنانچہ امرا نے اپنے
خزانوں کے منہہ کھول دئے۔ سیکیولر، فوج ، کمیونسٹ اور تمام دین بیزاروں نے فرنٹ کے
خلاف متحدہ محاذ بنالیا حتیٰ کہ اہل جبہ و دستار اور صوفی ومشائخ بھی اسلامک
سالویشن مخالف اتحاد میں شامل ہوگئے۔ جب 26 دسمبر 1991 کو انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تو فرنٹ سے 46 فیصد
ووٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی 231 میں سے 188 نشستیں جیت لیں۔ سارے ملک میں جشن کا
سماں تھا لیکن یہ جشن دوسری ہی صبح شامِ غریباں میں تبدیل ہوگیا جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے انتخابات کو منسوخ کردیا۔ FISکے کالعدم کرکے اسکے
مرشدِ عام عباس مدنی سمیت تمام رہنماوں کو
گرفتار کرلیا گیا۔ جسکے بعد اخوانیوں پر الجزائز کی زمین تنگ اور انکے خون سے سرخ
کردی گئی۔ فرنٹ کا کہنا ہے کہ 30 ہزار خواتین سمیت اسکے ڈیڑھ لاکھ کارکن قتل کردئے
گئے۔ دنیا میں جمہوریت کے سار ے علمبرداروں نے عوام امنگوں اور مینڈیٹ پر ڈالے
جانیوالے ڈاکے کی بھرپور حمائت کی۔ یورپی یونین کا کہنا تھا کہ الجزائری فوج نے
بروقت کاروائی کرکے اپنے ملک کو گڑھے
میں گرنے سے بچالیا ۔ اسی پر جناب انو رمسعود
نےکہا تھا
ہمیں جمہوریت اچھی
لگے ہے ۔۔۔ اگر یہ الجزائر میں نہ ہووے
یہ خو نریزی 7 سال جاری رہی اس دوران گلی گلی اور محلے محلے
چن چن کر اخوانی کارکن ٹھکانے لگادئے گئے۔ چند لوگ مراکش بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔
1999 تک اخوان کی کمر ٹوٹ چکی تھی لیکن
پھر بھی فوجی جنتا کیلئے آزادانہ انتخابات کا خطرہ لینا ممکن نہ تھا چنانچہ کڑی
شرائط کے ساتھ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے اور جناب عبد العزيز
بوتفليقة
75 فیصد ووٹ لے کر
صدر منتخب ہوگئے۔ عبدالعزیز صاحب نے اسکے بعد
نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN)
کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کرلی اور اسکے
بعد سے وہ مسلسل منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ 82 سالہ عبدالعزیز گزشتہ آٹھ سال سے سخت علیل
ہیں اور اپنا اکثر وقت جنیوا کے ہسپتالوں کی گزارتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مال مال
ملک کے یہ مطلق العنان حکمران 20 سال کے
دوران ایک ایسا ہسپتال بھی نہ بنا سکے جس میں وہ اپنا علاج کراسکیں۔
حکومت کی کرپشن اور
آمریت کے خلاف اب لوگ ایک بار پھر تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور صدر صاحب کے
خلاف مظاہرے معمول بنے ہوئے ہیں۔ تاہم صدر عبدالعزیز کا اسکا ندازہ بھی نہیں کہ موصوف سوئٹزرلینڈ میں اپنا علاج کرارہے
ہیں۔ سنتے ہیں کہ پاکستان پر کبھی ایسا
وقت آیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد فالج کے باوجود حکمرانی فرمارہے تھے ۔
آج کے احتجاج کو
ناکام بنانے کیلئے ملک بھر میں ریل گاڑیاں
اور بسیں بند کردی گئیں۔ گویا عملاً کرفیو
لگادیا گیا لیکن اسکے باوجود سارے ملک میں مظاہرے ہوئے۔ دارلحکومت الجیر سارا دن
مظاہرین کی گرفت میں رہا۔ لاٹھی چارج اور انسو گیس کے باوجود مظاہرین کسی طور
منتشر نہ ہوئے۔ دیکھنا ہے کہ صدر عبدالعزیز اور حکمراں جنتا عوامی دباو کا کہاں تک
مقابلہ کرتی ہے۔
No comments:
Post a Comment