ترکی کے بلدیاتی انتخابات
ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں
صدر طیب رجب اردوان نے اپنی
برتری تو قائم رکھی لیکن انقرہ میں شکست سے رنگ میں کچھ بھنگ سا پڑگیا ہے۔ غیر سرکاری
نتائج کے مطابق حکمران ترقی و انصاف
پارٹی یا AKPنے 44.42فیصد اور انکی قریب ترین
حریف اتاترک کی CHPنے 30.07 فیصد ووٹ لئے۔ اگر اتحادیوں کے ووٹ جوڑ لئے
جائیں تو 51.67فیصد ترکوں نے حکمراں عوامی اتحاد کے حق میں رائے دی اور 37.53فیصد ووٹروں نے حزب اختلاف کے جمہوری اتحاد پر اعتماد
کا اظہار کیا۔ نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے
یہ پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی ترجیح قومی
انتخابات سے ذرا مختلف ہوتی ہے اور لوگ بلدیاتی پرچہِ انتخاب )بیلٹ پیپر)پر ٹھپہ لگاتے وقت نظریات،
قانون سازی اور پالیسی کی تشکیل سے زیادہ گلی محلے کے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں جوش و
خروش دیدنی تھا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 84فیصد سے زیادہ رہا۔
گزشتہ
کچھ عرصے سے ترکی کی معیشت شدید دباو میں ہے۔ بیرونی قرض بڑھنے اور ترک لیرا کے
زوال کی بنا پر ملک کو شدید مہنگائی کا سامنا ہے اور وزگار کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ۔ نوجوان
ترک ایردوان کا دست بازو ہیں اور یہی طبقہ بیروزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ حزب اختلاف
کے سربراہ کمال کوچدارولو Kemal Kılıçdaroğluنے ترک معیشت کو انتخابی مہم کی بنیاد بنایا ۔ ترک
تاریخ کی یہ پہلی مہم تھی جس میں CHP کے جلسوں میں 'حمدِ اتاترک 'اور سیکیولر ازم کے فیوض و برکات کا کوئی ذکر نہیں سنا
گیا اور نہ ہی اردوان کی ملائیت ہدف تنقید بنی بلکہ حزب اختلاف کا سارا زور معیشت
پر تھا ۔ کمال کوچدارولو اور انکے اتحادی حزب
خیر (Good
Party)کی
محترمہ مرال کثر Meral Akşener اپنی تقریروں میں اردوان کو ناکام ارسطو قراردیتے رہے جنھوں نے
اپنے داماد کے ساتھ مل کر ترک معیشت کابیڑا
غرق کررکھاہے۔ صدر ایردوان کے داماد بیرات
البیراک Berat Albayrak ترکی کے وزیرخزانہ ہیں۔
حزب اختلاف نے ملک کے 6 بڑے شہروں یعنی دارالحکومت انقرہ،
استنبول، ازمیر، برسا،اناطالیہ اور
ادانہ کو ہدف بنایا۔ حکومت مخالف جمہوری اتحاد نے انقرہ سے ایردوان کی 25 سالہ برتری کا خاتمہ کردیا ساتھ
ہی اناطالیہ اور ادانا بھی لے اڑے۔ا سی کے
ساتھ سیکیولر CHPنےازمیر پر اپنی روائتی برتری برقرار رکھی جبکہ استنبول میں گھمسان کا
رن پڑا۔ یہاں غیر سرکاری نتائج کے
مطابق ایردوان کے امیدوار بن علی یلدرم 4773 ووٹوں کی
برتری سے حزب اختلاف کے اکرم امام اوغلو کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے لیکن یہ فرق 0.056 فیصد سے بھی کم ہے۔ امام اوغلو نے دوبارہ
گنتی کا مطالبہ کیاہے۔ استنبول AKPکا گڑھ ہے اور یہاں ڈالے جانیوالے
82 لاکھ ووٹوں میں 5000سے بھی کم ووٹوں کی برتری کا خود صد ایردوان نے بھی نوٹس لیا ہے۔
نتائج کے
مطابق کرد علاقوں، جنوب ترکی، بحرروم کے
ساحل اور خلیج یونان سے متصل علاقوں میں جناب ایردوان کو سخت مزاحمت
کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات کا خوش
آئند پہلو یہ ہے کہ کرد علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ
اور دہشت گرد وں کی دھمکیوں کے باوجود جوش وخروش کے ساتھ انتہائی پرامن انتخابات ہوئے اور کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی HDPنے برتری حاصل کی۔
انتخابی
نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترک عوام نے انکی پارٹی پر اپنے
اعتماد کی تجدید کے ساتھ معاشی معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جوآنے والے دنوں
میں انکی اولین ترجیح ہوگی۔دوسری طرف چند بڑے شہروں میں کامیابی کے باوجود حزب
اختلاف کیلئے نتائج انکی توقعات کے مطابق
نہیں۔ رائے عامہ کے تمام جائزے جمہوری اتحاد کو حکمران عوامی اتحاد سے ایک
آدھ پوائنٹ آگے بتارہے تھے لیکن حزب اختلاف کےمجموعی ووٹ 38 فیصد بھی کم رہے۔
No comments:
Post a Comment