ابھی نندن، پیٹرول و بجلی کی قیمتوں میں
اضافہ اور معاہدہ تاشقند۔ تاریخی پس منظر
سیانوں کے خیال میں تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ
سے کسی نےسبق نہیں سیکھا لہٰذا ہم نے سوچا
کہ آج 1965 کی ہندوپاک جنگ، غیر مقبول معاہدہ تاشقند، قیمتوں میں
اضافہ اور حکومت مخالف تحریک کا ایک چھوٹا
سا جائزہ پیش کیاجائے جو شاید تاریخ
اورسیاست کے طلبہ کو دلچسپ محسوس ہو۔ ابھی نندن کی عجلت میں واپسی کے غیر مقبول
فیصلے کے ساتھ پیٹرول و بجلی کی قیمتو ں
میں اضافے سے53 سال پہلے کے سیاسی حالات میں بڑی مطابقت نظرآرہی ہے۔
یہ 6 ستمبر 1965 کی بات ہے جب ہندوستان نے لاہور، چونڈہ،
چھمب جوڑیاں اور سندھ پر زبردست حملہ کیا۔ اس دوران سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کے مقام پر جنگ عظیم
دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی بھی ہوئی ۔ بری فوج اور فضائیہ کے ساتھ
سمندر میں بھی پنجہ آزمائی ہوئی اور پاک بحریہ
نے کراچی سے 200 میل دور ہندوستان کے بحری
اڈےدواراکا(سومنات) پر حملہ کرکے اسے بھاری نقصان پہنچایا۔ ان دنوں پاک بحریہ کی
آبدوز غازی بہت مشہور ہوئی۔اسی جنگ میں میجر راجہ عزیزبھٹی شہید نشانِ حیدر سے
نوازے گئے اور شاہین صفت ایم ایم عالم نے
فضائی جنگ میں نام کمایا۔یہ پاکستان کیلئے
بڑی آزمائش تھی لیکن پاک فوج نے بہت کامیابی سے ملک کا دفاع کیا اور بھارت کے خاصے
علاقے پر پاکستان نے قبضہ کرلیا۔
23 ستمبر 1965کو جنگ بندی ہوگئی جسکے بعد سوویت یونین (سابق
روس) اور امریکہ کے دباو پر ازبکستان کے
صدرمقام تاشقند میں امن مذاکرات ہوئے ۔ اس
گفتگو میں پاکستانی صدر ایوب خان اور ہندوستان کے وزیراعظم آنجہانی لال بہادر
شاستری شریک ہوئے جبکہ روس کے وزیر اعظم
الیکسی کوسیجن نے ثالثی کے فرائض انجام دئے
10 جنوری 1966 کو امن معاہدے پر دستخط ہوئے جسکی شرائط کو
پاکستانیوں نے پسند نہیں کیا اور ایسا تاثر بنا کہ گویا ایوب خان میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار
گئے ہیں۔ عجیب اتفاق کہ معاہدے پر دستخط کے بعد لال بہادرشاستری جیسے ہی ہوٹل کے کمرے میں پہنچے انھیں دل کا
شدید دورہ پڑا اوروہ وہیں انتقال کرگئے۔ پاکستان میں افواہ عام ہوئی ہے
معاہدے کی بے پناہ خوشی میں شاستری کا دل
ڈوب گیا۔شادیِ مرگ شائد اسی کو کہتے ہیں۔دوسری طرف ایوب خان کے حامیوں کا کہنا تھا
کہ کراڑا (کافر) ایوب کی دہشت سے مرگیا۔
اسوقت ذوالفقار علی بھٹو وزیرخارجہ تھے جنکا دعویٰ تھا کہ
انھوں نے صدر ایوب کے سامنے تاشقند ے کی دستاویز کو پاکستان فروخت کرنے کا معاہدہ
قراردیا تھا، بھٹو صاحب کے مطابق ایوب خان نے اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ
ہندوستان سے تو لڑسکتے ہیں لیکن امریکہ سے کھلی جنگ انکے بس کی بات نہیں۔
عوامی سطح پر تاشقند معاہدے کے خلاف شدیدعوامی ردعمل سامنےآیا۔ کراچی میں مظاہرے
ہوئے جسے طاقت کے بھرپور استعمال سے کچل دیا گیا۔ بھٹو صاحب اندرون خانہ تاشقند کے
خلاف بولتے رہے اورآخرِ کار انھوں نے 31 اگست 1966 کو وزارت خارجہ سے استعفیٰ
دیدیا اور پرہجو م پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ عنقریب تاشقند معاہدے کے اصل نکات سے قوم کو آگاہ
کرینگے۔ انھوں نے کہا اب تاشقند کی بلی کے تھیلے سے باہر آنے کا وقت آگیا ہے۔
عجیب اتفاق کہ انھیں دنوں چینی کی قیمتوں میں 50 پیسے فی
سیر اضافہ ہوگیا۔ اس دور میں چھٹانک، پاو
اور سیر کا نظام رائج تھے۔یہ شعبان کے دن
تھے۔ اسوقت ملک میں وہابیت ا ور ردِ بدعات
کا ایسا زور نہ تھا اور ہر گھر میں شب
برات کا حلوہ بنتا تھا۔ چنانچہ چینی کی قیمت میں اضافے کوبری طرح محسوس کیا گیا اور شہروں میں مظاہرے شروع
ہوگئے۔ ملک پر ایوب خان کی گرفت خاصی مضبوط تھی
لیکن مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔حکومتی تشدد کے نتیجے میں کبھی تحریک نرم پڑجاتی لیکن سلسلہ جاری رہا۔
1968 کے وسط سے تحریک میں شدت آگئی اور اب تاشقند معاہدہ نامنظور اور چینی سستی کرو کے
ساتھ ایوب کتا ہائے ہائے بھی شروع ہوگیا۔
اقتدار کی ڈوبتی نیا کوبچانے کیلئے ایوب خان نے بات چیت کے ڈول ڈالے لیکن 25 مارچ 1969 کو جنرل یحییٰ نے مارشل ۔ لا
لگاکر ایوب خان کو چلتا کردیا۔
ہندوستانی پائلٹ کی
واپسی پر بھی عوام میں مایوسی ہے فرق یہ
ہے کہ ایوب خان کے حامیوں کے پاس سوشل میڈیا کا وہ موثر و
فیصلہ کن ہتھیار نہیں تھا جو آج تحریک انصاف کے پاس موجود ہے۔'ڈ کے کھڑا
ہے کپتان'، ' کپتان کا وژن' ،'پاکستانی تاریخ کا سب سے ایماندار سربراہ '،'ہمارا
لیڈر پرچی نہیں دیکھتا'غیرہ کا جادو سر چڑھ بول رہا ہے جس کی وجہ سے شاید معاہدہ
تاشقند نامنظور والی تحریک چلنا ذرا مشکل ہے۔
ایوب خان نے شکر کی قیمت بڑھائی تھی جبکہ عمران صاحب نے عوام
پر پٹرول بم گرایا اور بجلی کا ڈرون حملہ کیا ہے لیکن موجودہ حزب اختلاف منتشر اور
پراگندہ ہے جسکی وجہ سے موثر عوامی تحریک کیلئے قیادت میسر نہیں ۔
اگرتاشقند اور شکر طرز کی تحریک چل بھی جائے تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یکم جنوری 1966 سے شروع ہونے
والی تحریک سوا تین سال بعد 1969 میں ایوب حکومت کے خاتمے کا سبب بنی تھی۔ اس
فارمولے کی رو سے تحریک انصاف کو 2022 تک
کوئی خطرہ نہیں اور 2023 میں ویسے ہی
حالیہ مدت ختم ہورہی ہے لہٰذا بابر بہ عیش
کوش کہ عالم دوبارہ نیست
No comments:
Post a Comment