Friday, March 22, 2019

مفتی تقی عثمانی پر حملہ ۔۔ علما کے بارے میں وزیراعظم کا تحقیر آمیز رویہ


مفتی تقی  عثمانی پر حملہ ۔۔ علما کے بارے میں  وزیراعظم کا تحقیر آمیز رویہ
وزیراعظم عمران خان نے مفتی تقی عثمانی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے  کہا ہے کہ مفتی تقی عثمانی جیسی قابل قدر ہستی پر حملہ سازش ہے اور اس سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش برؤے کار لائی جائے۔گزشتہ برس جولائی میں انتخابی مہم کے آغاز کے بعد  سےآج ہم نے پہلی بار ان  سےعلما کے بارے میں کوئی مثبت  تبصرہ   سنا ورنہ خانصاحب  علما کا جس حقارت سے ذکر کر تے ہیں ویسی زبان ہم نے کبھی  بلا ول سے بھی نہیں سنی۔  عمران خان  علما کیلئے ہمیشہ  تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔  مذہب  کے ٹھیکیدار تو انکا تکیہ کلام ہے۔ گزشتہ سال عیدمیلاد النبی کی تقریب میں  بھی  فرمایا 'مذہب کے ٹھیکیداروں کو سیرت النبی کا کیا پتہ؟   گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ کے اخبار میں انکا کو جومقالہ خصوصی (Op-ed)شایع ہوا ہے اس میں بھی انھوں نے ملاوں پر تبرہ پڑھا ہے۔
مفتی صاحب  پر حملے کے محرکات اور وجوہات میں ایک بڑی وجہ علما کے خلاف  وزیراعظم کا توہین آمیز بیانیہ  ہے جسکے اتباع میں   بابا کوڈا   ، لودھی اور شاہد خان جیسے عقیدت مندوں نے علما کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کررکھا ہے۔ علما کے ہاتھوں خانصاحب  اپنی اس شکست کو نہیں بھولے جب انھیں اپنے دوست پروفیسر عاطف کی نامزدگی واپس لینی پڑی تھی۔ عوامی دباو کی بنا پر اسوقت تو انھوں نے بادل ناخواستہ  یہ مطالبہ منظور کرلیا لیکن یہ بات انکے دل میں بیٹھی ہوئی ہے  اور وہ اپنی  بے عزتی کا بدلہ گرفتار علما پر جیلوں میں انسانیت سوز تشدد کے ذریعے لے رہے ہیں۔ عمران صاحب کی خوش نصیبی کہ چیف جسٹس  کھوسہ کی شکل میں سیکیولرعدلیہ بھی انکی پشت پر ہے اسلئے انکے ہاتھ بالکل کھلے ہوئے ہیں۔
عمران خان  فکری اعتبار سے کمال اتاترک  اور جمال ناصر سے متاثر ہیں۔   انکو اسلامی دنیا میں  محمد بن سلمان ، محمد بن  زید اور جنرل السیسی بہت پسند ہیں اور انھیں ملکوں کے ماڈل پر وہ مساجد و مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کے علاوہ چاہتے ہیں کہ جمعہ کے خطبات   میں محکمہ اوقاف کے متن پڑھکر سنائے جائیں۔ حکومت کے زیرانتطام چلنے والے اسکولوں کا حال دیکھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مدارس  کو سرکار کے زیرانتظام لانے کا اصل مقصد  انکا گلا گھونٹ دینے کے سوا ور کچھ نہیں ۔
کالعدم  تنظیموں کے نام پر مدارس و مساجد کے خلاف کاروائی کا پہلا مرحلہ بہت کامیابی سے جاری ہے اور جماعت الدعوہ کے سینکڑوں مدرسے، اسکول، شفاخانو ں اور رفاحی اداروں کو تالہ لگایا جاچکا ہے۔ بہت سے علما نے خدشہ  ظاہر کیا ہے کہ مفتی تقی عثمانی پر حملے کو بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی  قراردیکر مساجد  ومدراس اور منبر ومحراب کے گرد شکنجہ کس نے لئے استعمال کیا جائیگا۔ عمران خان کے  سیکیولر ساتھیوں کا خیال ہے کہ ملاوں کے خلاف کاروائی کا یہ سنہری وقت ہے۔ بھارت  اور امریکہ  مذہبی قوتوں کے خلاف کاروائی کیلئے دباو ڈال رہے ہیں، عدلیہ  پشت پر ہے،   فوج بھی اسوقت روشن خیالوں کےاثر میں ہے اور جب لوہا گرم ہو وہی  ضرب لگانے کا وقت ہے۔



No comments:

Post a Comment