گلی گلی میں شور ہے، پردھان منتری چور ہے
مودی جی نے لیلٰے
ِاقتدار سے لذت وصال کیلئے پلوامہ میں اپنے نوجوان سپاہیوں اور بالاکوٹ میں صنوبر کے
سرسبزو شاداب درختوں کا خون کیا۔ اس چڑیل کی گزر اوقات ہوتی ہی خون پر ہے۔ چاہے انسانی خون ہو یا قومی امنگوں، غریبوں
کے ارمان، قومی مفاد اورضمیر کا خون۔ لیکن نریندرا مودی اس اعتبار سے بڑے بدنصیب ہیں کہ اقتدار کی دیوی 50 کڑیل جوانوں کا لہو
پیکر بھی ان سے راضی نہ ہوئی۔
ہندوستانی وزیراعظم کی اسکیم تو بڑی عمدہ تھی۔ اگر
بالاکوٹ کی شہری آبادی انکے بمباروں کا
نشانہ بن جاتی تومودی جی آج ہندوستان کے
مرد آہن ہوتے لیکن بدحواس ہندوستانی پائلٹ ٹھیک سے بم بھی نہ پھینک سکے اور اسکے
دوسرے دن پاکستانی شاہینوں نے مودی جی کے ارمانوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب
قسمت خراب ہو توکتا اونٹ پر بیٹھے آدمی کو بھی کاٹ لیتا ہے۔ بے چارے اپنی ناکامی
کا ماتم کرتے ہوئے بول گئے کہ اگر بھارت کے پاس رافیل (RAFALE)طیارےہوتے تو
صورتحال مختلف ہوتی۔
یہ کہہ کر بھارتی وزیراعظم نے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالدیا
بلکہ انکے ایک قریبی مشیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں کا بتایا کہ
انتخابی مہم کے دنوں میں رافیل کے ذکر
کرکے مودی جی نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑا مار لیا ہے۔ پلوامہ
حملے کے بعد سے کونوں کھدروں میں دبکے انکے مخالف وہی نعرے لگاتے ہوئے میدان میں اگئے
جس کوہم نے اپنی اس پوسٹ کا عنوان بنایا ہے۔ اس موقع پر رافیل اسکینڈل کے پس منظر پر چند سطور احباب کی دلچسپی کیلئے:
2012میں
ہندوستان نے فرانسیسی کمپنئ ڈسالٹ ایوی ایشن (Dassault
Aviation) سے
رافیل (RAFALE)جنگی
طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اسوقت ہندوستان پر کانگریس کے متحدہ ترقی پسند اتحاد
یا UPAکی
حکومت تھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم تھے۔126طیاروں کے اس معاہدے کے تحت 18
کی تعمیر فرانس میں جبکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور لائسنس کے اجرا کے بعد باقی 108
طیارے بنگلور، ہندوستان میں بننے تھے۔ہندوستان میں طیارے کی تیاری کا
کام سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹد (HAL) کو سونپا گیا اور ایک طیارے کی قیمت
52 ارب 26 کروڑ روپئے طئے پائی۔
2014 کی
انتخابی مہم کے دوران نریندرا مودی نے اس معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انکا کہنا تھا یہ سودا ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔ موجودہ وزیردفاع شریمتی
نرملاسیتا رامن اور ممتاز صنعتکار انیل امبانی تیر اندازی میں نریندر مودی کے شانہ
بشانہ تھے۔ حکومت سنبھالتے ہی نرریندرا مودی نے اپنی وزارت خزانہ کو یہ معاہدہ ختم
کردینے کا حکم دیا اور جب مارچ 2015میں مودی جی سرکاری دورے پر فرانس گئے تو انھوں
نے اس معاہدے کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ اسکے ساتھ ہی ڈسالٹ ایوی ایشن سے ایک نئے
معاہدے کیلئے مذاکرات کا آغاز ہوا۔
نئے معاہدے کے
تحت
36 طیاروں کی تعمیر فرانس میں جبکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی
اور لائسنس کے اجرا کے بعد باقی 90 طیارے ہندوستان میں بننے ہیں۔ نئے معاہدے میں قیمت
52 ارب 26 کروڑ سے بڑھا کر 166 ارب 60 کروڑ روپئے فی طیارہ طئے
کردی گئی اور ساتھ ہی ملک میں طیارے کی تیاری کا کام ہندوستان ایوی ایشن کے
بجائےانیل امبانی کی کمپنی
ریلائینس ڈیفینس لمیٹد
Reliance Defense(RDL)کو بخش دیا گیا۔نریندر مودی کے قریبی دو ست انیل امبانی اربوں کے نادہندہ ہیں اور چند ماہ پہلےانھوں نے دیوالیہ
ہونے کا اعلان کیا تھا۔دلچسپ بات کہRDL معاہدے سے محض پندرہ روز
قبل قائم ہوئی تھی اور اسے اسلحہ سازی کا کوئی تجربہ نہیں ہے جبکہ ایچ اے ایل کو
پچاس برسوں کا تجربہ حاصل ہے۔ نئے معاہدے کے تحت ہندوستان کو رافیل طیاروں کی پہلی
کھیپ اس سال ستمبر میں ملے گی۔
حسب توقع
نئے معاہدے کے خلاف حزب اختلاف نے آسمان سر پر اٹھالیا اور نریندر مودی پر رشوت
خوری کا الزام لگا۔حکومت کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت ان طیاروں پر فضا سے
فضا میں اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کا نظام بھی نصب ہوگا جو
اسرائیل سے حاصل کیا جارہا ہے۔ اسکے علاوہ فرانسیسی کمپنی نے سودے سے حاصل ہونے
والے منافع کے 50 فیصد حصے کو ہندوستان
میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کرنے کا
وعدہ کیا ہے۔اسی بنا پر قیمت 'کچھ زیادہ' ہے۔مودی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے ہندوستان
میں طیارہ سازی کیلئے HAL اور RDLکا نام ڈسالٹ ایوی ایشن کو پیش کیا تھاجس نے چھان بین کے
بعد انیل امبانی کی RDLکا انتخاب کیا۔وزیردفاع شریمتی نرمالاسیتارامن نے اس معاہدے پر 'غیر ضروری'
بحث کو ملکی سلامتی کیلئے خطرناک قراردیا انکا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے
جس پر کھلے عام بحث سے دشمن فائدہ اٹھاسکتا ہے۔راہول گاندھی کی ناتجربہ کاری پر
طنز کرتے ہوئے وزیرخزانہ وزیرخزانہ
ارون جیٹلی
(Arun Jaitley)نے کہا کہ راہول جی کو چاہئے کہ وہ اپنی جماعت کے رہنما
اور سابق وزیرخزانہ پرناب مکھرجی سے ملکی دفاع سے متعلق مالی معاملات پر گفتگو کے
آداب سیکھیں۔
بی جے پی کے جارحانہ انداز نے مخالفین کے منہہ بند کردئے
لیکن گزشتہ سال فرانس کے سابق
صدر اولاندے نے ایک فرانسیسی صحافی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ سودے کے وقت انیل
امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کا نام بھارتی حکومت نے پیش کیا تھا اور فرانسیسی
حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔اس انکشاف پر کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے مشترکہ
پارلیمانی کمیٹی سے اس سودے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پارلیمان میں مودی چور کے
نعرے لگے۔ لوک سبھا میں ہنگامے کے دوران وزیرخزانہ ارون جیٹلی غصے میں کہہ اٹھے کہ چائے
کی پیالی کا یہ طوفان راہول گاندھی اور صدر اولاندے کی ملی بھگت ہے۔ جس پر فرانس
کی طرف سے شدید ردعمل دسامنے آیا اور انکے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ان غیر ذمہ
دارانہ بیانات سے فرانس اور بھارت کے باہمی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
وزیراعظم
مودی نے ایک بار پھر ملکی دفاع کا کارڈ بہت خوبصورتی سے استعمال کیا۔انھوں نے کہا
کہ گزشتہ حکومتوں نے فضائیہ کی ضرورتوں کا ادراک نہیں کیا اور بھارتی فضائیہ کے
زیراستعمال طیاروں کا بیڑا ناقابل حد تک
پرانا ہوچکا ہے۔ ایک طرف ہمارا
ہمارا دشمن F-16کے بعد جدید ترین J-17تھنڈر طیارے اپنے
بیڑے میں شامل کرچکا ہے یہاں شفافیت کے
نام نہاد ٹھیکیدار ہماری فضائیہ کیلئے نئے طیاروں کی خریداری میں رکاوٹ ڈل رہے ہیں۔
حب الوطنی کے اس طوفان میں راہول گاندھی
کیلئے خاموش رہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اب
مودی جی نے خود ہی یہ معاملہ اس موقع پر اٹھایا ہے جب بالاکوٹ حملے کے بارے میں
کامیابی کے بلندوبانگ دعوے کو الجزیرہ اور رائٹرز کی رپورٹ نے ہوا میں اڑادیا ہے
اور او آئی سی میں سفارتی ہزیمت کی بنا پر مودی جی دباو میں ہیں۔ وزیراعظم کے بیان پر اپنے ایک
انتہائی تیکھے ٹویٹر پیغام میں میں راہول گاندھی نے کہا کہ
'پیارے
وزیراعظم آپ نے ملک کے تیس ہزار کروڑ روپے چوری کئے اور اپنے دوست انیل کو دے دیے
۔وزیراعظم مودی! آپ ہی کی وجہ سے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی طرح بھارتی فضائیہ کے بہادرپائلٹ
پرانے جیٹ طیارے چلا کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ مودی جی!رافیل طیاروں
کی آمد میں تاخیرکے ذمے دارآپ ہیں۔اب آپ کو یہ کہتے ہوئے شرم تک نہیں آئی' کانگریس دور کے معاہدے کے تحت طیاروں کی
پہلی کھیپ 2016 میں ملنی تھی جبکہ اب وصولی کی
اس سال ستمبر میں ہوگی۔
راہول کا یہ ٹویٹ
لعنت ملامت کی بارش کا پہلا قطرہ
ثابت ہوا۔پلوامہ حملے کے بعد حکومت اور
نریندرا مودی پراشاروں کنایوں میں تنقید بھی پر غدرای سمجھی جارہی تھی لیکن اب ایک
بار پھر گلی گلی میں شور ہے پردھان منتری چور ہے، راشی مودی جھوٹا مودی، انیل کو ہٹاو
رافیل لاو کے نعرے گونج رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment