دو قیدی ۔۔ دو مختلف سلوک
سپریم کورٹ نے علاج کی غرض سے سابق وزیراعظم میاں نوز شریف کو 6 ہفتے کیلئے ضمانت پر رہا کردیا۔ میاں
صاحب یقیناً پاکستا ن کی جیلوں میں بند
واحد قیدی نہیں جنھیں بیماری لاحق ہو۔ کچھ
عرصہ پہلے ایک 73 سالہ بزرگ قیدی جو ذیابطیس کا مریض تھا حافظ آباد کی جیل میں
ایڑیاں رگڑ رمر کر چکا ہے۔ ان دونوں افراد کا تقابلی جائزہ:
میاں نواز شریف:
·
قید کی نوعیت: طویل آزادانہ و شفاف سماعت اور وضاحت و صفائی کی
مکمل آزادی کے بعد قومی دولت کی چوری ثابت
·
علاج کی سہولت: جیل
میں دل اور گردے کے ماہرین تعینات۔ حکومت کی جانب سے اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج
کی پیشکش۔ ضروری دواں کا ذخیرہ۔ جیل میں 5
اسٹار ہوٹل کی سہولیات۔ اہل خانہ اور
سیاسی اتحادیوں سے ملاقات کی آزادی
·
عدلیہ کا کردار:
علاج کیلئے ضمانت پر دوبار رہائی
شیخ الحدیث حافظ یوسف سلطانی
·
قید کی نوعیت: فردِ جرم
تک جاری نہیں ہوئی۔ کسی مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش نہیں کیا گیا۔ قلعہ ختم نبوت کی چوکیداری
اصل جرم
·
علاج کی سہولت: علامہ
صاحب ذیابطیس کے مریض تھے اور انھیں خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھنے کیلئے
Insulin
انجیکشن کی ضرورت تھی لیکن جیل میں Insulin تو کجا عام دوائیں بھی نہیں دی گئیں اور جب یہ بزرگ تڑپ تڑپ
کر بے حال ہوگئے تو انھیں حافظ آباد کے ضلعی ہسپتال میں داخل کردیا گیاجہاں
علامہ صاحب چل بسے۔ یہ غالباً گزشتہ برس دسمبر کی بات ہے
·
عدلیہ کاکردار : دہشت
گردی کے مقدمات ناقابل ضمانت اور ملاوں کا
مقام جیل کی سلاخیں ہیں۔
·
نوٹ: ۔حافظ سلطانی کی طرح
پنجاب کی جیلوں میں بند سینکڑوں علما اسی وحشیانہ تشدد کا شکار ہیں۔
No comments:
Post a Comment