کٹھ پتلیوں کی ڈور تنگ
طالبان
اور امریکہ کے درمیان مذاکرات پر کابل
انتظامیہ کے منفی بیانات کا امریکی حکومت نے سختی سے نوٹس لینا شروع کردیا ہے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کے مشیر سلامتی جناب حمداللہ محب صاحب اجکل امریکہ میں ہیں اور یہاں مختلف
مراکزدانش میں اپنی 'ماہرانہ' رائے کا اظہار فرمارہے ہیں۔ کل انھوں نے اپنی ایک تقریر
میں امریکہ کے طالبان سے براہ راست
مذاکرات کو ہتھیار ڈالنے کی ایک شکل قراردیا۔ انھوں نے 'انکشاف' کیا کہ قطر میں
زلمے خلیل زاد سے طالبان کا رویہ تحقیر آمیز ہے اور یہ ملا امریکی سفارت کاروں کو
دیرتک انتظار کراتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ افغانستان کی 'منتخب'
حکومت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔
آج
محب صاحب کو واشنگٹن کے دفتر خارجہ میں طلب کرکے امریکہ کے انڈر
سکریٹری برائے سیاسی امور جناب ڈیوڈ ہیل
نے انھیں بتایا کہ افغان حکومت کے منفی
بیانات سے امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو امریکہ کیلئے قابل قبول نہیں۔ طالبان
اور زلمے خلیل زاد کے درمیان گفتگو باوقار اور پیشہ ورانہ سفارتی اقدار کے ساتھ
جاری ہے جسکی کامیابی سے علاقے کے استحکام وابستہ ہے اور صدر ٹرمپ سمیت ساری دنیا ان مذاکرات کی کامیابی کی
خوہشمند ہے۔ ملاقات کے دوران ڈیوڈ ہیل نے جناب محب صاحب کو یاد دلایا کہ کہ گزشتہ
17 سال سے امریکہ افغانستان کی ہر میدان میں بھرپور مدد کررہا ہے یعنی پالنے والی
مالکن پر غراتی بلی کیلئے پشتو میں بہت برالفظ ہے (حضرت مشتاق یوسفی تخلیق کردہ استعارہ)
No comments:
Post a Comment