Thursday, March 21, 2019

الجزائر ۔۔ تبدیلی کی لہر


الجزائر ۔۔ تبدیلی کی لہر
الجزائر ی حکومت کے خلاف کئی ہفتوں  سےجاری مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو  سارے ملک میں  لاکھوں افراد نے قبر میں پیر لٹکائے لیکن  اقتدار سے چمٹے صدر عبد العزيز بوتفليقہ  کے خلاف مظاہرہ کیا۔ زمینی حقائق اور موجودہ حالات کے تجزئے سے پہلے شمالی افریقہ کے اس خوشحال ترین ملک کا ایک مختصر سا تعارف کہ الجزائر ی تاریخ پروقار و ایمان افرووز جدوجہد کا استعارہ اور تیل سے مالا مال  یہ ملک لاکھوں اخوانیوں کے لہو سے  منور و معطر ہے۔
سوا چار کرورڑ آباد والے اس ملک میں  تیل کی پیداوار بیس لاکھ بیرل یو میہ ہے جبکہ دس ارب مکعب فٹ گیس بھی روزانہ نکالی جاتی ہے۔ الجزائر کے بارے میں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ پاکستانی انجنیئرز اور ماھرینِ ارضیات نے الجزائر کی تیل و گیس کی صنعت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیاہے۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دھائی کےآ غاز پر جناب ذوالفقارعلی بھٹو نےپاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کے کام کو  منظم و مربوط کرنے کیلئے او جی ڈی سی کی بنیاد ڈالی۔ موصوف اسوقت پاکستان کے وزیرِ صنعت تھے۔ اسی دوران الجزائر  نےغیر ملکی تسلط سے نجات حاصل کی لیکن آزادی سے قبل فرانسیسیوں نے تیل کےاکثر میدانوں کو فرانسیسی اور امریکی اداروں کے ہاتھوں اونے پونے بیچ دیا جبکہ قابض فوج  باقی اثاثے جاتے جاتے تباہ کرگئ۔ الجزائر کی نوزائیدہ حکومت نے پاکستان سے مدد کی درخواست کی کہ اسوقت مسلمان ملکوں میں صرف پاکستان ہی قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی کا علم رکھتا تھا۔بھٹو صاحب نے الجزائری قیادت کی بھر پو ر مدد کی اور او جی ڈی سی کے انداز میں سوناطراک (Sonatrach) کے نام سے وہاں تیل و گیس کے ایک قومی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ بڑی تعداد میں پاکستانی ماھرین الجزائر بھیجے گئے بلکہ ایک عرصے تک سوناطراک کا انتظام و انصرام پاکستانیوں ہی کے پاس رہا۔
الجزائر کے لوگوں نے اپنی آزادی کی ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ فرانسیسوں نے 1830میں یہاں  قبضہ کیا لیکن انھیں ایک دن بھی آرام سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا اور نیشنل لبریشن فرنٹ کے بینر تلے الجزائری حریت پسندوں نے بے مثال شجاعت کی تاریخ رقم کی۔ برطانیہ اور اسپین نے حریت پسندوں کے خلاف فرانس کی بھرپور مدد کی، سارے یورپ سے سنگین جرائم میں ملوث ھزاروں  افراد اور پیشہ ور قاتل یہاں لاکر بسائے گئے جنھوں نے ظلم و تشدد کے نت نئے طریقے ایجاد کئے لیکن حریت پسندوں نے مستقل مزاجی سے اپنی تحریک جاری رکھی اور 1962میں فرانسیسیوں کو بوریا بستر لپیٹنا پڑا۔ آزادی کے بعد نیشنل لبریشن فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی اور ملک میں 1978تک ایک جماعتی نظام برقرار رہا۔ حواری بومدین کے انتقال پر شاذلی بن جدید بر سرِ اقتدار آئے، انھوں نے آئین میں ترمیم کرکے کثیر الجماعتی نظام قائم کردیا اور 1988 میں جماعت سازی پر پابندی اٹھتے ہی مشہور حریت پسند رہنما ڈاکٹر عباسی مدنی نے دوسرے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ملکر اسلامک سالویشن فرنٹ یا FISکی بنیاد رکھی۔ نفسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والےعباسی مدنی ایک سنجیدہ، بردبار اور اعتدال پسند سیاسی رہنما ہیں۔ آزادی کی جنگ میں یہ احمد بن بیلہ، حواری بومدین اور دوسرے حریت پسندرہنماوں کے شانہ بشانہ تھے ۔ مدنی صاحب ایک طویل عرصے تک فرانسیسیوں کی قید میں بھی رہے۔
 دنیا بھر کی  تحریک اسلامی کی طرح FIS نے بھی خدمتِ  خلق  کے میدان سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز گیا اور سارے ملک میں اسکولوں، سستی روٹی کے تندور اور شفاخانوں کا جال بچھا دیا۔ جسکی وجہ سے اسے غریب لوگوں میں بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ 12 جون 1990 کو ہونے وا لے  پہلے بلدیاتی  انتخابات میں FISنے 54 فیصد ووٹ لے کر تمام کی تمام بلدیات میں حکومت بنالی۔ بلدیاتی  اقتدار کو FISنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بہت ہی حکمت و تدبر سے استعمال کیا اور اسکی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔بلدیاتی انتخابات کے فوراً ہی بعد عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ رائے عامہ کے تمام جائزوں سے FIS کی کامیابی یقینی نظر آرہی تھی جس سے حکمراں طبقے کو سخت پریشانی ہوئی۔چنانچہ امرا نے اپنے خزانوں کے منہہ کھول دئے۔ سیکیولر عناصر، فوج ، کمیونسٹ اور تمام دین بیزاروں نےFIS کے خلاف متحدہ محاذ بنالیا حتیٰ کہ اہل جبہ و دستار اور صوفی ومشائخ بھی FIS مخالف سوشلسٹ  اتحاد میں شامل ہوگئے۔
شدید نظریاتی تناو کے باوجود چھ مہینوں پر محیط انتخابی مہم  انتہائی پر امن رہی اور ملک میں کسی ایک جگہ بھی کوئی ناخوشگوار واقٰع پیش نہ آیا۔ دسمبر1991 میں پارلیمنٹ کی430 نشستوں پر انتخابات ہوئے جس میں پچاس سے زیادہ جماعتوں  نے حصہ لیا۔ پہلے مرحلے میں231 نشستوں کا فیصلہ ہوا اور اسلامک فرنٹ نے سینتالیس فیصد سے زیادہ ووٹ لیکر 188نشستیں جیت لیں اسکی قریبی حریف سوشلسٹ فرنٹ کو 25  سیٹوں پر کامیابی نصیب ہوئی جبکہ صرف15 نشستیں حکمراں نیشنل لبریشن فرنٹ کے حصے میں آئیں ۔ باقی 199 نشستوں میں سے ایک سو ساٹھ پر اسلامک فرنٹ کو برتری حاصل تھی لیکن کل ووٹوں کا پچاس فیصد نہ ملنے کی بنا پر ان نشستوں پر دوسرے مرحلےکے Run-Off انتخابات ہونے تھے۔ سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ دوسرے مرحلے کا انتخاب مکمل ہونے پر اسلامک فرنٹ کو 430کے ایوان میں 350نشستیں حا صل ہونگی۔
سالویشن فرنٹ کی اس بے مثال کامیابی پر سارے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ دیہاتوں میں لوگوں نے گھر کی منڈیروں پر  زیتون کے چراغ روشن کئے لیکن یہ جشن دوسری ہی صبح شامِ غریباں میں تبدیل ہوگیا جب فوج نے  اقتدار پر قبضہ کرکے انتخابات کو کالعدم کردیا۔ مذہبی بنیادوں پر بنائی جانیوالی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی اور اسلام پسندوں کے خلاف بھر پور کاروائی کا آغاز ہوا۔ فوجی آپریشن کے آغاز پر ہی عباسی مدنی نے واضح اعلان کیا کہ اسلامک فرنٹ ایک جمہوری جماعت ہے اور بیلٹ ہی ہمارا ہتھیار ہے لیکن الجزائری فوج اس یقین دہانی پر مطمعن نہ ہوئی اور اسلامک فرنٹ کی قیادت کو گرفتار کرکے اسکے کارکنوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق اسلامک فرنٹ کے دولاکھ سے زیادہ کارکن  فوج کے ہاتھوں مارے گئے ۔کہا جاتا ہے کہ فوج نے اپنی کاروائی کا جواز پیدا کرنے کیلئے جعلی معرکوں کا اہتمام کیاجسکے بعد اخوانیوں پر الجزائز کی زمین تنگ اور انکے خون سے سرخ کردی گئی۔
دنیا میں جمہوریت کے سار ے علمبرداروں نے عوام امنگوں اور مینڈیٹ پر ڈالے جانیوالے ڈاکے کی بھرپور حمائت کی۔ یورپی یونین کا کہنا تھا کہ الجزائری فوج نے بروقت کاروائی کرکے  اپنے ملک کو گڑھے میں  گرنے سے بچالیا ہے۔ اسی پر جناب انو رمسعود نےکہا تھا
ہمیں جمہوریت اچھی لگے ہے ۔۔۔ اگر یہ الجزائر میں نہ ہووے
 خون کی یہ ہولی آٹھ سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔1995سے انتخابات کا سلسہ دوبارہ  شروع ہوا اور ہر بار فوج کی حمائت سے نیشنل لبریشن فرنٹ کے امیدوار ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔ موجودہ صدر عبد العزيز بوتفليقہ 1999میں منتخب ہوئے اور اسکے بعد 2004میں پچاسی فیصد ووٹ لیکر وہ دوسری مدت کیلئے دوبارہ صدر چن لئے گئے۔ الجزائری دستور کے تحت کوئی بھی شخص دو مدت سے زیادہ صدارت کے منصب پر نہیں رہ سکتا لیکن تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں ی طرح الجزائر میں بھی ملکی آئین آمروں کے گھرکی لونڈی ہے چنانچہ دستور میں ترمیم کردی گئی۔  وہ فروری 2009 کو تیسری مدت کیلئے صدر منتخب ہوئے اور اپریل 2014کے انتخابات میں 81 فیصد ووٹوں کے ساتھ موصوف نے چوتھی مدت جیت لی۔
عوام  جہاں 82 سالہ عبدالعزیز کی کرپشن اور ظلم و تشدد سے بے حد پریشان وہیں چند برسوں سے وہ خود بھی عملاً مفلوج ہیں۔ انکی بیماری کا سلسلہ  آٹھ سال سے جاری ہے اور وہ اپنا اکثر وقت جنیوا کے ہسپتالوں میں گزارتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مال مال ملک  کے یہ مطلق العنان حکمران 20 سال کے دوران ایک بھی ایسا ہسپتال نہ بنا سکے جس میں وہ اپنا علاج کراسکیں۔انکے خلاف عوامی تحریک کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ الجزائر کے صدر  کو اسکا اندازہ بھی  نہیں کہ  دوہفتہ پہلے تک وہ سوئٹزرلینڈ میں اپنا علاج کرارہے تھے،۔ سنتے ہیں پاکستان پر بھی کبھی ایسا وقت آیا تھا کہ گورنر جنرل  غلام محمد  فالج کے باوجود حکمرانی فرمارہے تھے  ۔
گزشتہ ہفتے جب  صدر صاحب  علاج کراکر سوئٹزرلینڈ سے واپس آئے تو ایک ترجمان کے ذریعے انتہائی علیل  عبد العزيز بوتفليہ  نے آئندہ انتخاب نہ لڑنے کا اعلان  کردیا۔عوام نے پیر تسمہ پا سے جان چھوٹنے پر زبردست جشن منایا لیکن یہ خوشی  دو دن  بعد اسوقت کافور ہوگئی جب الیکشن کمیشن نے انتخابات ہی ملتوی کردئے۔ صدر صاحب کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے مستقبل کے بندوبست پر قومی مفاہمت ضروری ہے۔ صدر کی تقریر سنتے ہی سارا الجزائر ایک بار پھر سڑکوں پر آگیا اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ کئی شہروں میں اسکارف پوش خواتین نے جلوس نکالے اور ارحل یا عبدالعزیز (ائے عبدالعزیز ہماری جان چھوڑدیجئے) کا نعرہ زباں زدِ عام ہوگیا۔ فوج بظاہر غیر جانبدار  لگ رہی ہے تاہم  15 مارچ کو صدر کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ  فوج، عدلیہ اور سیکیولر و لبرل طبقے کواپنی آنکھ کھول لینی چاہئے کہ  حالات 1990 کی طرف واپس جاتے نظر آرہے ہیں۔ گویا صدر عبدالعزیز نے  خطرے کی گھنٹی بجادی ۔
دوسری طرف مقتدرہ نے قلع بندی شروع کردی ہے  اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ صدر عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ نئی حکومت میں ایک تہائی خواتین ہونگی لیکن اس لالی پاپ کے خلاف اتوار کو لاکھوں خواتین نے زبردست مظاہرہ کیا۔ خواتین کا کہنا تھا عورت ہو یا مرد ہمیں منتخب قیادت چاہئے۔ ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے لئے اب نورالدین بدوی کو وزیراعظم نامزد کیا گیا ہے جنھوں نے دوسال پہلے بدعنوانی کے الزام میں برطرف کئے جانیوالے وزیرخارجہ  رمطان لعمامرہ کو نائب وزیراعظم مقرر کردیا۔ مزے کی بات کہ وزارت خارجہ کا قلمدان بھی دوبارہ  رمطان صاحب ہی کو تھما دیا گیا ہے۔ نئے وزیراعظم کو اپنی کابینہ بنانے میں سخت مشکل درپیش ہے کہ عوامی دباو کی وجہ سے اچھی شہرت کے لوگ کٹھ پتلی حکومت کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ مشہور طبیب اور سرکاری ڈاکٹروں کی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر الیاس مربت  نے وزیر صحت بننے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ الجزائر کے لوگ عبدالعزیز کی آمریت سے نجات اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں جبکہ ٹیکنوکریٹس حکومت کے نام پر انتخابات کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اساتذہ کی وفاقی انجمن کے صدر میزان مروان نے بھی وزارت کی دعوت یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ جس حکومت کو عوام نے مسترد کردیا اسکا حصہ بن کر میں لاکھوں اساتذہ کو بے وقار نہیں کرونگا۔
اب یہ خبر گرم ہے کہ مشہور سفارتکار لخدربراہیمی ملک کے مختلف سیاسی گروہوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کرینگے۔ لخدر براہیمی صاحب عراق اور افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رہ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ذمہ دارٰیاں محض علامتی تھیں کہ معاملہ امریکہ سے تھا اور بیچارے لخدر براہیمی کی مجال کہ وہ چچا سام کے کسی قدم، موقف حتیٰ کہ عندئے پر بھی تنقید یا ناراضگی کا اظہارکرسکیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ الجزائر کے بانیوں یعنی 1954 سے 1962 تک جاری رہنے والی جنگ آزادی میں شریک زعما سے مشاورت کررہے ہیں جنکی اکثریت پیرانہ سالی سبب معذور اور بستر سے لگی بیٹھی ہے۔ 1991میں عوامی مینڈیٹ چرانے والوں میں لخدر صاحب بنفس نفیس شامل تھے اور FISکو کچلنے کے بعد جو نئی حکومت قائم ہوئی اسکے یہ وزیرخارجہ تھے۔ چند سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے فرمایا کہ '1991میں جب FISکی کامیابی نوشتہ دیوار نظر آرہی تھی تو انتخاب کروانے کی ضرورت ہی کیا تھی' ذہنی افلاس کا شکاراور اخلاقی طور سے  دیوالیہ شخص کو کون ثالث تسلیم کریگا۔
 ایک منظم اور سیکیولر اقدار کی بالادستی کیلئے پرعزم فوج کی موجودگی میں کسی بڑی تبدیلی کو کوئی امید نظر نہیں آتی لیکن نوجوانوں کا خیال ہے پرامن مظاہروں سے قلعہ آمریت میں گہرا شگاف پڑچکا ہے۔ عوامی ہیداری  تبدیلی کی برسات  کا پہلا قطرہ ہے اور موسلا دھار بارش سے اٹھنے والا سیلاب کرپٹ و بوسیدہ اقتدار کو آخرِ کار بہا لے جایئگا۔ دیکھنا ہے کہ سیکیولرازم کی پاسبان الجزائری فوج عوامی امنگوں کو کچلنے کیلئے اس بارکس حد تک جائیگی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 مارچ 2019

No comments:

Post a Comment