اسرائیل کے انتخابات ۔۔ کرپشن، ایران اور صدر ٹرمپ
اسرائیل میں عام انتخابات
9اپریل کو ہونگے جب کنیسہ (Knesset)یا پارلیمنٹ
کے جملہ 120ارکان چنے جائینگے۔ یہ چناو 5
نومبر کو ہونے تھے لیکن وزیراعظم بنجامن
نیتھن یاہو المعروف بی بی نے
پارلیمان تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات
کا اعلان کردیا۔ گزشتہ انتخابات میں بی بی کی لیکڈ قومی لبرل
تحریک 30 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر تھی اور اس نے 5 مذہبی، قوم پرست اور فرقہ ورانہ جماعتوں کے
ساتھ مل کر 67 نشستیں اکھٹی کیں اور حکومت
بنالی۔ موصوف 2009 سے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ بی بی
جی دنیا کے دوسرے مسلم مخالفین کی
طرح سیکیولر و لبرل ہیں۔ آزاد معیشت انکا نعرہ ہے
جو درحقیقت بے رحم سرمایہ دارانہ
نظام پر ایک ملائم نقاب ہے۔ یعنی سرمایہ
کاروں و سرمایہ داروں پر کوئی پابندی نہیں، نہ کم سے کم اجرت نہ مزدوروں سے زیادہ کام کرانے پر کوئی قدغن۔ ماحول
و صحت سے متعلق قوانین بھی نہ ہونے کے
برابر۔ یہی وجہ ہے کہ GDPاور دوسرے اقتصادی اشاریوں کے اعتبار سے تو
معیشت کا رخ آسمان کی طرف ہے لیکن بقول
سراج الحق غریبوں کو وہ بھی میسر نہیں جو
امیر اپنے کتوں کے آگے ڈالتے ہیں۔
بی بی جی
معیشت اور معاشرت کے اعتبار سے بہت آزاد خیال ہیں لیکن فلسطینیوں کے معاملے میں انکا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے
اسی لئے انھوں نے ان جماعتوں کو شریک اقتدار کیا ہے جنکا خیال ہے کہ غزہ، بیت
المقدس اور شرق اردن میں آبادفلسطینیوں کو مصر، شام، لبنان اور اردن کی طرف دھکیل دینا چاہئے
آئندہ
انتخابات میں بی بی کو سخت مزاحمت کا
سامنا ہے۔ وزیراعظم اور انکی اہلیہ کے خلاف رشوت خوری اور چوری کے سنگین الزامات
ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اٹارنی جنرل نے وزیراعظم
کے خلاف فرد جرم شعبہ انصاف کو بھجوادی ہے۔ انکے مخالفین کو کہہ رہے ہیں کہ بی بی کو ووٹ دیکر وقت ضایع نہ
کرو کہ انکو باقی زندگی اب جیل میں گزارنی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے قبل ازوقت
انتخاب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انھیں عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل ہوگیا تو لیکڈ
پارٹی آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو مجرمانہ سرگرمیوں سمیت
تمام مقدمات سے مکمل استثنیٰ فراہم
کردیگی۔
اس بار
انکے دو بڑے مخالف یعنی اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل نیبی گینٹز (Benny Gantz)کی
بلند حوصلہ یا Hahosen
Leisrael Party اور ممتاز صحافی یار لیپڈ
(Yair
Lapid)کی مستقبل پارٹی) (Yesh
Atid Partyنے
سفید و نیلا اتحاد (Blue
and White)قائم کرلیا ہے۔ نیلا اور سفید اسرائیلی پرچم کا رنگ ہے۔ جیسے پاکستان میں سبز ہلالی سے مراد ہمارا قومی پرچم ہے ایسے ہی اسرائیلی پرچم کو سفید و نیلا کہتے ہیں۔ اسرائیلی عربوں کی تنظیم الحرکۃ العربیہ للتغیر اور القائمۃ
المشترکہ نے بھی عندیہ دیا ہے کہ ضرورت پڑی تو وہ حکومت سازی
کیلئے سفید و نیلے اتحاد کا ساتھ دینگے۔ خیال
ہے کہ ان دو جماعتوں کی مجموعی نشستیں 12 کے قریب ہونگی جو 120
کے ایوا ن میں ایک موثر پارلیمانی قوت بن سکتی ہے۔
رائے
عامہ کے جائزوں میں کہا جارہا ہے کہ سفید و نیلے اتحاد کو 36 اور وزیراعظم کی لیکڈ
پارٹی کو 30 نشستیں ملنے کی توقع ہے اس
صورت میں جنرل بینی گینٹز مسلمانوں ، لیبر پارٹی اور دوسری جماعتوں کے
ساتھ مل کر حکومت بنالینگے اور نئی حکومت بی بی کے خلاف تحقیقات کا شکنجہ سخت کرکے انکے
سیاسی مستقبل کو تاریک کرسکتی ہے۔
بی
بی صدر ٹرمپ
اور دامادِ اول جیرردکشنر کے قریبی
دوست ہی۔ امریکی صدر انتخابات میں غیر جانبداری اور عدم
مداخلت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نیتھن یاہو کی حمائت کررہے ہیں ۔ اسرائیل میں ایران کے جوہری
پروگرام اور دورمار ایرانی میزائیلوں کے
بارے خوف پایا جاتا ہے۔ اس فوبیا کو بی بی
ا ور صدر ٹرمپ نے خوب ہوادی ہے۔ اسرائیلیوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے اپنی ہر
تقریر میں بی بی ایرانی جوہری پروگرام کو
اسرائیل کیلئے سخت خطرہ قرار دیتے
ہیں اور صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ اگر دنیا
نے اس ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا تو اسرائیل
خود کاروائی کریگا۔ نیتھن یاہو کی مہم کا نتیجہ ہے کہ دائیں، بائیں،
سیکیولر و مذہبی تقسیم سے بالا تر ہوکر
ساری اسرائیلی قوم ایران کے جوہری پروگرام
کے بارے میں شدید جذبات رکھتی ہے۔
کل امریکی
وزیرخارجہ مائک پومپیو اسرائیل تشریف لائے اور کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام پر
امریکہ اورنیتھن یاہو کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، انھوں نے کہا کہ
گزشتہ ماہ پولینڈ میں امریکہ اور اسرائیل
کے اتحادیوں کی چوٹی کانفرنس بی بی کی
بصیرت کا نتیجہ تھی جب دنیا کی تمام جمہوریتیں ایران کی جارحیت کے آگے بند باندھنے کیلئے مشترکہ لائحہِ عمل پر متفق ہوگئیں۔
اس 'مبارک ' اتفاق پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے پومپیو نے اسے بی بی
کے تدبر کا کمال قراردیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ بی بی کی قیادت میں شام سمیت مشرق وسطیٰ سے ایران کی مداخلت کا خاتمہ کردیا جائیگا۔
مائک
پومپیو کی پوری گفتگو بی بی کی انتخابی مہم کی تقریر لگی۔ اگلے ہفتے صدر
ٹرمپ کی خصوصی دعوت پر بی بی
واشنگٹن تشریف لارہے ہیں جہاں دونوں رہنما ایران کے خلاف مشترکہ اقدامات
پرغور کرینگے۔ ایرانی تیل کی خریداری پر امریکہ نے جوپابندی
لگا رکھی ہے اس سے چین، ہندوستان، ترکی ، جنوبی کوریا اور جاپان کو محدود مدت
کیلئے استثنیٰ دیا گیا تھا۔ استثنیٰ کی مدت مئی میں ختم ہورہی ہےَ۔واشنگٹن کی
ملاقات میں ایران کے خلاف معاشی پابندیاں سخت کرنے پر بات ہوگی۔
اسرائیلی حزب اختلاف کا خیال ہے نیتھن یاہو اپنے امریکی دوستوں سے مل کر کہ
انتخابات سے صرف تین ہفتہ پہلے ایک ایسے مسئلے پر ڈھول پیٹ رہے ہیں جو اسرائیلیوں کے لئےبے حد حساس ہے ۔ اس مرحلے
پرامریکہ کی جانب سے ایسا تاثر کہ گویا بی بی ہی اسرائیل کو لاحق خطرے کا
سدباب کرسکتے ہیں انتخابی عمل پر اثرانداز
ہونے اور رائے عامہ کو لیکڈ پارٹی کے حق ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔
صدر ٹرمپ
اپنے دوست کی مدد کرنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں
کہ ایران کے بارے میں بی بی
کے نفرت انگیز بیانئے کے کاٹ کیلئے
سفیدو نیلے اتحاد نے بھی اپنی توپوں کا رخ ایرا ن کی طرف کردیا ہے اور
وزیراعظم کی کرپشن پس پشت چلی گئی ے۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ
اگر نیتھن یاہو ایران کا ہوا کھڑاکرکے عوام کی توجہ کرپشن اور بدعنونی سے ہٹانےمیں کامیاب ہوگئے تو انتخابات میں انکی کامیابی یقینی ہے۔
گویا اسرائیل کے لوگ اپنی قیادت کا فیصلہ دیانت
داری کے بجائے ایران دشمنی پر کرینگے۔ واہ
نامراد سیاست
No comments:
Post a Comment