حد سے زیادہ تیزی اچھی نہیں
ہندوستان ہر سال امریکہ کو 50 ارب ڈالر کا سامان برآمد کرتا ہے جبکہ امریکہ سے اسکی درآمد کا حجم 30ارب ڈالر کے قریب ہے یعنی چچا سام 20 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان اٹھارہے ہیں
۔ بھارت وامریکہ کے درمیان درآمد وبرآمد کی خلیج ہرسال بھارت کے حق میں بڑھتی جارہی ہے۔امریکہ نے
ہندوستان سے ضروری اشیا کی درآمد آسان بنانے کیلئےدہلی کو ترجیحی سلوک یا Generalized System of Preferences (GSP) کی سہولت فراہم کی ہے جسکے تحت ہندوستان سے آنے والی 5 ارب
60کروڑ ڈالر کی درآمدات ہر قسم کے محصولات سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ سہولت ان اشیا پر دی
گئی ہے جو امریکہ میں نہیں بنتیں تاکہ
مقامی صارفین کویہ مصنوعات کم قیمت پر دستیاب ہوں۔ لیکن اس سہولت سے
ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان نے گٹر کے ڈھکن تک
امریکہ کو بیچنے شروع کردئے۔ ایک تصویر پیش خدمت ہے۔
اسی کے ساتھ ہندوستان نے بہت ہشیاری سے اپنے ملک میں امریکی درآمدات پر غیر
اعلانیہ قدغنیں عائد کردیں اورکسٹم کے بوسیدہ و پیچیدہ نظام کے سہارے امریکی
مصنوعات پر بھاری درآمدی محصولات عائد کرکے کمائی کا ایک نیا عنوان بھی تراش لیا ۔ گزشتہ چند سالوں سے دنیا
میں الیکٹرانک تجارت یا e-tradeکا غلبہ ہے اور امریکی برآمدات کا بڑا حصہ اب e-tradeپر مشتمل ہے۔ ان سودوں کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے ہوتی ہے۔
ہندوستان نے دنیا کی دونوں بڑی کریڈٹ کارڈ
کمپنیوں MastecardاورVisaکوقانوناً اس بات پر مجبور کیا کہ وہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کی مکمل
معلومات ہندوستانی حکومت کو فراہم کرینگے۔
جس کے بعد دہلی نے ایک طرف کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کرنے والے صارفین پر اضافی ٹیکس
جڑ دئے تو دوسری طرف کارڈ سے
ہونے والے ہر سودے یا Transactionپر فیس عائد کردی جسکی ادائیگی کارڈ کمپنیوں کے ذمہ ہے۔ اس دہرے ٹیکس کی زد امریکی کمپنیوں Amazonاور Walmartپر پڑی جنکی مصنوعات ڈالر کے اقبال اور بھارتی روپئے کے زوال کی بنا
پر پہلے ہی بہت زیادہ محسوس ہورہی تھیں۔ اب اس دہرے ٹیکس نے قیمتوں کو صارفین کی قوت خرید سے بھی اوپر کردیا۔
جب یہ شکائت صدر ٹرمپ تک پہنچی تو انھوں
نے ٹریڈ کمشنر کو بلاکر باہمی تجار ت کے
خسارے کو کم کرنے کیلئے ہندوستانی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرنے کی ہدائت دیدی۔ اسی کے
ساتھ انھوں نے آج کہا کہ وہ ہندوستانی
درآمدات پر GSPکی سہولت ختم کررہے ہیں یعنی ساڑھے پانچ ارب ڈالرکی ڈیوٹی فری درآمد کی عیاشی ختم ۔ اب بھارتی
برآمدات پر اتنا ہی ٹیکس عاید کیا جائیگا
جتنا ہندوستان امریکی مصنوعات پر وصول کرتا ہے۔ امریکہ فراخدل تو ہے لیکن ایسا ڈھکن
بھی نہیں کہ تم اسے گٹر کے ڈھکن بیچ دو۔
No comments:
Post a Comment