امریکہ میں تبدیلی آرہی ہے؟؟؟
امریکی سیاسی نظام پر تنقید کرنے والے اکثر کہتے ہیں کہ آمریت امریکی
جمہوریت سے بس 50فیصد ہی خراب ہے یعنی مطلق العنان نظام میں صرف ایک جماعت
ہوتی ہے جبکہ امریکہ میں دوجماعتیں ہیں۔ آئینی اعتبار سے یہاں جماعت سازی اور انتخاب لڑنے پر کوئی پابندی نہیں
، ہر امریکی شہری مختلف عہدوں کیلئے انتخاب لڑ سکتا ہے بس صدر کیلئے ضروری ہے کہ
وہ اپنی
پیدائش سے ہی امریکہ کاشہری ہو ۔
قیام کے اول روز سے یہاں عملاً دو
جماعتی نظام قائم ہے۔ ویسے تو گرین پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، سوشلسٹ پارٹی، لبریٹیرین
(Libertarian)پارٹی سمیت بہت سے آزاد امیدواروں کے نام بھی بیلٹ پر موجود
ہوتے ہیں
لیکن اب تک تیسری جماعت کو ایک بھی
انتخابی ووٹ نہیں مل سکا۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مطالعہ1968 تک محدودہے بہت
ممکن ہے کہ اس سے پہلے کوئی آزادامیدواریا
گروپ کوئی انتخابی ووٹ لینے میں کامیاب ہواہو۔ انتخابی ووٹ کا مطلب ہے کہ اس نے
امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے کم ازکم ایک
ریاست میں اکثریتی ووٹ حاصل کئے
ہوں۔
1980 کے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے رانلڈریگن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے والٹر مانڈیل کے مقابلے
میں جان اینڈرسن آزاد امیدوار کی حیثیت سے سامنے ائے اور انھیں پورے امریکہ
سے 57 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے جو کل ووٹوں
کے ساڑھے 6 فیصد تھا لیکن وہ کسی ایک بھی
ریاست میں واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے۔2020 کیلئے
مشہور زمانہ اسٹار بکس (Starbucks) کافی کے سابق سی ای او مسٹر ہاورڈ شلٹز نے آزاد امیدوار کی
حیثیت سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق اب صرف 10 فیصد امریکی دوجماعتی نظام سے مطمئن ہیں۔ NBCاور وال اسٹریٹ جرنل کے ایک حالیہ سروے میں تقریباً 38 فیصد ووٹروں نے کہا ہےکہ اس بار وہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے بجائے کسی تیسری پارٹی یا آزاد آمیدوار کو ووٹ دینے کےبارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔
جمہوریت کیلئے تو یہ اچھی خبر ہے کہ
اس سے ایک صحت مند مقابلہ جنم لے گا اور میدان سیاست و حکومت میں تنوع پیدا ہوگا لیکن خیال ہے کہ تبدیلی کی
اس لہر کا منبع نوجوان، آزادخیال، مزدور یونین اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لبرل
ووٹرہیں جو ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ یا کلیدی ووٹ بینک
ہے۔ امریکی ووٹروں میں تبدیلی کی اس پراسرار لہر سے ریپبلکن پارٹی کے قدامت
پسندبہت خوش ہیں ہے کہ اگر ایک تہائی لبرل ووٹروں نے گدھے کے بجائے تیسری جماعت یا آزاد امیدوار کے نام
پر ٹھپہ لگادیا تو پھر نہ صرف صد ٹرمپ کی اگلی مدت کیلئے کامیابی یقینی ہے بلکہ تبدیلی کی
یہ لہر کانگریس اور گورنروں کے انتخابات میں بھی ہاتھی کے غیر معمولی غلبے کا
سبب بن سکتی ہے۔ ابھی انتخابات میں 21 ماہ
باقی ہیں اسلئے یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ امریکی سیاست میں اس نئے رجحان سے کیا تبدیلی آسکتی ہے لیکن اگر واقعی امریکی عوام نے
صدیوں کی آزمائی ان دوجماعتوں کے علی الرغم 'اس بار دیانت دار' کا فیصلہ کرلیا تو نتیجے سے قطع نظر
2020کے انتخابات بہت دلچسپ ہونگے۔
No comments:
Post a Comment