Thursday, May 9, 2024

امریکی جامعات میں غربِ اردن کے مناظر آزمائش میں شدت، کامیابی کے اشارے

 

امریکی جامعات میں غربِ اردن کے مناظر

آزمائش میں شدت، کامیابی کے اشارے

سات ماہ کی مسلسل بمباری کے بعد بھی اب تک نہ دستِ قاتل میں  تھکن کے آثار ہیں اور نہ مستضعفین کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یعنی دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔غزہ  کیساتھ غربِ اردن میں بھی مشق ستم اپنے عروج پر اور فاقہ زدہ سوختہ جانوں کا معاشی قتل عام جاری ہے۔دھاوے،  چھاپے، گرفتاریوں اور غیر اعلانیہ کرفیو سے مقامی صنعت کو تالے لگ چکے ہیں۔اب  بیچارے فلسطینیوں کی گزر بسر زاعت اور مویشیوں پر ہے۔ یہی 'دولت' اب غنیم کا بنیادی ہدف ہے۔ گزشت ہفتے اسرائیل میں عبورِعظیم (Passover) کا تہوار منایا گیاجب شکرانے کے طور پر بھیڑ بکریوں کی قربانی دی جاتی ہے جسکے لئے عرب اردن سے ریوڑ کے ریوڑ ہتھیا لئے گئے۔

اس ہفتے کی افسوسناک خبر غزہ کے ممتاز ماہرِ تقویم الاعضا (Orthopedic Surgeon) کی المناک شہادت ہے۔پچاس سال ڈاکٹر عدنان البرش غزہ کے الشفا ہسپتال سے وابستہ تھے۔ انھیں دسمبر میں اسرائیلی فوج نے العودہ ہسپتال سے گرفتار کیا جہاں وہ ہنگامی جراحی کرنے آئے تھے۔گرفتاری کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اسرائیلی فوج نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جسکے نتیجے میں انھوں نے 19 اپریل کو دم توڑدیا۔ اسرائیلی محکمہ جیل نے انکی موت کا اعلان تین مئی کو کیا اورتامِ تحریر انکا جسدِ خاکی وارثین کے حوالے نہیں کیا گیا۔ سات اکتوبر کو غزہ خونریزی کے آغاز سے اب تک ڈاکٹروں سمیت غزہ کا 49 فیصٖد طبی عملہ مادرِ وطن پر قربان ہوچکا ہے، 1500 سے زیادہ ڈاکٹر اور نرسیں زخمی ہیں جبکہ عملے کے 309 افراد اسرائیلی عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔

غرب اردن کی طرح امریکی جامعات کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں۔ نیویارک کی جامعہ کولمبیا اور جامعہ کیلی فورنیا لاس اینجلس (UCLA)چھاونی کا منظر پیش کررہی ہیں جہاں درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کرکے طلبہ سے ہاسٹل خالی کرالئے گئے ہیں جبکہ داخلی راستوں پر پولیس کے مسلح سپاہی تعینات ہیں، طالبات سمیت 2500 طلبہ گرفتار ہیں جن میں سے بہت سوں کیخلاف دہشت گردی کے پرچے کاٹے جاچکے ہں۔ سینکڑوں طلبہ کو معطل کرکے انکے اخراج کیی کاروائی شروع کردی گئی ہے۔اساتذہ کیخلاف بھی کاروائی جاری ہے۔ جامعہ کولمبیا نے ماڈرن عرب اسٹڈیز کے پروفیسر محمد عبدۃ کو برطرف کردیا۔

امریکی صدارت کے دونوں بڑے خواہشمند جو ایکدوسرے کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں، طلبہ احتجاجی تحریک کو کچل دینے کیلئے  ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ صدر بائیڈن نے بہت ڈھٹائی سے کہا کہ 'جامعات میں مظاہروں سے میری اسرائیل کیلئے حمائت میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ آزادی اظہار رائے درست لیکن قانون شکنی کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں۔ انکے حریف ڈانلڈ ترمپ نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا 'کولمبیا یونیورسٹی میں پولیس کی کاروائی دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔پولیس نے دہشت گردوں کے 300 حامیوں کو گرفتار کرکے قابل تعریف کارنامہ سر انجام دیا۔'طلبہ بدمعاشی' کا موردِ الزام امریکی حکومت کو ٹہراتے ہوئے سابق امریکی صدر، نریندرا مودی کی طرح بولے  کہ یہ سب بائیڈن کی بے قابو امیگریشن پالیسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ یہاں آگئے ہیں۔

طلبہ تحریک کچلنے کیلئے  امریکی کانگریس (پارلیمان) بھی سرگرم ہے۔فلسطین کے حق میں مظاہروں اور دھرنوں کے ردعمل میں تعلیمی اداروں کو سیاسی سرگرمیوں سے پاک کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ کانگریس کے اسپیکر مائک جانسن نے اپنے عزم کا اظپار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیمپس میں یہود دشمنی (Anti-Semitism)کو پھلنے پھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔جامعات کی انتظامیہ یہودی طالب علموں کے تحفظ میں ناکامی پر جوابدہ ہوگی، خیمہ زنی 'برداشت' کرنے والی جامعات کے سربراہوں کو کمیٹی کے سامنے طلب کیا جائیگا اور 'نرمی' دکھانے والی جامعات کی وفاقی مدد معطل کردی جائیگی۔

پولیس گردی اور دھمکیوں کے باوجود طلبہ تحریک ٹھٹرتی نظر نہیں آرہی۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے طلبہ ونگ کالج ڈیموکریٹس (College Democrats) نے جامعات میں مظاہرے کی حمائت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ملک بھر کے طالب علموں کی جانب سے فلسطین میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاج ایک جرات مندانہ قدم ہے۔امریکی طلبہ اس جنگ کو تباہ کن، نسل کشی اور غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔ بیان میں صدر بائیڈن کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا بینجمن نیتن یاہو سے پیار ریچھ کو گلے لگانے کے مترادف اور یہ حکمت عملی جنگ کے خاتمے کے خواہشمند تمام امریکیوں کے لیے مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔

طلبہ تحریک کا تین نکاتی ہدف، وقف رقومات (Endowment Fund)کی اسرائیل نواز اداروں میں سرمایہ کاری بند کرنے،اسرائیلی جامعات سے علمی و تکنیکی تعاون کا خاتمہ اوراسرائیل کو نفع پہنچانے والے اداروں پر پابندیاں لگانا ہے جسے سیاسی اصطلاح میں BDSکہاجاتا ہے۔

ان اہداف کے حصول میں طلبہ کو جزوی کامیابی بھی ہورہی ہے۔ گزشتیہ ہفتہ ریاست روڈ آئی لینڈ (Rhodes Island) کی جامعہ براؤن (Brown University)  نے اعلان کیا کہ انکا کارپوریٹ بورڈ، وقف رقومات کی اسرائیل نواز کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کرنے پر غور کریگا۔ بورڈ کے آئندہ اجلاس میں فلسطین نواز طلبہ کے نمائندے اپنی رائے پیش کرینگے جسکے بعد شفاف رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کیا جائیگا۔ شیخ الجامعہ کرسٹینا پیکسن نے ایک بیان میں یقین دلایا کہ disinvestment کا فیصلہ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کی امنگوں کے مطابق ہوگا۔ ایسے ہی اعلانات نیوجرسی کی جامعہ رٹجر (Rutger University)، بوسٹن کی جامعہ نارتھ ایسٹرن (NEU)اور جامعہ کیلی فورنیا ریورسائڈ (UCR)سے بھی ہوئے ہیں۔ اسی کیساتھ جامعہ پورٹ لینڈ (PSU)نے لڑاکا طیارے بنانے والے ادارے بوئنگ کا عطیہ لینے سے وقتی طور پر انکار کردیا۔ اسکی تصدیق کرتے ہوئے جامعہ کی سربراہ محترمہ این کَڈ نے ایک خط میں بتایا کہ جامعہ مئی میں ایک اجلاس منعقد کریگی جس میں ہتھیار بنانے والےاس ادارے کے جامعہ سے تعلقات کا جائزہ لیا جائیگا

حکومتی مخالفت کے علی الرغم اکثر جامعات میں اساتذہ طلبہ کی پشت پر ہیں۔کولمبیا سے ملحق برنارڈ کالج کی سربراہ ڈاکٹر لاراروزنبری (Laura Rosenbury ) نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے 50طلبہ کو معطل کرکے ہاسٹل سے نکال دیا۔ردعمل کے طور پر کالج کی اکیڈمک کونسل نے ڈاکٹر صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرلی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طلبہ کے معاملے میں ایسی بے حس خاتون، سربراہی کی اہل نہیں، 77 فیصد اساتذہ نے تحریک کے حق میں ہاتھ بلند کئے۔

جامعہ ورمونٹ (University of Vermont)نے 19 مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد کیلئے اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ کو بطور کلیدی مقرر  مدعو کیا تھا۔ خیمہ زن طلبہ کو اسرائیل نواز سفارتکار کی جامعہ  آمد پسند نہ تھی۔ طلبہ کے مطالبے پر گرین فیلڈ صاحبہ سے دعوت واپس لے لی گئی۔

اسی روز برطانیہ کے برکلیز) (Barclays بینک نے 'رضاکارانہ' وضاحت جاری کی، جسکے مطابق 'بینک ان اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کرتاجو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔' بیان میں کہا گیا ہے کہ 'بارکلیز غزہ کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ہمیں وہاں ہونے والی خونریزی پر سخت تشویش ہے'۔

ہفتہ رفتہ جہاں دنیا نے امریکی طلبہ کی ثابت قدمی کا مظاہرہ دیکھا وہی امریکی قیادت کی کمزوری  بلکہ لاچارگی اور مغربی دنیا کا اخلاقی دیوالیہ پن بھی کھل کر سامنے آگیا یعنی سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ۔

ہفتوں سے خبر گرم تھی کہ امریکہ نے غرب اردن میں تعینات اسرائیلی فوج کی نسخِ یہودا Netzah Yehuda بٹالین پر پابندی لگانےکا فیصلہ کیا ہے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف وزریوں پر امریکی وزارت خارجہ نے ایک اعلیٰ اختیاراتی پینل تشکیل دیا جس نے پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔ سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس بتالین کے ہاتھوں 500 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔اس خبر پر اسرائیلی وزیراعظم بہت سیخ پاہوئے اورامریکیوں کو انجامِ بد سے خوب ڈرایا۔ پیر 29 اپریل کو امریکی حکومت کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج کے جن پانچ یونٹوں پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا ان میں سےچار نے شکایات کا مؤثر طریقے سے ازالہ کردیا ہے جبکہ پانچویں یونٹ کے بارے میں بھی اضافی معلومات جمع کرا دی گئی ہیں جنکا جائزہ لیا جارہا ہے۔ بقول مولانا فضل الرحمان 'کھودا پہاڑ نکلی چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی

اسرائیلی وزیراعظم، وزیردفاع اور چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے متوقع پروانہ گرفتاری روکنے کیلئے عدالت دھمکیوں کی زد میں ہے۔خبروں کے مطابق امریکی صدر بنفس نفیس عدالتی اہلکاروں پر دباو ڈال رپے ہیں۔کانگریس کے اسپیکر  نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف پروانہ گرفتاری کا اجرا ایک غیر اخلاقی و غیر قانونی قدم ہوگا جس سے امریکہ کے دفاعی مفادات پربھی ضرب پڑیگی۔ انھوں نے یہ نوید بھی سنادی کہ آئی سی سی کو کاروائی سے روکنے کیلئے امریکی کانگریس میں قانون سازی کا آغاز کردیا گیا ے۔ یکم مئی کو ڈیموکریٹک اور ریپبکن سینیٹروں کے مشترکہ وفد نے ICCحکام سے فون پر گفتگو کی۔ بات چیت کے دوران ججوں کو معاملے کی سنگینی سمجھنے کا مشورہ دیا۔امریکہ کے بعد G-7ممالک نے بھی پروانہ گرفتاری کو ناقابل قبول قراردے دیا۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال، عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔

غزہ کی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کیلئے تیار نہیں۔اہل غزہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی حکومت نے چھ ہفتے کی جنگ بندی اور غزہ سے جزوی واپسی کی پیشکش کی تھی لیکن اہل غزہ کے جواب سے پہلے ہی دینِ یہود جماعت کی رکن اور وزیر قبضہ گردی (Settlement) محترمہ عورت اسٹروک نے کہا 'ہمارے جوان سب کچھ پیچھے چھوڑ کر حکومت کے طئے کردہ اہداف کے لیے جانیں لڑارہے ہیں اور ہم 22 یا 33 افراد کو بچانے کیلئے اس گرم خون کو کوڑے دان میں پھینک رہے ہیں۔ ایسی حکومت کو باقی رینے کا کوئی حق نہیں'۔ اپنی ساتھی کی مکمل حمائت کرتے ہوے جماعت کے سربراہ اور وزیرخزانہ جناب اسموترچ بولے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے نیتن یاہو حکومت دہشت گردوں کو خطرناک 'تزویراتی مراعات' دینے پر آمادہ نظر آرہی ہے جو ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔

تین مئی کو  جناب  نیتھن یاہو نے  دھمکی دی کہ اگر ایک ہفتے کے اندر قیدی رہا نہ ہوئےتو ر فح پربری حملہ کردیا جائیگا، غزہ سے جو جوا ب آیا وہ کچھ اس طر ح تھا کہ 'آجا مورے  بالما تیرانتطار ہے'۔ عین اسی وقت  اپنی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کے سابق آپریشن چیف،  جنرل اسرائیل زیو نے کہا ہے کہ ر فح پر حملہ خود اسرائیل کیلئے تباہ کن ہوگا۔ وزیراعظم نیتھن اپنے قدامت اتحادیوان کو خوش کرنے کیلئے ایک خطرناک قدم اٹھارہے ہیں۔ ر فح حملے کا عسکری نتیجہ کچھ بھی ہو یہ ہمارےقیدیوں کیلئے موت کاپیغام ہے

امریکی وزیرخارجہ امن بات چیت کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا ذمہ دار مستضعفین کو قرار دے رہے۔ سعودی عرب سے اسرائیل واپس پہنچنے پر انھوں نے کہا مستضفین کا سخت رویہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسی کیساتھ انھوں نے اپنے قطری ہم منصب کو 'حکم' جاری کیا کہ اگر اہل غزہ امن معاہدہ قبول نہ کریں تو انکے قائدین کو قطر سے نکال دیا جائے۔

بھولے بلینکن کو کون یہ سمجھائے کہ دھونس اور زور سے امن معاہدہ نہیں ہوتا بلکہ ہتھیار ڈلوائے جاتے ہیں اور اگر مستضعفین کو ہتھیار ڈالنا ہوتا تو وہ عورتوں اور بچوں سمیت 35 ہزار افراد کی قربانی دیتے نہ اپنے ملک کو کھنڈر بنتا دیکھتے۔ آخر میں ایک امید افزا نوٹ پر نشست کا اختتام

اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں نے اپنی الگ دنیا آباد کررکھی ہے۔ان عقوبت کدوں میں حفظ قرآن کے مدارس، نغمات کی مجلسیں، مشاعرے اور ادبی نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے۔نظر بند ادیب و شاعر تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک  قیدی باسم خندقجی نے قصائص پر مشتمل ایک کتاب قناع بلون السما (اسمانی رنگ کا نقاب) لکھی جسے اس سال کے عرب فکشن Arabic Fictionایوارڈ سے نوازا گیا۔ فاضل مصنف 20 سال سے قیدہیں۔ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسیشل کراچی 10 مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 10 مئی 2024

روزنامہ امت کراچی 10 مئی 2024

ہفت روزہ رہبر دہلی 12 مئی 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, April 25, 2024

غزہ !!! سفاکی کے دوسو دن

 

سفاکی کے دوسو دن

قائدین پر زمین تنک

اسرائیلی معیشت اور اسرائلیوں کی صحت نازک ہورہی ہے

 تادیبی پابندیوں اور بی بی کے پروانہ گرفتاری کا امکان

منگل 23 اپریل کو غزہ قتل عام کے 200 دن پورے ہوگئے۔صرف غزہ ہی نہیں غربِ اردن بھی کربلا بناہواہے۔ڈرون حملوں اور بمباری کیساتھ فوج کی سرپرستی میں قبضہ گردوں (Settlers)  کی فائرنگ سے 500 نوجوان لقمہ اجل بنے، زخمی ان گنت اور ہزاروں افراد عقوبت کدوں میں ٹھنسے ہیں۔ نابلوس، الخلیل ، تلکُرم، اریحہ، قلقیلیہ، جنین، رام اللہ ، مشرقی بیت المقدس،  ہر جگہ ماتم کا سماں، یعنی ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ، تیس لاکھ انسانوں کیلئے ایک دہکتی بھٹی ہے۔ قتل عام، مکانوں اور دوکانوں کی تباہی کیساتھ زراعت ان وحشیوں کا خاص نشانہ ہے۔ یہاں کا ایک دیہی علاقہ قراوۃ بنی حسان  اپنی سرسبزی اور پھلوں کے باغات کیلئے سارے فلسطین میں مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں زینوں کے کچھ باغ ایسے ہیں جنکی کاشت حضرت یوسف ؑ کے بڑے بھائی یہودا نے  شروع کی تھی۔ سات اکتوبر کے بعد سے یہاں نئی فصل لگانے کی اجازت نہیں۔ گزشتہ ہفتےقبضہ گرد قراوۃ بنی حسان پر  چڑھ دوڑے۔ زیتون اور بادام کے باغ روند دئے گئے۔ نئے پودوں اور کونپلوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔

ہفتہِ رفتہ کے  دوران اہل غزہ میں قتل عام جاری رہا اور بمباری سے  ہونے والے جانی نقصان کا تخمینہ 34 افراد یومیہ ہے۔ اتوار کو خان یونس کے نصر ہسپتال میں ایک اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا۔اسرائیلی فوج نے ہسپتال خالی کرنے سے پہلے  18 بچوں سمیت 180 افراد کو گولی مار کر دفن کردیا۔ ماہرین کا خیال ہے کچھ جان بلب زخمی، زندہ دفن کر دئے گئے تھے۔

تاہم اپنی غاصبانہ ولادت کے بعد سے پہلی بار اسرائیل شرمندہ اور مدافعت پر مجبور نظرآرہا ہے ۔اس کا آغاز 14 اپریل کی صبح ایرانی ٖڈرون اور میزائیل حملے سے ہوا۔ایران کی اس کاروائی پر اسرائیلی قیادت کا اشتعال دیکھنے کے قابل تھا۔منہہ سے جھاگ اڑاتے نیتھن یاہو نے کہا کہ ہمارا جواب ایرانیوں کی نسلیں یاد کھیں گی۔ غرور کا یہ عالم کہ جب برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون اپنی جرمن ہم منصب کے ساتھ انکا غصہ ٹھنڈا کرنے بنفس نفیس تل ابیب آئے تو بی بی جی نے صاٖف کہدیا کہ 'احباب کا مشورہ سرآنکھوں پر لیکن ہم انتقام تو لینگے۔' بی بی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو امریکی یہاں تک کہہ گئے کہ ایران پر حملے کے بجائے شوقِ ستم رفح پو پورا کرلیجئے

شوروہنگامے کے بعد،  19 اپریل کو حملہ اس شان سے کیا گیاکہ خود انکے وزیر اندرونی سلامتی، اتامر بن گوئر نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک لفظی ٹویٹ میں بی بی کو'خوفزدہ کوّا' کہدیا۔ عبرانی اور انگریزی پر دسترس رکھنے والے لسانی ماہرین نے اس عبرانی لفظ کا انگریزی  مترادف اپاہج یا Lame قراردیا ہے۔ مزے کی بات کہ اب تک اسرائیل نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اصفہاں اور تبریزکا نشانہ بنایا گیا۔ اصفہان میں ایران کی جوپری تنصیات ہیں۔ اسرائیلی میڈیا نے تاثر دیا کہ گویا ایران کا جوہری اڈہ تہس نہس کردیا ہے لیکن عالمی جوپری توانائی ایجنسی (IAEA)نے اعلان کیا کہ ایران کے جوہری اثاثوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔اسی کیساتھ امریکہ کے سیارچوں (Satellites) نے اصفہان و تبریز کی صاف و شفاف تصاویر جاری کرکے اسرائیلی غبارے کو سوئی چھبھودی۔تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں گرائے جانے والے  ڈرونوں کے ملبہ صاف نظر آرہا ہے جس  سے ایرانیوں کے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی کہ چاروں حملہ آور ڈرون اصفہان کی شہری حدود سے باہر ہی گرالئے گئے۔ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی حکام نے کہا کہ ہمارے لئے یہ ایک فوجی مشق تھی جسکا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اہل غزہ جس آزمائش سے گزررہے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن اب ان کے قائدین پر زمیں تنگ ہوتی نظر آرہی ہے۔ جنگ بندی کے بارے میں مستضعفین کے بے لچک روئے سے جہاں اسرائیل اور امریکہ بہت پریشان ہیں وہیں مصر کے جنرل السیسی اور قطر کے امیر کا پیمانہِ صبر بھی لبریز ہونے کو ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق قائدین کو اشارے مل رہے ہیں کہ امیرِ ذی وقار امریکہ کی جانب سے سخت دباو میں ہیں۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عارضٰی جنگ بندی پر رضامند ہوکر اہل غزہ قیدی رہا کردیں۔امریکی سی ائی اے کے ڈائریکٹر  ولیم برنس صاٖف صاف کہہ چکے ہیں کہ قائدینِ غزہ کے بے لچک روئے کی وجہ سے غزہ کے شہری عذاب کا شکار ہیں۔ مستضعفین اسکے لئے تیار نہیں، انکا کہنا ہے کہ 35ہزار فلسطینیوں کی قربانیوں کو وہ ضایع نہیں ہونے دینگے۔ قطری حکام نے مبینہ طور پر قائدین غزہ کو پیغام پھجوادیا ہے کہ اگر ہماری بات نہیں ماننی تو پھر کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈ لو۔ اتوار 21 اپریل کو مسصعفین کا اعلیٰ اختیاراتی وفد ترکیہ پہنچا جہاں مبینہ طور پر صدر ایردوان سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا گیا۔ شنید ہے کہ عُمان نے  بھی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

دوسری جانب امریکی خبر رساں ویب سائت Axiousنے انکشاف کیا ہے کہ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکہ نے غرب اردن میں تعینات نسخ یہودا اسرائیلی بٹالین پر پابندی لگانےکا فیصلہ کیا ہے۔ لیہی (Leahy) قانون مجریہ 1997 کے تحت امریکی امداد یا اسلحہ وصول کرنے والی کوئی غیر ملکی فوج اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث پائی گئی تو اس  پر تادیبی پابندیاں لگادی جاینگی۔اسرائیل کی نسخ یہودا قدامت پسند حدیدی فرقے کے جوانوں پر مشتمل ہے۔ بٹالین میں توریت کی ہدایات پر سختی سےعمل کیا جاتا ہے جسے حقّہ (Halaka) کہتے ہیں۔ یہ بٹالین ایک برس سے غزب اردن میں تعینات ہے۔ سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس بتالین کے ہاتھوں 500 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ براہ راست قتل کے علاوہ بتالین کی سرپرستی میں قبضہ گرد (Settlers)بھی نہتے فلسطینوں کو قتل، انکے مکانات و جائیداد جلاتے، کھڑی فصلیں روندتےاور فساد مچاتے پھر رہے ہیں۔

دوروز قبل پیرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے کہا کہ (پابندی کے حوالے) سے انکی سفارش ایک مجاز پینل کی تفصیلی و شفاف تحقیقات پر مبنی ہے۔ جناب بلینکن نے یہ بھی کہا کہ ایک دوروز میں سرکاری اعلان متوقع ہے۔ اس خبر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نیتھں یاہو ٹویٹر پرچلائے کہ 'ایک ایسے وقت میں جب ہمارے فوجی دہشت گرد عفریت سے لڑ رہے ہیں، اسرائیلی فوج کےایک یونٹ پر پابندیاں لگانےکا ارادہ مضحکہ خیزی کی انتہا اور اخلاقی پستی ہے'

امریکہ  کے علاوہ بیگ کی عالمی عدالت سے آنے والی خبریں بھی بی بی کیلئے بہت اچھی نہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے وزیراعظم نیتھں یاہو، وزیردفاع اور فوج کے سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری کا اجرا بعید از قیاس نہیں۔ ٹی وی کے مطابق 16 اپریل کی رات وزیراعظم، وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز۔ وزیرانصاف یاریو لیون اور وزیرِ امور تزویرات (Strategy) ران ڈرمر کے درمیان کچن کیبنٹ کا اجلاس صبح تک جاری رہا، جس میں اس معاملے پر غور کیا گیا۔

اسرائیلی مظالم کی تفصیلات عام ہونے کیساتھ امریکہ اور یورپ میں یہود مخاف رجحان (Antisemitism) کے نام پر تعلیمی اداروں میں نظریاتی تطہیر کا کام جاری ہے۔ دسمبر کے آغاز پر امریکہ کی تین موقر ترین جامعات، ایم آئی ٹی(MIT)، ہارورڈ اور جامعہ پیسلوانیہ (UPenn)کے سربراہان کو کانگریس کی مجلس قائمہ کے سامنے طلب کیا گیا۔ نیویارک سے ریپبلکن پارٹی کی رکن محترمہ الیس اسٹیفنک (Else Stefanic) اس سماعت کی روح رواں تھیں انھوں نے  ہارورڈ کی سربراہ  ڈاکٹر کلاڈین گے  اور UPennکی صدر لز مگ گل (Liz Magill) سے انتہائی ناشائستہ انداز میں  بحث کی۔ اسٹافنک صاحبہ کا مطالبہ تھا کہ جامعات کے طلبہ کو 'پڑھایا' جائے کہ 7 اکتوبر کو اہل غزہ نے اسرائیل کو بربریت کا نشانہ بنایا۔جامعات کے سربراہان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے کنڈرگارٹن اسکول نہیں جہاں پڑھایا جاتا ہو بلکہ جامعات میں نظریات،  بیانئے، واقعات اور واردات کا تجزیہ کرتے ہوئے تمام فریقوں کے موقف اور شواہد ودلائل کا بے لاگ تجزیہ کیا جاتا ہے۔ استیفنک صاحبہ نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سربرایان سے استعفیٰ طلب کیا۔سماعت کے بعد اسرائیلی لابی نےاتنا شور مچایاکہ ٰہارورڈ اور UPennکی سربراہان مستعفی ہوگئیں۔ گزشتہ ہفتے  جامعہ کولمبیا کی سربراہ ، مصر نژاد ڈاکٹر  نعمت شفیق کو طب کیا گی جیاں طلبہ جامعہ کے ایک پارک پر قبضۃ کرکے خٰیمہ زن ہوگئے ہیں جسے وہ غربِ اردن کی علامتی قبضہ بستی (Settlement)قرار دیتے ہیں۔ رکن کانگریس اسٹیفانک صاحبہ ایک بار پھر غصے میں ہیں۔ سماعت کے دوران محترمہ شفیق نے کہا کہ  انکے پاس طلبہ کے حق اظہار اور حق اجتماع پر پابندی لگانے کا کوئی اختیار نہیں۔ قانون سازی کانگریس کا کام ہے وہ پابندی کا قانون مننظور کرلے تو ہم اپنی جامعہ میں اس پر عملدرآمد یقینی بنالینگے۔اب ڈاکٹر شفیق پر بھی استعفیٰ کیلئے دباو ڈالا جارہا ہے۔

اسرائیلی تعلیمی اداروں میں  فلسطیینیوں کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کی ایک مثال ہم گزشتہ نشست میں دے چکے ہیں جب جامعہ تل ابیب کی ایک سینئر لیکچرر کے خلاف صرف اس بنیاد پر مجرمانہ تحقیق کا کھاتہ کھولدیا گیا کہ انھوں نے ایک فوت ہوجانے والے فلسطینی قیدی کی تعزیت کی تھی۔ایسا ہی کچھ امریکہ میں بھی ہورہا ہے۔جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC)نے 10 مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں الوداعی خطاب یا Valedictorianمنسوخ کردیاہے۔ تقریب میں فارغ التحصیل ہونے والے سب سے لائق و فائق طالب علم کی طرف سے الوداعی خطاب امریکی جامعات کی روائت اہے۔ اس بار خطاب کیلئے بنگلہ دیش نژاد طالبہ اثنا تبسم کا انتخاب ہوا اور جلسے کے دعوت نامے میں اثنا کا نام بھی شایع کردیا گیا۔ مخصوص گروہ نے گزشتہ دنوں 'انکشاف' کیا کہ اثنا سوشل میڈیا پر غزہ میں اسرائیلی وحشت کو نسل کشی کہتی ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں میں نہ صرف شرکت کرتی ہےبلکہ دوست احباب کو بھی ساتھ لیکر کر جاتی ہے۔ تین دن پہلے جامعہ کے نگراں کار (Provost)ڈاکٹر اینڈریو گُزمین نے اثنا کاالوداعی خطاب منسوخ کرتے ہوئے فرمایا کہ 'بات آزادی اظہار رائے کی نہیں بلکہ اس سے جامعہ، اسکے طلبہ،اساتذہ اور جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہونے والے 65 ہزار افراد کی سیفٹی  خطرے میں پڑسکتی ہے۔ معلوم نہیں پانچ منٹ کی تقریر سے کیا قیامت آجاتی۔

ظلم و زیادتی، سینسر وپابندی اور انسانیت سوز تشدد نے جہاں دنیا بھر کے سلیم الفطرت لوگوں کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، وہیں یہ وحشت خود اسرائیلی شہریوں کیلئے بھی عذاب بنتی جارہی ہے۔صحت کی خدمات فراہم کرنے والے ملک کے دوسرے بڑے ادار ے مکابی ہیلتھ کئر سروسز (Maccabi Healthcare Services) کے ایک جائزے کے مطابق صرف 46 فیصد اسرائیلی شہری جسمانی اور دماغی طو ر پر خود کو صحت مند سمجھتے ہیں۔ سترہ فیصٖد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بہت کمزور اور بیمار ہوگئے ہیں۔ دائمی امراض میں مبتلا 35 فیصد افراد کا خیال ہے کہ غزہ حملے کے بعد انکی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔طبی سہولتوں، معالجین اور شفاخانوں پر جنگ کے زخمیوں اور متاثرین کا ہجوم کی وجہ سے عام لوگ نظر انداز ہورہے ہیں۔ نفسیاتی صحت کا معاملہ بھی کچھ اچھا نہیں۔جائزے کے مطابق صرف 35 فیصد اسرائیلیوں کو اپنی دماغی اور جذباتی  صحت پر عتماد ہے۔

انسانی صحت کے ساتھ اسرائیل کی معاشی صحت  بھی اضمحلال کی طرف گامزن ہے۔ امریکہ نے غزہ قتل عام کیلئے اپنے خزانوں کے منہہ کھول دئے ہیں۔ بمبار طیاروں، مہلک میزائیلوں اور توپ کے گولوں سے لیکر سپاہیوں کے adult diapersتک امریکہ سے مفت آرہے ہیں۔ اسکے باوجود تل ابیب نے دسمبر میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 43 ارب ڈالر قرض لئے۔غزہ حملے سے پہلے قرض کا حجم مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 60 فٰیصد کے مساوی تھا جو گزشتہ برس بڑھ کر 62.1فیصد ہوگیا اور اکاونٹنٹ جنرل یالی روٹنبرگ کا خٰیال ہے کہ 2024 میں قرض کا بوجھ جی ڈی پی کا 67 فیصد ہوجائیگا.دوماہ قبل Moody'sنے اسرائیل کی ساکھ، مستحکم (Stable) سے کم کرکے منفی (Negative)کردی تھی جسکی وجہ سے قرضوں پر سود کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔

ایک دلچسپ  نکتےپر گفتگو کا اختتام۔ غزہ نسل کشی میں امریکی صدر کی سہولت کاری پر مظاہروں کے دوران Genocide Joe کا نعرہ عام ہے۔ گزشتہ ہفتے  سابق صدر ٹرمپ کے انتخابی جلسے میں انکے حامیوں نے بھی یہ نعرہ لگادیا، حالانکہ اسرائیل کی حمائت میں جناب ٹرمپ، بائیڈن سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ تاہم وہ نعرے سن کر مسکراتے اور حمائت میں ہاتھ ہلاتے رہے۔ ایک صحافی نے جب ان سے پوچھا کہ یہ کیسا نعرہ ہے تو موصوف بولے 'لوگ غلط کیا کہہ رہے ہیں۔ یعنی یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 26 اپریل 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 اپریل 2024

روزنامہ امت 26 اپریل 2024

ہفت روزہ رببر، سرینگر 28 اپریل 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Friday, April 19, 2024

اہل غزہ کی لہو رنگ عید

 

اہل غزہ کی لہو رنگ عید

اپنے خون  میں غسل کرتے اہلِ غزہ کی عید بھی  لہو رنگ رہی۔ آخری روزے کے افطار کے وقت سے شروع ہونے والا بمباری کا سلسلہ عید کے دن مغرب تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 120 مقامات پر بمباری کی گئی۔بچی کھچی مساجد اور کھلے مقامات پر عید کے اجتماعات ان بمباروں کے خاص ہدف تھے۔

شمالی غزہ کے  پناہ گزینوں کے کیمپ مخیم الشاطی پر ٹھیک اسوقت حملہ کیا گیا جب وہاں لوگ عید مل رہے تھے۔ قائدِ غزہ اسماعیل ہانیہ کا خاندان ہدف تھااور انکے تین صاحبزادے  حازم، عامر اور محمد، ہانیہ صاحب کی تین پوتیاں اور ایک پوتے سمیت درجنوں افراد اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایک دہشت گرد کاروائی کا منصوبہ بنارہے تھے۔اسماعیل ہانیہ نے 62 برس پہلے اسی کیمپ میں جنم لیااور یہاں  آباد انکا خاندان حملے کے آغاز سے ہی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ پہلے روز ایک حملے میں انکے بھائی اور بھتیجے سمیت خاندان کے 14 افراد مارے گئے۔ نومبر کے آغاز پر انکی جوانسال نواسی نشانہ بنی جسکے کچھ دن بعد ایک ڈرون انکے کم عمر نواسے کو چاٹ گیا۔سات اکتوبر سے اب تک ہانیہ خاندن کے 60 افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔

عید کے دن ہونے والی کاروائی کی اطلاع جناب ہانیہ کو اسوقت ملی جب وہ قطر کے ایک ہسپتال میں اپنی اہلیہ کی عیادت کیلئے آئے تھے۔یہ خبر سنتے ہی انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور کہا 'اللہ کا شکر کہ جس نے میرے خاندان کوشہادت کا افتخار عطا کیا۔ میرے بچوں کا لہو غزہ میں قتل کئے جانیوالے ہزاروں بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ہمارے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو قتل کرکے اگر دشمن سمجھتا ہے کہ ہم ہتھیار ڈالدینگے تو یہ انکی بھول ہے۔ غزہ کے بچوں کے پاک لہو نے فتحَ بیت المقدس کی تحریک کو مزید مقدس کردیا ہے۔' دعائیہ کلمات کے بعد ہانیہ صاحب نے عیادت جاری رکھی اور وہ مخصوص مسکراہٹ کیساتھ دعائے شفا پڑھتے ہوئے مریضوں کی پیشانیاں سہلاتے رہے۔ اپنی اہلیہ کو  تین بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت کی اطلاع انھوں نے خود دی۔ خبر سنتے ہی بیگم اسماعیل ہانیہ نے ہاتھ بلند کرکے اپنے بیٹوں کی بلندی درجات کی دعا کی اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔

یہ توایک واقعہ تھا۔غزہ سے اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت کی ہولناک خبریں روز ہی آرہی ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کیساتھ طبی سہولیات کو ہدف بناکر تباہ کیا جارہاہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق اکتوبر کے آغاز سے اب تک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 489افراد جاں بحق ہوئے،  600سے زیادہ زخمی اور310افراد گرفتار کرکے عقوبت کدوں کو بھیج دئے گئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ ہسپتال اور شفاخانے تباہ ہوچکے ہیں جبکہ غیر موثر کردئے جانیوالی طبی مراکز کی تعداد 32 ہے۔ مشہور الشفا ہسپتال کے بڑے حصے کو سرنگ تلاش کرنے کے نام پر نذرآتش کردیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ایمبیولینسوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے اور کم ازکم 126ائمبیولینسوں کو اسوقت نشانہ بنایا گیا جب ان میں مریض سوار تھے۔

بچوں اور خواتین کے قتل عام، گھروں میں گھس کر سامان کی توڑ پھوڑ اور وہاں موجود نہتی خواتین سے نازیبا حرکتوں کی خبریں بھی عام ہیں اور بے شرمی کی انتہا کہ ناشائستہ سمعی و بصری تراشے  اسرائیلی سپاہی سوشل میڈیا پر خود پیش کررہے ہیں۔ ان خبروں اور تراشوں سے دنیا بھر کے سلیم الفطرت انسان تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس تشویش کا 'دف' مارنے کیلئے اب اسلای انتہا پسندی کا کارڈ کھیلا اور اسلامو فوبیا کو ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے۔ 23 مارچ کو ماسکو کی رقص گاہ میں ہونے والی کاروائی سے اس نئے مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں 145 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ ماسکو واردات کے ملزمان تو مسلمان اور مبینہ طور پر داعش سے وابستہ ہیں لیکن چاروں ملزمان فرار ہوتے ہوئے یوکرین کی سرحد کے قریب سے گرفتار ہوئے اور روسی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ پورا ٹولہ یوکرین سے آیا تھا۔یورپ میں کئی جگہ دہشت گردی کے خطرات کو بہانہ بنا کر فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ جگہ جگہ معبدوں اور گرجا گھروں کے قریب 'مشتبہ سرگرمی' کے شوشے عام ہیں۔

جمعرات 11 اپریل کو کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے تفویض (Appropriation)کے روبرو وفاقی ادارہ تحقیقات (FBI)کے سربراہ کرسٹوفر رے نے  امریکہ میں ماسکوکی طرز کی ایک خوفناک اور بہت ی منظم دہشت گردکاروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ضروری قانون سازی پر زور دیا۔ اس سے موصوف کی مراد 9/11 کے بعد منظور کئے جانیوالاغیر ملک سراغرسانی و نگرانی ایکٹ یا FISA تھا، جسکی صدر بائیڈن تجدید چاہتےہیں۔ اس قانون کے تحت امریکی اہلکار امریکہ اور امریکہ سے باہر بلا وارنٹ کسی بھی غیر امریکی کی نقل و حرکت کی نگرانی کرسکتے ہیں جس میں فون ریکارڈنگ اور برقی خط وسوشل میڈیا کی جاسوسی شامل ہے۔ 

اہل غزہ کی منظم نسل کشی کیساتھ اسرائیل کے طول و عرض میں قیدیوں کی واپسی کیلئے مظاہرے جارے ہیں، چھ ماہ مکمل ہونے پر تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ جلوس میں شامل لواحقین فریاد کررہےتھے کہ 'بی بی جی!! جنگ بند کرو، ہتھیار رکھو، ہتھیار ڈالو، غزہ سے واپس آجاو، سارے فلسطینی قیدی رہا کردو یا اور جو کچھ ممکن ہے کرو لیکن ہمارے پیاروں کو دوبارہ ہم سے ملادو'۔ ایک بڑے بینر پر لکھا تھا 'بائیڈن ! ہمارے قیدیوں کو نیتھن یاہو (کی انا سے) بچاو'

بی بی کیلئے دلدل سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔انکے قدامت پسند اتحادی 'فتح مبین' یعنی رفح کی پامالی اور مستضعفین کے مکمل خاتمے سے کم پر راضی نہیں۔ دودن پہلے انکے اہم شراکت دار اتامر بن گوئر نے کہا کہ ' اگر وزیر اعظم رفح پر حملے اور دشمن کو فنا کئے بغیر جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انکا حق حکمرانی(مینڈیٹ) ختم ہوجائیگا۔ 120 رکنی پارلیمان میں جنگجو انتہاپسندوں کی 14نشستیں، نیتھن یاہو کی حکومت گرانے کیلئے کافی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی حزب اختلاف اور قیدیوں کے لواحقین ابتدا ہی سے شاکی ہیں کہ وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی کو اپنے قیدیوں کی بحفاظت واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بی بی اپنے جرنیلوں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ قیدیوں کو طاقت کے بل پر رہا کرایا جائے اور اس کوشش میں کم از کم پانچ قیدی خود اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

انکی خودغرض طبیعت کا بھانڈہ 11 اپریل کو اس وقت پھوٹ گیا جب مشہور اینکر محترمہ الانا دایان Ilana Dayanنے چینل 12 پر اپنے پروگرام 'حقیقت '(عبرانی حفضہ یا Uvda)پر اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے دو سینئر ارکان کی گفتگو نشر کی۔ جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کیلئے Aاور D کے فرضی نام استعمال کئے۔ انکی تصاویر دھندلی اور آواز بدل دی گئی تھی۔

دونوں نے انکشاف کیا کہ 'نیتن یاہو اسرائیلی قیدیوں کی قسمت کے بارے میں لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور انکے اس روئے کی وجہ سے رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ بی بی عوام کے سامنے جو بیانیہ رکھ رہے پیں وہ انکے عملی اقدامات سے بالکل مختلف ے۔

دسمبر کے بعد سے ہمیں اشارے ملنے لگے تھے کہ وزیراعظم مذاکرات نہیں چاہتے اور جنوری کے اختتام پر ہمیں یقین ہوگیا کہ وزیراعظم مذاکرات کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں بی بی کے روئے کو 'سرد بے حسی' کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔سفارتی حکمت عملی کے باب میں نیتن یاہو نئے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

الانا کے ایک سوال کے جواب میں D کھل کر بولے "یہ کہنا مشکل ہے کہ نیتن یاہو کے بغیر (اب تک) کوئی معاہدہ ہوچکا ہوتا، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نیتن یاہو کے بغیر، معاہدہ کرنے کے امکانات بہتر ہوں گے" ۔ D نے مزید کہا ''ایسا کئی بار ہوا کہ ہمیں دن میں مینڈیٹ ملا اور پھررات کو وزیر اعظم نے فون کرکے کہا 'ایسا مت کہو، یہ شرط نہ مانو، اس کی اجازت نہ دو'

D صاحب کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے حکم پر اسرائیلی ٹیم ناممکن مطالبات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جیسے مارچ میں زندہ یرغمالیوں کی فہرست کا مطالبہ، جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اہل غزہ راضی نہیں ہونگے۔ یہ مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز تھا، اسلئے کہ ہمارے پاس پہلے سے یہ فہرست موجود ہے۔ معلوم نہیں ہم مستضعفین سے یہ مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔

جناب A نے جذباتی انداز میں کہا'جب مجھے احساس ہوا کہ ریاست وہ سب کچھ نہیں کر رہی جو وہ کر سکتی ہے، تو میں رو پڑا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ معاہدہ ہونے تک کون زندہ ہوگا یا کیا باقی وہ جائیگا'

'قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ دوماہ پہلے ہوسکتاتھا، میں قوم کو کیسے بتاوں کہ خاکم بدہن، قیدیوں کی رہائی کا وقت ختم ہو نہیں رہا بلکہ ختم ہو چکا'

بی بی نے فلسطینیوں سے نفرت کی آگ بھڑکاکر اسرائیلی قوم کو عدم برداشت کی جس کھائی میں گرادیا ہے اسکی ایک مثال پر گفتگو کا اختتام۔اسرائیلی پولیس جامعہ تل ابیب کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر اناث مطار (Anat Matar)کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے الزامات کی تحقیق کررہی ہے۔ ڈاکٹرمطار ایک راسخ العقیدہ یہودی اور 2004 سے یہاں فلسفے کی لیکچرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہےکہ انھوں نے ممتاز فلسطینی ادیب و دانشور ولید دقہ کے وفات پر انکے خاندان سےتعزیت کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا کہ 'ڈاکٹر دقہ میرے عزیز دوست اور حوصلہ مندی کا استعارہ تھے'۔ ڈقہ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے تھے کہ 7 اپریل کو انکا دوران حراست انتقال ہوگیا۔ ولید دقہ نے بی اے اور ایم اے جیل سے کیا۔ پی ایچ ڈی میں انکی ایڈوائزر ڈاکٹر مطار تھیں لیکن تکمیل سے پہلے ہی دقہ مرحوم چل بسے۔

فیس بک پوسٹ دیکھ کر جامعہ کے انتہاپسندوں سے زبردست مظاہرہ کیا۔ انکا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اناث مطار کو ولید دقہ کی خالی کوٹھری بھیج دیاجائے۔ خبر ہے کہ جامعہ نے تحقیقات مکمل ہونے تک ڈاکٹر صاحبہ کو بلاتنخواہ جببری تعطیل پر بھیج دیا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جامعات ٹحقیق و جستجو کا مرکز ہوتی ہیں اور آزادی اظہار کے بغیر محققین کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ستم ظریقی نے امریکی و یورپی ماہرین تعلیم کا اب تک اس حوالے کو کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، ہفت روزہ دعوت دہلی، روزنامہ امت کراچی 19 اپریل 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 1 اپریل 2024، روزنامہ قوم صحافت لکھنو


اسرائیل پر ایران کا حملہ

 

اسرائیل پر ایران کا حملہ

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر 185 شاہد ڈرون، 110 میزائیل، 36 کروز اور متعدد منجنیقی (ballistic)میزائیل داغ دئے۔ پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس مہم کا آغاز عراقی صوبے دیالہ کے قریب ایرانی سرحد سے ہوا۔یمن کے حوثیوں، لبنانی حزب اللہ اور عراقی ایران نواز عناصر نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔ ایران کا حملہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں تھا بلکہ اس حملے کی سب سے منفرد بات پی یہ تھی کہ اس میں رازداری کا تکلفاً بھی خیال نہیں رکھا گیا اور ایران نے سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔

 دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیل کے میزائیل حملے کا تہران نے بدلہ لینے  کا اعلان کیا تھا۔ یکم اپریل کو ہونے والی میزائیل باری میں 16 افراد جاں بحق ہوئے جن میں پاسداران انقلاب ایران کے سینئیر کمانڈر بریگیڈئر جنرل محمد رضا بھی شامل تھے۔

ایران نے حملے کے لئے اپنی تیاریوں کو خفیہ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور 12 اپریل کو امریکی صدر جوبائیڈن نے بہت اعتماد سے کہا کہ ایرانی حملہ 24 گھنٹے میں متوقع ہے اور اسکے ساتھ ہی اسرائیلی دفاع کی بنفس نفیس نگرانی کیلئے امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا تل ابیب پہنچ گئے۔

ہفتے کی رات ایرانی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ 'قابض صیہونیوں' پر میزائیل اور ڈرون داغ دئے گئے ہیں۔ٹھیک اسی وقت اسرائیلی فوج کے ترجمان نائب امیر البحر ڈینئل ہگاری قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور کہا کہ ہم غافل نہیں۔ اسرائیل کا دفاعی نطام مستعد و چوکس ہے۔ انھوں نے اسرائیلی شہریوں کو حفاظتی اقدامت اختیار کرنے کی ہدائت کرتے ہوئے کہا کہ Killer Drone  نصف شب (پاکستانی معیاری وقت مطابق اتوار کی صبح ساڑھے تین  بجے) تک اسرائیلی حدود میں داخل ہونگے اور انکے استقبال کو ہم تیار ہیں۔

اسی کیساتھ امریکہ نے اسرائیل کے تحفظ کیلئے اردن، عراق و شام کی فضاوں پر حفاظتی چھتری (Aerial umbrella)تان دی۔ امریکہ، برطانیہ اور اردنی فضائیہ کے طیارے  فضا میں بلند ہوئے  اور ایرانی ڈرونوں کو روکنے کی کاروائی کاآغاز ہوا۔اسرائیلیوں کے اعتماد کا یہ عالم کہ چینل 12 نے ایرانی ڈرون ، راکٹ اور میزائیلوں کے اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے کی تفصیل اسکرین پر لگادی جسے ہر پانچ منٹ بعد updateکیا جارہا تھا۔

امریکہ کے دفاعی نظام نے اکثر ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیلی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناکارہ کردیا۔ اسرائیل کی فضا نصف شب کے بعد میزائل شکن مزاحمتی گولوں Interceptorکے دھماکوں سے گونچ اٹھی ۔ڈرون اور مزاحمتی گولوں کے تصادم سے آسمان پر پھلجڑی کا سمان بندھ گیا۔ مسجد اقصٰی اور گبند صحرا کے اوپر بھی یہی منظرتھا۔

ڈرون اور میزائیل داغے جانے کے فورآٍ بعد پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تہران نے  'قوام متحدہ کے چارٹر 51کے تحت کاروائی کی ہے جو تمام اقوام کو دفاع کاحق دیتا ہے، ہمارا مشن مکمل ہوگیا۔ایران کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا۔ ساتھ ہی کہا کہ 'اس معاملے میں امریکہ ٹانگ نہ اڑاے'

صبح پانچ بجے اسرائیل  میں خطرہ ٹلنے کے سائرن کیساتھ اعلان ہوا کہ 'میزائیلوں کی بارش تھم چکی اہے اور شہری اب معمول کی مصروفیات شروع کرسکتے ہیں' تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایران کا خوفناک حملہ ناکام بنادیا، انکے 99 فیصد ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیل نے اپنے 'اتحادیوں' کی مدد سے فضامیں ناکارہ کردیا ہے۔ترجمان کے مطابق ایک میزائیل گرنے سے صحرائے نقب (Negev Desert)کے شہر ارد یں ایک سات سالہ بچی شدید زخمی ہوئی اور جنوبی اسرائیل میں ایک فوجی اڈے کی عمارت کو معمول نقصان پہنچا۔

اس مشن کے نتیجے میں ایران نے یہ ثابت کردیاکہ اسکے ڈرون اور میزائیلوں کی پہنچ اسرائیل تک ہے۔ کم ازکم تین ایرانی میزائیل اسرائیلی اڈوں تک پہنچے اور F-35 طیاروں کے ایک اڈے کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تاہم اس سے صرف عمارت کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا۔ یعنی رت  جگے اور اعصاب شکن اضطراب کے سوا اسرائیلیوں کا کوئی خاص زِک نہ پہنچی۔آئرن ڈوم اور اس سے متعلقہ اخراجات چچا سام کے سر ہیں اسلئے مالی بوجھ بھی کوئی خاص نہیں۔

اس قسم کی کاروائی میں رازاداری کوکلیدی حیثیت حاصل ہے یعنی دشمن کو  بےخبری میں دبوچ کر ہی کاری ضرب لگائی جاتی ہے لیکن ایران کا ہر عمل انتہائی شفاف تھا۔ ایسا کیوں ہوا، اسکا جواب عسکری ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

سات اکتوبر کے بعد یہ غزہ کی انتہائی پرسکون شب تھی کہ وہاں تعینات تمام بمبار طیارے اور خونی ڈرون ایرانی ڈرونوں اور میزائیلوں کا تعقب کررہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ اس دوستانہ میچ  کا سب سے مثبت پہلو تھا



Wednesday, April 17, 2024

آزادی اظہار ۔۔۔ دہرا معیار

 

آزادی اظہار ۔۔۔ دہرا معیار  

کل امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ پم پاکستان میں آزادیٔ اظہار کے لیے کام جاری رکھیں گے۔

اور

آج صبح امریکہ کی موقر دانشگاہ جامعہ جنوبی کیلی فورنیا المعروفUSCکے نگراں کار (Provost)ڈاکٹر اینڈریو گُزمین نے 10 مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں الوداعی خطاب یا Valedictorian خطاب منسوخ کردیاگیا

جلسہ تقسیم اسناد میں فارغ التحصیل ہونے والے سب سے لائق و فائق طالب علم کی طرف الوداعی خطاب امریکی جامعات کی روائت اہے۔ اس خطاب کیلئے طالب علم کا انتخاب اسکی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں اور دوسری صلاحیتوں کی بنیاد پر سینئیر اساتذہ کرتےہیں۔

جامعہ USC کے جلسہ تقسیم اسناد کے الوداعی خطاب کیلئے 100 طلبہ میں سے بنگلہ دیش نژاد طالبہ اثبا تبسم کا انتخاب ہوا اور جلسے کے دعوت نامے میں اثنا کا نام بھی شایع کردیا گیا

مخصوص گروہ کی جانب سے گزشتہ دنوں 'انکشاف'  ہوا  کہ اثنا نے غزہ میں اسرائیلی کاروائی کو سوشل میڈیا پر  نسل کشی قراردیا ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں میں نہ صرف شرکت کرتی ہےبلکہ دوست احباب کو بھی ساتھ لیکر کر جاتی ہے۔

آج پرووسٹ صاحب نے اثنا کالوداعی خطاب منسوخ کرتے ہوئے فرمایا کہ 'بات آزادی اظہار رائے کی نہیں بلکہ جامعہ، اسکے طلبہ،اساتذہ اور جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہونے والے 65 ہزار افراد کی سیفٹی کا ہے۔

پانچ منٹ کی تقریر سے معلوم نہیں کیا قیامت ٹوٹ پڑتی